Qalamkar Website Header Image

آصف چھوٹو کی ہلاکت اور چند سوال – عامر حسینی

asif choto 1آصف چھوٹو کے بارے میں پہلی خبر 2005ء میں آئی تھی ۔بی بی سی نے کہا تھا کہ سیکورٹی ایجنسی کے اہلکار اس کی گرفتاری کا انکشاف کررہے ہیں لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ نے اس بارے میں تصدیق کرنے سے انکار کیا
پھر فروری 2015 ء میں قریب قریب تمام ٹی وی چینلز نے خبر چلائی اور اکثر نے واضح لکھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز نے ان کو خبر دی ہے کہ آصف چھوٹو کو ڈیرہ غازی خان میں ایک آپریشن کے دوران گرفتار کرلیا گیا ہے
 اب جب شیخوپورہ میں آصف چھوٹو کے تین ساتھیوں کے ساتھ سی ٹی ڈی پولیس مقابلے میں مارے جانے کی خبریں آئیں تو کسی بھی میڈیا چینل یا اخبار نے خبر کے آخر میں ان دو خبروں کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اور اپنے قاری کو یہ بھی بتانے کی زحمت نہیں کی کہ پہلی دو خبروں کی صداقت اور جھوٹ کا کیا سٹیٹس بنتا ہے ۔یہاں تک کہ بی بی سی نے بھی اپنی انگلش ویب سائٹ پہ شائع ہونے والی خبرکے بارے میں کوئی تحقیق ہمارے ساتھ شئیر نہیں کی۔
آصف چھوٹو ، ملک اسحاق اور ان جیسے بہت سے اور کردار جس طرح سے مارے گئے ان کی موت سے بہت سے راز بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئے ہیں ۔
ملک اسحاق اور محمد احمد لدھیانوی کے گروپوں میں صلح کا کردار ادا کرنے والے طاہر اشرفی ابھی زندہ ہیں جبکہ عبدالحفیظ مکی گزشتہ دنوں دور ہوگئے جن سے ملک اسحاق اور لدھیانوی نے سعودی عرب میں ملاقات کی تھی اور عبدالحفیظ مکی نے ہی ان دونوں کو بلوایا تھا۔سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس صلح میں کیا پنجاب حکومت ، مسلم لیگ نواز کا کوئی ہاتھ تھا ؟ اور سعودی سرکاری مشینری اس میں کہاں تک ملوث تھی ؟ اور پھر یہ صلح اچانک ختم کیسے ہوئی ؟ اور اچانک ملک اسحاق کی طرف جانے والے لوگوں کےasif choto 3
خلاف ہی سارا آپریشن کیوں شروع ہوا ؟ اور لدھیانوی گروپ کو اسقدر زیادہ پروجیکشن کیوں ملی

لدھیانوی گروپ جو اب #ASWJ کے نام سے بتدریج مین سٹریم پاور بن رہا ہے اور اس کے جے یو آئی ایف سے بھی بہت قریبی تعلقات بن گئے ہیں کو مسلم لیگ نواز ، سعودی عرب کی سرکاری مذھبی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی موجود حلقے اتنی فیور کیوں دیتے ہیں ؟
جبکہ اگر ہم Phenomena of #ASWJ کو تکفیری فنومنا کہیں تو اس کو اب کم و بیش ہر ایک سیاسی جماعت کے اندر دیکھا جاسکتا ہے۔پی پی پی کے ملک ریاض ،تاجی کھوکھر
اور سندھ میں ASWJ کے کئی اہم لوگوں سے روابط کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔

ایک حلقہ یہ بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں لشکر جھنگوی کے نام پہ ابتک جتنے بھی آپریشن ہوئے ان میں Foot soldiers کی بڑی تعداد کو اڑایا گیا کہ وہ کارآمد ہونے کی بجائے نقصان دہ ہوگئے تھے جبکہ ایسے سپاہی اور کمانڈر بچالیے گئے جو اب بھی کارآمد ہیں جیسے بلوچستان میں رمضان مینگل شفیق مینگل اینڈ کمپنی۔۔۔۔۔
یہ جو لشکر جھنگوی کے ھائی پروفائل نام ہیں ان میں اب جیل میں اکرم لاہوری زندہ ہے جبکہ بڑے بڑے نام کسی ٹرائل کا سامنا کیے بغیر ہی مار ڈالے گئے اور کئی ایک وہ ہیں جن کے ساتھ ہوئے مقابلوں کے بارے میں طاقتور تاثر یہ ہے کہ وہ جعلی اور فیک تھے
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ان ھائی پروفائل فگرز کے خلاف ایک صاف شفاف ٹرائل اور ان پہ لگے الزامات ثابت نہیں ہوسکتے تھے بلکہ شاید ان کے خلاف ٹرائل کے دوران ریاست کے اندر ان کرداروں کے بارے میں پردہ ڈالنے کے لیے اور ریاست سے باہر بظاہر پرامن سیاسی جدوجہد کے دعوے داروں کے نام سامنے آنے کا خدشہ تھا جن کا ٹرائل کرنے میں ریاست کبھی سنجیدہ نہیں رہی

یہ بھی پڑھئے:  قلم کار کا جنم دن

ان مذھبی اشراف لیڈروں کا بھی پتا چلایا جاسکتا تھا جنھوں نے ان پیدل سپاہیوں کو تشدد اور دہشت گردی کا راستہ دکھایا
بہت سے سوالات ہیں جن کو آج پاکستانی مین سٹریم میڈیا میں کوئی اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہا
بلکہ ان سوالات کو اس کمیونٹی کے لوگ بھی نہیں اٹھا رہے جو اس دہشت گردی کا براہ راست نشانہ بنے وہ قتل کرنےasif choto 2 والے ہاتھوں سے آگے جاکر ماسٹر مائنڈ اور سہولت کار اور پھر اس ساری مارا ماری سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں جاننے کی خواہش ہی نہیں رکھتے بلکہ اس طرح کے پولیس مقابلوں کی حثیت پہ جو سوال اٹھنے ضروری ہیں اسے اٹھانے کی خواہش کرنے والوں کے لیے بھی ان کے پاس بہت سارے فتوے موجود ہیں
پاکستان میں تکفیری فاشزم کی تبلیغ اور اس کو پھیلانے والے ادارے، گروپ دہشت گردی کے خلاف جنگ یا انتہاپسندی کے خلاف ریاستی پالیسی سے زیادہ متاثر نہیں ہورہے بلکہ ان کو اور زیادہ طاقتور طریقے سے مین سٹریم کیے جانے کا عمل جاری ہے ۔
جبکہ تکفیر ازم ، جہاد ازم ، منفی اور مرکزیت پسند پاکستانی نیشنل اور سعودیزائشن کو انسٹی ٹیوشنلائز کرنے کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئی ہیں اور ان کے خلاف ابھرنے والے متبادل بیانیوں کے علم برداروں کے خلاف ریاستی سطح پہ بنائے جانے والے جابر قوانین اور غیر ریاستی سطح پہ مذھبی جنونیت کو استعمال کیا جارہا ہے۔حال ہی میں سوشل میڈیا بلاگ کے خلاف کاروائیاں بھی اسی جانب معاملات کے جانے کی طرف اشارہ کررہی ہیں ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس