فیس بک پہ مرے درجنوں ایسے دوست ہیں جن سے میں کبھی نہیں ملا اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے اصل نام سے بھی میں واقف نہیں ہوں اور کبھی ان کی شکل بھی ذہن میں لانے کی کوشش کروں تو پروفائل پہ لگی تصویر ہی ذہن میں آتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ان دوستوں سے ایسی قربت محسوس ہوتی ہے جیسے وہ مرے جنم جنم کے ساتھی ہوں۔اور ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن کا دن رات خیال رہتا ہے اور میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے قربتوں کے نئے راستے کھول دئے ہیں۔
ایسے ہی ایک شخص میں جنوری 20155ء میں واقف ہوا یعنی آج سے ٹھیک دوسال پہلے۔اور اس سے شناسائی کا سبب ایک طرف تو اس کے بنائے غضب کے پوسٹر تھے اور ان کے لئے کیپشن کا چناؤ اور دوسری طرف اس کی تحریریں تھیں اور سٹیٹس تھے جو اسقدر باکمال تھے کہ بے اختیار اپنی طرف کھینچتے تھے۔مجھے ان دو سالوں میں بس اتنا پتا چلا کہ یہ شخص لاہور کا رہنے والا ہے اور اس کے شاید دادا،دادی ہندوستان سے ہجرت کرکے لاہور آباد ہوئے تھے اور کراچی سے بھی اس کا تعلق کافی مضبوط ہے اور ایک لائسنسس دار شیعہ گھرانے میں اس نے جنم لیا ہے اور شاید کوئی رضوی سادات گھرانہ ہے اور یہ سب کچھ بھی اس کی لکھی تحریروں کے اندر اس کی یادوں نے اسے کبھی اپنی گرفت میں لیا تو مجھے پتا چل گیا۔یہ آدمی اپنے نظریات کی رو سے ایک ایسا پاکستانی نیشنلسٹ ہے جس کے ہاں پاکستانی نیشنل ازم کم از کم پاکستان کے بلوچوں،سندھیوں، پشتونوں، سرائیکیوں ، گلگت بلتستانیوں ، کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی اور ان پہ ریاستی جبر وستم کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اسے اپنی حب الوطنی کا تقاضا سمجھتا ہے کہ ان قومیتوں اور نسلی گروہوں پہ ہونے والے قومی جبر اور ظلم پہ پردہ ڈالے اور اسے راء ،موساد، افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کھاتے میں ڈال دے۔یہ شخص مذہبی لحاظ سے ایک راسخ العقیدہ شیعہ ہے اور اپنے مراجع تقلید کی بہت عزت اور احترام کرتا ہے اور اپنے مابعدالطبعیاتی خیالات پہ سختی سے کاربند بھی ہے اور یہ اپنی شیعہ کمیونٹی کے ہزاروں لوگوں کے قتل ہوجانے، زخمی ہوجانے اور ان کی اکثریت کے ملک چھوڑ کر چلے جانے اور جو یہاں رہ رہے ہیں ان کے خوف ميں زندگی بسر کرنے پہ شدید دکھ، رنج ، الم کی کیفیت میں مبتلا بھی ہے اور یہ ایک ایسا شخص ہے جو فیس بک اور سوشل میڈیا پہ ایک گھوسٹ نام سے اس لئے موجود ہے کہ یہ جن خیالات کا اظہار کرتا رہتا ہے ان خیالات کی پاداش میں اگر اس کا اصل نام اور پتا ان طاقتوں کو چل جائے جو اس کے خیالات اور بنائے پوسٹرز سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں تو اس کے خاندان ، اس کے قریبی دوست احباب کی جان خطرے میں پڑجائے گی۔اس کا کہنا ہے کہ اسے اپنی جان کی اتنی پرواہ نہیں ہے مگر اسے پرواہ ہے تو اپنے خاندان کی ، اپنی بیوی کی ، اپنی پیاری سی بیٹی کی ،اولاد کی ( اب دیکھیں ، کتنی لاعلمی ہے مرے ہاں ،میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے کتنے بچّے ہیں ، بھائی اور بہن کتنے ہیں، والدین زندہ ہیں یا نہیں، ایک بیٹی بارے بھی یوں جان پایا کہ ایک دن اس نے اس کے بارے میں بہت ہی پیاری تحریر لکھی تھی اور اس کی ہاتھ کی بنائی ہوئی کچھ ڈرائنگ شئیر کی تھیں)۔آپ ایسے شخص کے ذہنی کرب اور تکلیف کا انداوہ لگاسکتے ہیں کیا جو ایک گھوسٹ بنکر اپنی تخلیق کو سامنے لارہا ہو اور اس کے چاہنے والے اس کے نام کے ساتھ اسے داد دینے سے محروم ہوں۔خطرہ آپ کے اردگرد یونہی منڈلاتا رہتا ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا مرا ایک دوست مجھے ملنے آیا اور اس نے کہا،
"تم نے قادیانیوں کے حق میں کچھ لکھا ہے؟ شہر میں کئی جگہ پہ تمہارے خلاف باتیں ہورہی تھیں”
"تمہین قادیانیوں سے کیا لینا دینا ہے ،جائیں جہنم میں، اور پہلے ہی کیا کم ردعمل ہے تمہارے بارے میں شیعہ پہ لکھنے کی وجہ سے، اس سے پہلے تمہیں کرسچن کا غم کھائے جاتا تھا اور اب یہ نیا پھڈا، اتنے یہ لوگ اپنے لئے نہیں لکھتے جتنا تمہیں ان کی فکر کھائے جاتی ہے اور ہم کب تک تمہارا دفاع کرتے رہیں گے، مفتی ش۔۔۔۔ صاحب بھی پریشان تھے، کہہ رہے تھے کہ گھر والوں کی بھی نہیں سنتا، حالات بدل گئے ہیں، خاموش رہو، اور ہاں یہ بلوچوں کا کیا قصّہ ہے بھئی ، وہ اپنا آ۔۔۔۔ کہہ رہا تھا کہ ان پہ دباؤ بڑھ رہا ہے۔۔۔۔تم اپنے دوست کھودوگے ان حلقوں میں جو تمہارے وکیل ہیں”
یہ ہے مسئلہ اپنی اصل شناخت اور نام کے ساتھ جو محسوس کرنا اور وہ لکھ دینے کے عمل کے ساتھ۔شاید آپ کو سید خرم زکی یاد ہوں گے، اور استاد سبط جعفر بھی، جمشید نایاب کا نام مجھے نہیں لگتا آپ کو یاد بھی ہوگا کہ نہیں۔ڈاکٹر شکیل اوج بھی یاد ہوں گے، نام لکھنے بیٹھا تو پھر نام ہی نام رہ جائیں گے اور کچھ لکھ نہیں پاؤں گا۔جن کا زکر یہاں لے کر بیٹھا ہوں ان کی طرح آپ کو وادی حسین کراچی جانا پڑے گا اور وہاں ایسے درجنوں نام ہیں جو اپنے اصل نام سے لکھ رہے تھے اور اب اس دنیا میں نہیں رہےاور ستم ظریفی یہ ہے ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اپنی بیوی ، بہن ، بیٹی ، ماں کے ساتھ جارہے تھے اور وہ بھی ان کے ساتھ ہی نشانہ بن گئیں۔کفر کے فتوے، ارتداد کے طعنے صرف لکھنے والے کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ اس کے اردگرد اس کے پیارے بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔مرے ایک دوست پروفیسر ہیں ، پی ایچ ڈی کئے ہوئے ہیں کہہ رہے تھے کہ ان کے بھائی ، اماں ، ابّا ، بیوی ، بہنیں سب کہتے ہیں کہ اس کی سچ کی بھاشا اس کے ساتھ ہمیں بھی مروادے گی ، یہ جانتا نہیں ہے ابھی۔یہ خوف اور عدم تحفظ ہے جو گھوسٹ ناموں سے لکھت کاری کرنے، کارٹون بنانے، السٹریشن کرنے کا سبھاؤ دیتا ہے۔آپ کو اپنی شناخت کو گم کرنا پڑجاتا ہے اور پھر لفظ اور تصویریں، امیجز تخلیق کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرنے ہوتے ہیں۔مرا دوست ایسا ہی ہے۔ایک مرتبہ فون پہ میں نے اس کی آواز سنّی تھی اس آواز سے میں کوئی اس کا خاکہ نہیں بناپایا کیوں کہ میں کوئی مائیکل اینجلو تو ہوں نہیں جو بائبل میں آواز سنکر یسوع مسیح اور جبرائیل کے خاکے بنانے پہ قادر تھا۔
مرے اس دوست کا فیس بک پہ نام نور درویش ہے۔ آج پانچ جنوری کو اس کی سالگرہ ہے اور میں اس موقعہ پہ اسے مبارکباد کا پیغام دینا چاہتا ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ کسی زمانے میں جیسے اخوان الصفاء والے تھے جنھوں نے زندیق کے فتوے کے ساتھ مرجانے سے بچنے کے لئے بے نام ہوکر سچائی کا علم بلند کیا تھا ایسے ہی نور درویش جیسے لوگ ہیں جو اپنے ناموں کو گم کرکے سچائی کا علم بند کئے ہوئے ہیں۔اور مجھے ان سے دوستی پہ فخر ہے۔ان کےلئے بہت زیادہ نیک خواہشات اور ان کی جدوجہد کو سرخ سلام
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn