Qalamkar Website Header Image

زندہ مردے اور کامریڈ روزی خان – عامر حسینی

comrade rozi khanکامریڈ روزی خان "زندہ مردوں ” کی ایک نہ ختم ہونے والی دوستوں کی فہرست میں اپنا نام چڑھانے سے باز رہ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

مجھے لاہور سے ایک کامریڈ ساتھی نے طویل علالت کے بعد کامریڈ روزی خان کے انتقال کی خبر دی تو مرے ذہن میں بے اختیار اوپر والا جملہ آگیا۔اب یہ اتفاق ہی ہے کہ میں ان دنوں فرانز مہرنگ کی کتاب ” کارل مارکس : دی سٹوری آف ہز لائف ” کا متن اور اس کا اردو میں کامریڈ ڈاکٹر شاہ محمد مری کا اردو ترجمہ آمنے سامنے رکھ کر پڑھ رہا ہوں جب مجھے کامریڈ روزی خان کے مرنے کی خبر ملی ہے۔
نوٹ : متن اور ترجمہ اس لئے اکٹھے سامنے رکھے ہوئے ہیں کہ جہاں متن سمجھ نہ آئے وہاں ڈاکٹر شاہ کے ترجمے سے مدد لوں اور جہاں ترجمہ تھوڑا مشکل لگے تو اصل متن سے مدد لے لوں۔ویسے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے مہرنگ کی کتاب اردو ترجمہ میں ڈھال کر کوئی کم اہمیت والا کام نہیں کیا ہے۔یہ بہت بڑا کام ہے اور اس اردو ترجمے کی فراہمی کے لئے میں اپنے دوست عابد میر کا احسان مند ہوں۔

کارل مارکس کے دوست اور اس پہ لافانی کتاب لکھنے والے عظیم مارکس واد انقلابی فرانز مہرنگ نے اپنی کتاب کے ساتویں باب کے ذیلی عنوان ” فیملی اینڈ فرینڈ ” یعنی ‘ خاندان اور دوست ‘ میں کارل مارکس کے ” زندہ مردہ دوستوں ” سے ملاقاتوں کا زکر کیا ہے۔وہ لکھتا ہے:

And then there was the long list of “the living dead.” It happened occasionally that Marx met a number of the companions of his early philosophic days:

اور پھر جیتے جی مرگئے لوگوں کی لمبی فہرست تھی۔کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ مارکس اپنے اوائل فلسفیانہ دور کے ساتھیوں سے ملا کرتا
اور پھر آگے چل کر لکھتا ہے :

However, even taking the more immediate past, the list of “the living dead” was a long one and it grew longer every year. For instance, there were old friends in the Rhineland: Georg Tung, Heinrich Burgers, Hermann Becker and others. Some of them, like Becker and later on the worthy Miquel, tried to justify their attitude “scientifically,” declaring that before the proletariat could even think of victory the bourgeoisie must be completely victorious over the feudal Junkers. Becker declared: “The material interests of the canaille will bore their way through and through the decaying structure of Junkerdom turning it into dust, so that at the first breath of the world spirit history will simply sweep the whole structure away and proceed nonchalantly to the next item on the agenda.” It was a very pretty theory and no doubt it is still doing good service to many artful dodgers to-day, but when Pecker became Lord Mayor of Cologne, and Miquel Prussian Minister of Finance, they found themselves so attached to “the material interests of the canaille” that they fought tooth and nail against any insolence on the part of the world spirit and against all attempts “to proceed nonchalantly to the next item on the agenda.”
اگر بہت زیادہ ماضی قریب کی بات کی جائے تو ” جیتے جی مرجانے والے احباب ” کی لسٹ بہت لمبی تھی اور ہر سال یہ اور طویل ہوتی جاتی تھی۔مثال کے طور پہ (مارکس کے ) رائن لینڈ میں پرانے دوست چارج تنگ، ہنرخ برجرز ،ہرمن پیکر اور دیگر۔ان میں بیکر اور بعد میں ہمارے عزت مآب میکوئیل نے اپنے (موقعہ پرستانہ ) رویے کو (اپنے تئیں ) سائنسی انداز میں یہ کہہ کر جواز بخشا: پرولتاریہ کو اپنی فتح بارے سوچنے سے پہلے سرمایہ دار طبقے کی جنکر (جاگیردار ) طبقے پہ مکمل فتح یقینی بنانا ہوگی۔پیکر نے اعلان کیا : رذیل ،کمینوں ( سرمایہ داروں ) کے مفادات جاگیرداری کے زوال پذیر ڈھانچے میں چھید کرکے اپنا راستہ بنالیں گے اور اسے دھول میں بدل دیں گے تاکہ تاريخ روح عالم کی پہلی سانس کے ساتھ سارا (جاگیرداری ) ڈھانچہ (خس و خاشاک کی طرح ) اڑ جائے اور ایجنڈے پہ موجود اگلے ہدف ( سوشلزم ) کی طرف سرد مہری سے بڑھا جائے۔اس میں شک نہیں یہ بہت ہی دل کو لبھانے والا خیال تھا اور آج بھی بہت سے دھوکہ باز چالاک لوگوں کے یہ بخوبی کام آرہا ہے۔لیکن جب پیکر کولون کا لارڈ مئیر بن گیا اور میکوئل پروشیا کا وزیر داخلہ تو انہوں نے رزیل کمینوں کے مادی مفادات سے خود کو اس قدر بندھا ہوا پایا کہ وہ عالمی روح کی طرف سے کسی گستاخی کے خلاف اور ایجنڈے پہ موجود اگلے ہدف کی طرف سردمہری سے بڑھ جانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف پوری جان لڑاکر لڑے۔

روزی خان ایک ایسے عہد میں اپنے آخری دن گزار رہے تھے جب ان کے "زندہ مردہ دوستوں ” کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہورہا تھا۔یہ وہ دوست تھے جو رزیل کمینے سرمایہ دار طبقے کی پارٹیوں میں ان پارٹیوں کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے نجات دلانے گئے تھے اور آخری تجزیہ میں خود ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نوکر چاکر ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  پاپولزم اور پاکستانی سیاست - خورشید ندیم

میں کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا اور مرے ذہن میں کامریڈ سے وابستہ یادوں کی فلم چل رہی تھی۔

میں ہفت روزہ مزدور جدوجہد لاہور کے لئے بحالی جمہوریت کی تحریک کے ترقی پسند ، لیفٹ سرگرم کارکنوں کے انٹرویوز کررہا تھا۔ان انٹرویوز کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لاہور کی گلیوں ، کوچوں اور سڑکوں پہ بکھری بائیں بازو کی اس جدوجہد کو محفوظ کرلیا جائے جو زیادہ تر سینوں میں موجود ہے اور لیفٹ کے کارکنوں کے ایک کے بعد ایک کی رخصتی کے ساتھ اس کے بھی ہمیشہ کے لئے غائب ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ایسے میں، میں نے بہت سے لوگوں کو تلاش کیا اور ان میں سے کئی ایک انٹرویو مزدور جدوجہد کا حصّہ بھی بنے۔ ان میں سے مجھے ایک ایسے کردار کی تلاش تھی جو موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی –ایم آر ڈی کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل بائیں بازو کی فعال جماعت قومی محاذ آزادی کا ایک سرکردہ رکن تھا اور وہ قومی محاذ آزادی کا ترجمان بھی رہا تھا۔جس سے مری ماضی میں کافی ملاقاتیں ہوچکی تھیں لیکن اس وقت اس کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کررہا ہے؟کیونکہ یہ وہ دور تھا جب قومی محاذ آزادی کو ختم ہوئے عرصہ بیت چکا تھا اور لیفٹ کی تحریک پہ سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔کیمونسٹ فکر کے کئی ستون سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک دم سے لبرل بن گئے تھے یا وہ این جی اوز کی تشکیل کے ہراول دستہ بن چکے تھے۔کچھ دوست اب سیزنڈ سیاست دان کہلاتے تھے اور زیادہ سے زیادہ اپنے لئے لبرل ترقی پسند ، روشن خیال ہونے کا ٹائٹل پسند کرتے تھے اور چونکہ وہ جس سرمایہ دار پارٹی میں تھے اس پارٹی کی قیادت امریکی سامراج کو مائی باپ مان بیٹھی تھی تو سامراج کا نام تک ان کی سیاست کی بھاشا سے غائب ہوگیا تھا۔اگرچہ بورژوا سیاست میں وہ نفیس آدمی شمار کئے جاتے تھے۔ایسے میں خبر مل جاتی تھی کہ جسے میں تلاش کرتا ہوں وہ اب بھی اپنے نظریات کے ساتھ پختگی سے کھڑا ہے لیکن اس کا کوئی مستقل ٹھکانا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ایک دن ایسے ہی میں لیبر پارٹی پاکستان کے دفتر 40۔ایبٹ روڈ پہ بیٹھا ہوا تھا تو معروف افسانہ نگار قمر یورش مرحوم وہاں چلے آئے۔ویسے وہ رات اسی دفتر میں گزارتے تھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور ٹھکانہ تھا ہی نہیں رات سونے کا۔کامریڈ فاروق طارق جو کہ اس وقت لیبر پارٹی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اچانک کہا کہ وہ آج گئے تھے تو انار کلی میں ایک پھٹے پہ مل گئے تھے وہ کامریڈ جن کی مجھے تلاش تھی۔پتا چلا کہ شربت کا پھٹہ لگایا ہوا ہے اور شربت بیچ رہے ہیں۔میں نے جلدی سے اجازت لی اور نے باہر رکشہ پکڑا اور انار کلی بازار اتر گیا۔اور تھوڑی دور چلا تھا کہ وہ مجھے آواز لگاکر شربت بیچتے نظر آگئے۔بہت پرسکون ہوکر بیٹھے تھے۔تھوڑا سا وزن عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھ گیا تھا۔کلین شیو تھے حسب معمول اور وہی گھنگھریالے بال ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور موٹے سوجے سوجے پپوٹے ،شلوار قمیص پہنے ہوئے ، زرا پستہ قد کے ہمارے کامریڈ ، مجھ پہ نظر پڑی تو ایک دم سے مرا نام لیکر آواز دی تو مجھے پتا چل گیا کہ یاد داشت بھی اسی طرح سے شارپ اور تیز ہے کوئی فرق نہیں پڑا۔ان کے پاس وہیں پھٹے پہ بیٹھ گیا اور کہنے لگے ” تمہیں کس نے پتا دیا یہاں کا ؟ ۔ قمر یورش نے میں نے کہا ، اچھا، وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو گئے تھے یہاں سے اٹھ کے، تمہیں کہاں ملے ، لیبر پارٹی کے دفتر میں ، میں نے بتایا تو ایک لمبی سے ہوں کی اور مری طرف دیکھنے لگے۔

میں نے کہا کامریڈ! آپ کا انٹرویو کرنا ہے ، کچھ چیزیں لینی ہیں آپ سے ، آپ کی جدوجہد کے بارے میں
کہنے لگے انٹرویو تو بھائی بڑے آدمیوں کے ہوتے ہیں ، دانشور ، فلسفیوں کے ہم تو لیفٹ کی سیاست کے "دھڑے ورکر ” تھے ۔ یہ دھڑا کیا ہوتا ہے کامریڈ؟ میں نے پوچھا ، تو کہنے لگے بھئی جو پیچھے امام کے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور جو امام کرتا ہے وہی وہ کرتے ہیں۔ہم نے خان صاحب (معراج محمد خان مرحوم ) کو امام بنایا ہوا ہے بس انہی کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  گرمہر کور کی آزمائش-ڈاکٹر لال خان

میں نے ان سے کہا کہ پھر کچھ بتائیے نا،اس کے بعد انھوں نے ایم آر ڈی کی تحریک ، لیفٹ کی سیاست 80ء کی دھائی میں کی تصویر گھینچ کر مرے سامنے رکھ دی۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کو یاد ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک میں اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس آئی تھیں اور دن بدن پاکستان پیپلزپارٹی کا گراف اوپر جارہا تھا۔پی پی پی کی پاپولسٹ سیاست کا توتی بول رہا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو سے قومی محاز آزادی اور این ایس ایف کے کئی راہنماؤں کے رابطے ہوچکے تھے اور یہ خبریں بھی آرہی تھیں کہ قومی محاذ آزادی اور اس کا حمایت یافتہ این ایس ایف کا گروپ سارے کا سارا پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے والا ہے اور اس حوالے سے اقبال حیدر ، سید امیر کاظمی ، علمدار حسین ، حبیب اللہ شاکر کے نام بار بار سننے کو مل رہے تھے۔تو آپ کا ایک بیان چھپا تھا اخبارات میں جس میں آپ نے قومی محاذ آزادی کے تحلیل ہونے اور پی پی پی میں ضم ہونے کی تردید کی تھی۔ تو کیا چیز مانع رہی اور کونسی بات نے آپ کو جانے نہیں دیا تم ہمارا کامریڈ بے اختیار کہنے لگا ، ہمارے دوست جن میں پرویز صالح بھی آگے آگے تھے کہتے تھے کہ پی پی پی میں جاکر وہ سوشلزم کا راستہ آسان کردیں گے اور ان کو عوام کے بڑے بڑے حلقوں تک رسائی ملے گی اور ایسے وہ بائیں بازو کے خیالات کو مین سٹریم دھارے میں لیکر آجائیں گے۔لیکن ہوا کیا؟ جو نام آپ نے لئے وہ امریکی سامراج کی چاکری کرنے سے پی پی پی کو نہ روک سکے اور پی پی پی کی قیادت کی کسی ایک موقعہ پرستی کے آگے کوئی روکاوٹ ان سے کھڑی نہیں ہوئی اور آج پی پی پی میں وہ زیادہ سے زیادہ ایک جمی جمائی مڈل کلاس کی نمآئندگی کرتے ہیں یا سیاست سے فارغ البال ہوگئے اور ان میں سے کچھ مرے تو پیچھے کوئی بھی لیفٹ کا ورثہ چھوڑ کر نہیں گئے۔ہاں ایک کام ہوگیا ہے کہ ان کے بچّے سکون سے ہیں ، اتنا ہے کہ جس سے اپر مڈل کلاس لائف گزاری جاسکتی ہے۔یہ لب لباب تھا اس کامریڈ کا جسے دنیا روزی خان کے نام سے جانتی ہے جس کو سننے کے لئے آلہ سماعت سے کام لینا پڑتا تھا۔

کامریڈ ایک کل وقتی بائیں بازو کے سیاسی کارکن تھے لیکن روزی روٹی کرنے کے لئے وہ سردیوں میں لنڈے کے گرم کپڑے فروخت کرنے اور گرمیوں میں شربت بیچنے سمیت مختلف قسم کے کام کرلیا کرتے تھے۔جب سماج زرا تھک جاتا اور کوئی تحریک نہ چل رہی ہوتی اس وقفے میں روزی خان روزی روٹی کا سامان کرتے اور جب کوئی تحریک زور پکڑتی تو وہ اس تحریک کا حصّہ بن جاتے تھے۔جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف قومی محاذ آزادی کے جیالے کی حثیت سے انھوں نے بھرپور حصّہ لیا اور پھر موقعہ پرستی ، بدعنوانی ، کی جب تند و تیز ہوا چلی تو انھوں نے اس وقت بھی موقعہ پرستی کی ہوا کے رخ پہ چلنا گوارا نہ کیا ،جنرل مشرف کے خلاف سیاسی تحریک میں بھی وہ سرگرم رہے۔ایک دن وہ لیبر پارٹی کے دفتر آئے تو ایک بورا کاغذوں کا بھرا ہوا تھا ، مجھے پتا چلا کہ اس میں بائیں بازو کا اور خاص طور پہ قومی محاذ آزادی کی جدوجہد کا ریکارڈ ہے۔اب جھے نہیں پتا کہ اس کا کیا ہوا؟میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی جدوجہد کا ایک بیان روانی میں ریکارڈ کروادیں جو بعد میں مرتب ہوسکتا ہے۔یہ وہ بات ہے جو میں اکثر تجربہ کار ایماندار سیاسی کارکنوں سے کہتا رہا ہوں کہ کم از کم گراس روٹ لیول پہ دائیں اور بائیں بازو کے انتہائی منجھے ہوئے ان سیاسی کارکنوں کا ایک ریکارڈ مرتب ہوجائے جو 70ء سے لیکر 80ء تک کی پرآشوب سیاست میں پوری طرح فعال تھے اور اس سے کم از کم ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی کہ ہم نے سیاست میں کن روایات کو کھودیا ہے۔روزی خان جیسے کارکن اپنی جدوجہد اور نظریات سے وابستگی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اور آنے والے سیاسی کارکن ان کو لال سلام کہتے جائیں گے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس