دیکھو قلندر ! میں چاہتا ہوں کہ تم کوئی نوکری کرلو اور اب یہ آوارہ گردی چھوڑ دو
اس کے باپ نے اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا۔
اس نے جاگرز کے تسمے باندھنے کا کام جاری رکھا اور تھوڑی دیر میں یہ کہتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا کہ وہ فٹ بال کھیلنے جارہا ہے۔گھر سے نکل کر اپنی گلی کو عبور کرکے وہ بازار میں پہنچا اور اور بازار کی سڑک کو عبور کرکے اپنے شہر کے ہائی اسکول کے مرکزی گیٹ کے سامنے پہنچ گیا۔چھوٹا گیٹ کھلا تھا جس میں سے گزر کر وہ اسکول کے گراؤنڈ میں پہنچ گیا جہاں پہلے ہی اور لڑکے جمع تھے اور ان میں سے ایک لڑکا جو اس کا ہم عمر ہی ہوگا اسے دیکھ کر اس کی طرف بڑھا اور بے اختیار اس کے گلے لگ گیا۔
مجھے لگا کہ قلندر آج نہیں آئے گا؟
اس لڑکے نے کہا۔
شاہد ! تمہیں ایسا کیوں لگا؟
بس مجھے یونہی لگ رہا تھا۔نہیں یار، تم سے ملے بغیر ایسے لگتا ہے جیسے دنیا کا کوئی اہم کام آج کرنے سے رہ گیا ہو۔
قلندر نے کہا۔
اس کے بعد دونوں باقی لڑکوں کے ساتھ ملکر فٹبال کھیلنے لگے۔
قلندر رات کو گھر پہنچا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔اس کی چارپائی کے ساتھ ہی ایک میز اور کرسی پڑی تھی۔میز پہ کاغذ ،کچھ کتابیں اور قلم پڑا تھا اور ساتھ ہی ٹیبل لیمپ تھا۔وہ چارپائی پہ کچھ دیر بیٹھا رہا ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہے، پھر وہ کرسی پہ بیٹھ گیا،اس نے ٹیبل لیمپ جلایا اور قلم اٹھاکر کچھ لکھنے لگا۔کافی دیر تک اس نے سات آٹھ صفحے لکھے اور ٹیبل کے ساتھ دراز کھولی اور ایک فاائل وہاں سے نکالی اور اس میں یہ کاغذ کلپ کرڈالے۔
ادھر اس کے والد اور والدہ بھی اتنی رات گزر جانے کے بعد ابھی تک جاگ رہے تھے۔
قلندر کی ماں !مجھے قلندر کی بہت فکر ہے،نہ یہ آگے پڑھ رہا ہے اور نہ یہ جاب کرنا چاہتا ہے۔اور اس کے کچھ نہ کرنے کا سب سے بڑا شاہد سے اس کی دوستی ہے،جب تک یہ دونوں ملیں گے قلندر آگے کچھ کرنے کی نہیں سوچے گا۔
تو تم ایسا کرو کہ شاہد کو کسی کام دھندے پہ لگادو، تاکہ یہ جوڑی ٹوٹ جائے۔
قلندر کی ماں نے کہا
قلندر کے ابّا نے اگلی صبح اپنے ایک دوست سے بات کی جو وہاں کے مقامی ایم این اے کے بہت قریب تھا۔اس نے بتایا کہ ملٹری اکاؤنٹس میں کچھ نوکریاں آئی ہیں لیکن تھوڑے سے پیسے دینے ہوں گے۔قلندر کے ابّا نے کہا کہ بات کرو ،میں انتظام کرتا ہوں۔اور اس کے ابّا آفس سے واپسی پہ شام شاہد کے گھر گئے اور اس کے والد سے بات کی۔اور شاہد کو بلاکر کہا کہ وہ اپنا سی وی اور درخواست تیار کرنے کے لئے کل ان کے آفس آجائے،شاہد اگلی صبح ان کے آفس پہنچ گیا۔فائل تیار ہوئی اور اسے کہہ دیا گیا کہ کل بنوں میں ملٹری اکاؤنٹس آفس میں اسے جمع کرائے۔شاہد نے فائل جمع کرائی اور یوں شاہد ملٹری اکاؤنٹس آفس بنوں میں ملازم ہوگیا۔قلندر شاہد کے جانے سےکافی اداس تھا ۔اس اداسی اور کسک نے اس کے اندر جو بھانبڑ مچا تھا اسے اور تیز کردیا۔اور اسی دوران اس نے بھی اسلام آباد میں ایک نوکری کرلی۔اور وہیں ایک سال تنخواہ سے پیسے اکٹھے کرکے اس نے اپنی تحریروں کو چھپوانے کا فیصلہ کرلیا۔اور کتاب ایک معروف اشاعتی ادارے سے شائع ہوئی یوں سب کو پتا چل گیا کہ قلندر تو بہت زبردست شاعر ہے۔اس کی پہلی کتاب کا انتساب بھی شاہد کے نام تھا ۔ شاہد کو کتاب کی تقریب رونمائی میں اس نے مدعو کیا اور اس کو اسٹیج پہ اپنے ساتھ بٹھایا۔شاہد اس دوران اسے کچھ بدلا بدلا لگا ۔کھویا کھویا اور تھوڑا درشت بھی۔ابھی وہ اسلام آباد ہی میں تھا جب ایک دن اسے خبر ملی کہ اس کے چچا اور ان کے دو بیٹوں کو ان کے آبائی شہر میں ایک چوک پہ گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔وہ اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر پہنچا تو چچا کے گھر میں کہرام مچا ہوا اور وہ خود بھی ہل کر رہ گیا تھا۔رسم قل کے بعد وہ واپس اسلام آباد آگیا۔ابھی ہفتہ بھر ہی گزرا تھا کہ اسے پتا چلا کہ اس کے دوسرے چچا اور ان کے تین بیٹوں کو بھی ٹارگٹ کلرز نے قتل کردیا ہے۔اور اب اس خاندان میں بس قلندر اور اس کے ابّا ہی دو مرد رہ گئے ہیں۔وہ واپس شہر آیا اور پھر اسلام آباد نہ گیا۔کچھ دن کے لئے بنّوں جانا چاہتا تھا لیکن جب بنوں پہنچا تو پتا چلا کہ شاہد تین ماہ سے نوکری سے بنا بتائے غائب تھا اور اس کی برطرفی کے احکام بھی جاری کر دئیے گئے تھے۔وہ واپس شہر آیا اور شاہد کے گھر گیا تو انہوں نے بھی شاہدکے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔اس نے پوچھا کہ کیاآپ نے پولیس کو رپورٹ کی؟ لیکن اس کے گھر والے ایسے مطمئن تھے جیسے ان کو شاہد کے غائب ہونے پہ کوئی پریشانی نہ ہو۔اس نے اپنے طور پہ معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ پتا نہ چلا۔ایسے ہی کئی ماہ گزر گئے۔اب اس کے ابّا اسے کام کرنے کو نہیں کہتے تھے۔ویسے بھی اب ان کے گھر میں ان کے دو چچا اور پانچ کزنز کے پسماندگان جو عورتیں ہی تھیں منتقل ہوچکی تھیں اور ان سب کا خیال قلندر اور اس کے ابا کرتے تھے۔اس دوران اس کی شاعری میں اور درد آگیا اور اس میں شاہد کا دکھ بھی تھا۔اور یوں اس کی شاعری کی دوسری کتاب بھی آگئی۔
ایک دن صبح سویرے جب وہ آئینے کے سامنے کھڑا بال بنارہا تھا تو اس کے ابا حسب معمول اس کے پاس سے گزرے اور اپنے آفس جانے کے لئے گھر سے نکلے،رکشے والا آچکا تھا۔یہ رکشے والا روز ان کو لينے آتا تھا۔اسلم نامی یہ رکشے والا ان کے نحلے کا تھا۔ قلندر کے گھرانے کی بہت عزت کرتا تھا۔شاہ صاحب کو آفس لیکر جانا اور گھر واپس لیکر آنا اس کا معمول تھا۔وہ رکشے میں بیٹھے اور رکشے والے نے رکشہ بڑھادیا۔ابھی رکشہ گلی سے نکل کر بازار کی سڑک پہ کچھ دور چلا تھا کہ موٹر سائیکل پہ سوار دو نوجوانوں نے موٹرسائیکل رکشے کے آگے لاکر کھڑی کردی۔
ایک نوجوان جو موٹر سائیکل پہ پیچھے بیٹھا تھا اطمینان سے اترا،اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔وہ رکشے کی طرف آیا اور اس نے رکشے میں پچھلی سیٹ پہ بیٹھے قلندر کے والد کو باہر آنے کو کہا،قلندر کے والد باہر اتر آئے،وہ نوجوان کو دیکھکر حیران ہوئے، ان کے چہرے پہ پریشانی نہیں تھی،لیکن سخت حیرانی تھی،
تم! مجھے کیوں مارنا چاہتے ہو ؟
ہاں میں، مارنا اس لئے ہے کہ تم رافضی ہو
یہ کہہ کراس نوجوان نے پستول سیدھا کیا
قلندر کے ابا نے سینہ تان دیا ، گولیاں چلیں ،قلندر کے ابا گرگئے، نوجوان واپس پلٹا اور موٹرسائیکل پہ بیٹھا ،اس کے ساتھی نے موٹر سائیکل دوڑادی۔
ان کے جانے کے بعد لوگ قلندر کے ابا کی لاش کے گرد جمع ہوگئے۔ اور رکشے والا اسلم رکشے سے اترا اور اس نے سڑک پہ دوڑ لگائی اور سڑک عبور کرکے وہ قلندر کی گلی میں داخل ہوگیا اور اس نے قلندر کے گھر کے دروازے پیٹ ڈالے۔قلندر باہر نکلا
اسلم بہت ہراساں اور زار و قطار رو رہا تھا
اسے بتایا کہ شاہ صاحب کو اس نے گولیاں ماری ،شاہ صاحب نہیں رہے۔ قلندر یہ سنکر بدحواس ہوگیا اور اسلم کے ساتھ گلی سے بھاگتا ہوا سڑک پہ پہنچا تو کچھ دور اسے لوگ جمع نظر آئے ،پولیس کی گاڑی بھی پہنچ چکی ۔وہ بھاری قدموں کے ساتھ وہاں پہنچا، ایمبولینس والے اس کے آنے تک پہنچ چکے تھے۔انھوں نے سڑک پہ خون میں لت پت پڑے اس کے والد کواسٹریچرمیں ڈالا۔اس نے والد کی آنکھوں کی جانب دیکھا جن میں حیرت جیسے نقش ہوگئی تھی۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے اور وہ گم سم سکتے کی حالت میں تھا۔اتنے میں لوگوں کی بھیڑ میں سے کوئی بولا، شاہد شاہ صاحب کو کیسے مار سکتا ہے؟ وہ تو قلندر کا دوست تھا۔قلندر کی کتاب اس کے نام ہوئی۔یہ سب کیسے ہوگیا؟ کہنے والے کی بات اس کے کانوں میں یوں پڑی جیسے کسی نے اس کے کان کے قریب بم پھاڑ دیا ہو۔کہنے والا کہہ کر چپ ہوا تو کوئی اور بولا ۔ شاہد کو تم نے کہتے نہیں سنا کہ وہ شاہ صاحب کو کس لئے مارہا ہے۔شاہ صاحب بھی تو بادشاہ آدمی تھے دو سگے بھائی،پانچ بھتیجے گنواکر بھی بنا سیکورٹی کے دفتر آتے جاتے تھے۔ان کو اپنے سارے کنبے کو لیکر یہاں سے چلا جانا چاہئیے تھا۔میں نے تو زمینوں،مکانات کی اچھی قیمت بھی لگائی تھی۔کسی بڑے شہر میں جاکر محفوظ اور سکون سے رہ سکتے تھے۔لیکن شاہ صاحب کی عجیب منطق تھی،کہتے تھے جہاں بھی جائیں گے یہ شناخت تو چھپی نہیں رہے گی تو پردیس میں جاکر مرنے سے بہتر یہیں مرا جائے۔کم ازکم اپنی مٹی تو نصیب ہوگی۔دیوانے اور سنکی تھے شاہ صاحب بھی ۔۔ کہنے والا کہہ کر خاموش ہوگیا اور قلندر کے جیسے آنسو خشک ہوگئے اور وہ بس پتھرائے ہوئے چہرے سے لوگوں کو تکے جا رہا تھا اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا:
شام تھیوے تاں زرد تھی وینداں
میڈے اندر دے ڈر نکل آندن
ہک تمنا دا سر قلم تھیندے
بئی تمنا دے پر نکل آندن
(نوٹ شعر مخمور قلندری ڈیرہ اسماعیل خان کے ہیں اور کہانی ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئے ایک سچے واقعے پہ مشتمل ہے۔بس کردار،مقامات اور کچھ حالات بدل دئے گئے ہیں )
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn