پاکستان کے صوبے پنجاب اور وفاقی دارالحکومت سے فیس بک اور ٹوئٹر پہ سرگرم 12 سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کو ایک ہفتے کے اندر اٹھالیا گیا ہے۔اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کی جبری گمشدگی میں سب سے زیادہ شور شاعر، ادیب، تھیٹر ڈائریکٹر اور فاطمہ جناح یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر سلمان حیدر ، ہالینڈ میں مقیم پاکستان کے دورے پہ آئے وقاص احمد گورایا اور عاصم سعید کے بارے میں لبرل پریس کے اندر مچا ہوا۔
پاکستانی اور غیر ملکی لبرل پریس ، لبرل بلاگرز، فیس بک اور ٹوئٹر پہ سرگرم لبرل سوشل ایکٹوسٹ کے کئی ایک سیکشن اس معاملے پہ جس قدر سرگرم نظر آئے ہیں اتنے زیادہ وہ پاکستان کے اندر بلوچ ، سندھی ، پشتون ، گلگتی بلتی ایکٹوسٹوں کی جبری گمشدگی پہ نظر نہیں آئے۔اور وہ جبری گمشدگیوں کے معاملے کو بھی ایک طرف پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہی جوڑ کر دیکھنے پہ مصر ہیں تو دوسری طرف وہ اسے محض مذہبی شدت پسندی کے حق میں محض ملٹری اسٹبلشمنٹ کے جھکاؤ کا نتیجہ ہی قرار دیتے ہیں۔
پاکستانی لبرل پریس اور ان کی پیروی کرنے والا انٹرنیشنل لبرل پریس دونوں اس معاملے میں حال میں جبری لاپتہ ہوئے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے کیس کو بلوچ ، سندھی ، پشتون ، گلگتی بلتی ایکٹوسٹ ، طلباء ، سیاسی کارکنوں، شاعروں ، ادیبوں کی جبری گمشدگیوں ، اغواء کے بعد مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں دستیابی کے کیسز سے الگ کرکے دکھانے کی روش پہ گامزن نظر آتا ہے۔
پاکستانی لبرل پریس اور سوشل میڈیا کے کئی ایک لبرل سیکشن اس سارے معاملے کو ریاست اور عالمی سامراجی سرمایہ داری کی کالونیل ڈویلپمنٹ ، کالونائزیشن ، چینی مداخلت ، امریکی مداخلت اور اس کے نتیجے کے طور پہ ان جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، بڑے پیمانے پہ ہونے والی بے دخلیوں کو دکھانے پہ آمادہ نہیں ہے بلکہ وہ یہاں پہ سب سے زیادہ بددیانتی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے۔اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ لبرل سیکشن یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستانی ریاستی اداروں کا جبر ، تشدد ، ماورائے قانون و عدالت لوگوں کے اٹھائے جانے کے پس منظر میں سی پیک ، چینی مداخلت ، ميگا پروجیکٹس وغیرہ بڑے بنیادی عنصر کے طور پہ کارفرما ہیں۔
جرمن ریڈیو ڈی ڈبلیو کی ویب سائٹ پہ ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے :
The Missing Persons Phenomenon
http://m.dw.com/…/pakistani-civil-society-alarme…/a-37066216
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین پہ ٹاپ سٹوری ہی لبرل سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کے جبری لاپتہ ہونے کے بارے میں تھی۔جبکہ جیو ٹی وی چینل پہ شاہ زیب خانزداہ نے بھی اپنے پروگرام میں اس ایشو کو ٹاپ پہ رکھا۔
جرمن ریڈیو ویب سائٹ ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کا عنوان بظاہر بہت مثبت نظر آتا ہے اور فیچر امیج بھی جبری گمشدگی کے کیس بارے ایک بڑھیا تصور ابھارتا ہے لیکن جیسے ہی آپ اس رپورٹ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں تو آپ کے سامنے یہ پیراگراف آجاتا ہے:
“The "missing persons” phenomenon is not new in Pakistan. Thousands of people have disappeared over the past few years, but most of them are connected with an ongoing separatist movement in the western Balochistan province or the Islamist insurgency in the northwestern tribal areas bordering Afghanistan. In both places, the army is operating against "miscreants” and "terrorists,” which it believes are working against the state.”
جبری گمشدگی کا ایشو پاکستان میں نیا نہیں ہے۔ہزاروں لوگ گزشتہ چند سالوں میں جبری لاپتہ کردئے گئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر مغربی بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک ، افغانستان کی سرحد کے ساتھ شمال مغربی علاقوں میں جاری اسلامسٹ شورش کے علاقوں سے ہے۔ان دونوں مقامات پہ فوج "شرپسندوں اور دہشت گردوں ” کے خلاف آپریشن کررہی ہے جو کہ یہ یقین رکھتی ہے کہ یہ ریاست کے خلاف کام کرہے ہیں
اگلا پیرا گراف یوں شروع ہوتا ہے:
““But the disappearance of secular writers and activists is a relatively new "trend” in the majority Muslim South Asian nation. Rights groups have been alarmed by it, saying it is a big threat to the free speech in the country.”
لیکن سیکولر لکھت کاروں اور ایکٹوسٹوں کی گمشدگی یا غیاب مسلم اکثریت کی جنوبی ایشیائی قوم میں ایک "نیا رجحان ” ہے۔انسانی حقوق کے گروپ اس پہ چوکنّے ہوگئے ہیں۔اور وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں آزادی اظہار کے لئے بڑا خطرہ ہے۔
جرمن ریڈیو ڈی ڈبلیو کی ویب سائٹ پہ اس رپورٹ کے یہ جملے ہمیں لبرل سیکشن کی اس سوچ کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں جو پاکستان کے اندر اس وقت لبرل سیاست اور لبرل صحافت اور لبرل سوشل میڈیا کا عمومی چلن نظر آتی ہے کہ پاکستان میں جبری کمشدگیوں کے کیسز میں درجہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔اور وہ درجہ بندی ہے سندھی ، بلوچ ، پشتون ، گلگتی بلتی لوگوں کی جبری کمشدگیوں کے ایشو کو سنٹرل پنجاب کے موجودہ سوشل لبرل ایکٹوسٹوں کی جبری گمشدگی کے درمیان فرق دکھانے کی اور اسے ایک نیا رجحان کہہ کر جتانے کی۔یہاں مقصد یہ بھی نظر آتا ہے کہ بین السطور بلوچستان اور پشتون علاقوں میں ہونے والے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا جواز فراہم کیا جائے اور یہ ظاہر کیا جائے وہاں پہ گمشدہ ہونے والے اکثر بلکہ سارے کے سارے افراد ہی شرپسند ، دہشت گرد اور غدار ہیں۔
میں اگر بات کو ایک مثال سے سمجھاؤں تو وہ یہ ہے پاکستان کا یہ لبرل سیکشن پروفیسر صباء دشتیاری جیسے دانشور ، ادیب اور سیاسی ایکٹوسٹ کے قتل پہ خاموش رہا اور اس نے اس طرح کا ایکٹوازم بلوچستان کے پروفیسر صباء دشتیاری کے بارے میں نہیں دکھایا۔اس وقت شبیر بلوچ سمیت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے درجن بھر سے زائد طالب علم جو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی تھے اور پاکستانی سیاست میں وہ بجا طور پہ لبرل، ترقی پسند ،روشن خیال موقف کے حامل تھے لیکن ان کی جبری گمشدگی پہ پاکستانی مین سٹریم لبرل پریس ، سوشل میڈیا پہ ایکٹو لبرل سیکشن کی بھاری اکثریت نہ تو چوکنّا ہوئی اور نہ ہی اس پہ وہ شور دیکھنے کو ملا جو ان چار سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کے غائب ہونے پہ دیکھا جارہا ہے۔کیوں؟ اس لئے کہ وہ پاکستانی سرمایہ دار طبقات اور عالمی سامراجی سرمایہ داروں کے ترقی کے ماڈل اور چینی سامراج کی بلوچستان کے اندر مداخلت کے خلاف موقف رکھتے ہیں اور وہ سی پیک کی مخالفت کررہے تھے اور اس حوالے سے وہ اسے کالونائزیشن ، چینی سامراجی مداخلت جیسے القاب سے یاد کررہے تھے۔سندھی نیشنلسٹ کا قتل ، اغواء ، جبری گمشدگیاں کیا اظہار کی آزادی کے لئے خطرہ نہیں ہیں؟کیا یہ پرانا ٹرینڈ نہیں ہے جو کالونیل ڈویلپمنٹ کے راستے میں روکاوٹ بننے والوں کو غائب کرتا ہے؟
تازہ ترین مثال بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کی تحصیل چھتر کی ہے جہاں پہ چار روز سے سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے اور اس آپریشن کی جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق پاکستانی سیکورٹی فورسز نے چھتر کے اندر بلوچ خواتین، بچوں کی ایک بڑی تعداد کو اٹھالیا ہے ہے جبکہ کئی خواتین اور بچوں کے فائرنگ سے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔پاکستان کا مین سٹریم لبرل میڈیا ، پاکستانی سوشل میڈیا کے لبرل سیکشن خواتین ،بچوں سمیت دو سو کے قریب بلوچ لوگوں کی جبری کمشدگی کے ایشو کا مکمل بلیک آؤٹ کیوں کئے ہوئے ہیں؟ کیا یہ ہیومن رائٹس گروپوں کو الارمڈ کرنے والا ایشو نہیں ہے؟
پھر اسی رپورٹ کا ایک حصّہ اس ذیلی سرخی سے شروع ہوتا ہے:
Liberalism versus orthodoxy
لبرل ازم بمقابلہ آرتھوڈوکسی
میں یہ نہیں کہتا کہ جبری گمشدگیوں، ریاستی و غیر ریاستی جبر کا ایک فیکٹر یا عامل لبرل اقدار کا پرچار کرنے والوں کے خلاف نہیں لیکن لیکن اس فیکٹر کے ساتھ ساتھ یہ ” کارپوریٹ سرمایہ بمقابلہ مجبور و محکوم و مظلوم اقوام ” ، سامراجی ، نوآبادیاتی ترقی بمقابلہ مساوی اور ہموار ترقی ” اور "سامراجی و قومی جبر بمقابلہ قومی مزاحمت ” کا معاملہ بھی ہے۔اور یہ براہ راست نیو لبرل سرمایہ داری اور اس سے جڑے میگا پروجیکٹس کا معاملہ بھی ہے۔اور يہ بات حیرت کا سبب نہیں ہے کہ ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے جن کے نام اس رپورٹ میں ہیں وہ لبرل اور لیفٹ دونوں کیمپوں کی ایلیٹ کہے جاسکتے ہیں نے جبری گمشدگیوں کے ایشو پہ بات کرتے ہوئے لبرل ازم بمقابلہ آرتھوڈوکسی کا زکر تو کیا لیکن جن عوامل کا تعلق سامراجی سرمایہ داری اور ریاست کی کالونائزیشن سے بنتا ہے ان کا زکر نہیں ہے۔اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سارے لوگ سنٹرل پنجاب کا لبرل اور لیفٹ کی ایلیٹ ہے جو ان عوامل پہ پردہ ڈال رہی ہے۔
بی بی سی کے پروگرام سیربین میں شامل کی گئی رپورٹ میں اینکر نے امریکہ میں مقیم ایک لبرل دانشور ڈاکٹر محمد تقی سے بات چیت کی۔ڈاکٹر محمد تقی نے اگرچہ بلوچستان مین ہونے والی جبری گمشدگیوں کا زکر تو کیا لیکن ایک طرف تو وہ ان جبری کمشدگیوں کا لنک سامراجی سرمایہ داری نیولبرل ماڈل ، سی پیک ، چینی مداخلت سے جوڑنے سے گريزاں رہے تو دوسری طرف انھوں نے بلوچستان کی جبری گمشدگیوں ، وہاں پہ ہونے والے ماورائے آئین قتل اور دیگر زیادتیوں کا واحد زمہ دار ملٹری اسٹبلشمنٹ کو قرار دیا اور اس کا لنک انھوں نے پاکستان کے حکمران سرمایہ دار طبقات کی چینی سرمایہ داری سے گٹھ جوڑ کے ساتھ جوڑنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ پاکستان کی سرمایہ دار سیاسی جماعتوں اور خاص طور پہ مسلم لیگ نواز کو اس سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی۔پاکستانی لبرل کا ایک بڑا سیکشن نواز شریف کو لبرل ، اینٹی اسٹبلشمنٹ ، ماڈریٹ بناکر پیش کرنے سے اب بھی باز نہیں آرہا اور وہ پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے بلوچستان ، سندھ ، پشتون علاقوں ميں اٹھائے جانے والے اقدامات کو نواز حکومت کی سرمایہ دارانہ ایجنڈے پہ مبنی پرواز سے الگ کرکے دکھانے پہ اصرار کرتا ہے۔یہی رویہ اس لبرل سیکشن کا پاکستان میں شیعہ نسل کشی ، تکفیری فاشزم ، سعودیزائشن کے پروسس ، جہاد ازم وغیرہ کو زیر بحث لاتے ہوئے رہا ہے کہ اس سارے عمل کو صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے جبکہ سیاسی اسٹبلشمنٹ ، عدالتی اسٹبلشمنٹ کے جو لنکس ان سب سے بنتے ہیں ان کو چھپایا جائے۔
جیو نیوز پہ شاہ زیب خانزداہ نے بھی لبرل سوشل ایکٹوسٹوں کی جبری گمشدگیوں کے ایشو کو مجموعی جبری گمشدگیوں کے ساتھ ملاکر دیکھنے اور اس پہ ریاستی ڈسکورس کی پوری تصویر ہمارے سامنے پیش کرنے سے گریز کیا ہے۔
پاکستان میں انقلابی لیفٹ اگرچہ تعداد میں تھوڑا ہے لیکن اپنی مداخلت کے اعتبار سے اس کا کام نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں ہے۔اس نے جبری گمشدگیوں، بڑے پیمانے پہ بے دخلی، شیعہ نسل کشی ، تکفیری فاشزم ، سعودائزیشن،ماحولیات کی تباہی کو ریاست کی سرمایہ دارانہ ڈرائیو ، کالونائزیشن، سامراجی سرمایہ کی مداخلت ، سعودی وہابی فیکٹر،فوجی ، عدالتی ، سیاسی اور یہاں تک کہ کارپوریٹ میڈیا کے کردار کی سرمایہ داری کی حرکت کے اندر وضاحت کرنے اور اس روشنی میں آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے میں اہم رہنمائی کی ہے۔اس نے سرمایہ دار سیاسی پارٹیوں اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے درمیان تضادات اور خود سرمایہ داروں کی پرتوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات سے پیدا ہونے والی صورت حال کا تجزیہ کرنے میں لبرل موقعہ پرستی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔اور اس نے لبرل ازم کے موقعہ پرست رجحان کی بخوبی نشان دہی کی ہے۔انقلابی لیفٹ کے دانشوروں کو پاکستانی لبرل ازم کے ڈسکورس میں بہہ جانے والی روش سے گریز کرنا ہوگا اور اس حوالے سے انقلابی مارکسسٹ نکتہ نظر کے ساتھ مظلوموں، مجبوروں، محکوموں ،کچلے و پس جانے والے قومی ، طبقاتی ، نسلی و مذہبی گروہوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn