کتاب ہے یاسمین صاعقہ کی جو کہ خود بھی ہندوستانی آسام کی رہائشی ہیں۔وہ اتفاق سے ڈھاکہ گئی تھیں اور جس گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری تھیں وہاں واپس جاتے ہوئے سائیکل رکشہ والا غلطی سے ان کو میرپور کیمپ المعروف جینوا کیمپ کی طرف لے گیا اور وہاں پاکستانی جھنڈا لہرا رہا تھا تو اسے بہت تجسس ہوا یہ کیا ہے۔اس کے بعد بہاری/راج کار کیمپ میں اسے فاطمہ ملی اور اس کے بعد صاعقہ عاسمین نے فیصلہ کرلیا کہ وہ انیس سو اکہتر کی جنگ ، بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران عورتوں پہ بیت جانے والی کہانیوں کو اکٹھا کرے گی۔اور اس نے یہ کہانیاں اکٹھی کیں اور اس سے جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اپنی جگہ تکلیف دہ ہے ہی لیکن میں نے ان دنوں تازہ تازہ کئی بلوچ عورتوں کے چھوٹے چھوٹے ریکارڈ کلپ دیکھے ہیں جو ہمیں کم از کم یہ سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج بھی دنیا کی دوسری افواج سے مختلف نہیں ہے اور یہ بھی جن کو غدار کہتی ہے اور سمجھتی ہے ان کی عورتوں کے ساتھ بدسلوکی ان غدار مردوں کو سبق سکھانے کے لئے کرتی ہے۔میرے ذہن میں ڈاکٹر شازیہ مری کے ساتھ ہوئے سلوک کا خیال آیا اور اس پہ اکبّر بگٹی کو بولنا کتنا مہنگا پڑا یہ بھی مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔عورتیں ایک مرد بالادست سماج کے اندر شروع ہونے والی جنگ کی زد میں جیسے آئیں اس کی پوری تصویر بنانے کے لئے صرف پاکستانی عینک ، بنگالی عینک ، بھارتی عینک کافی نہیں ہے کیونکہ متاثرہ عورتیں بنگالی بھی ہیں، پنجابی بھی ، بہاری بھی ، اردو بولنے والی یو پی سی پی کی بھی اور پھر ایک اور کہانی ان عورتوں کی آزادی مل جانے کے بعد شروع ہوتی ہے۔جیسے اس کتاب میں ہمیں نور جہاں کی بیٹی بیوٹی کی داستان ملتی ہے جسے جسم فروشی کرنا پڑی کیونکہ پاکستانی فوجیوں کی قید میں بار بار پامال ہوجانے والی اس کی ماں نور جہاں خود بنگالیوں کی نظر میں کوئی اچھی عورت نہیں تھی۔ایک کاجل خاتون ہے اس کتاب میں جسے بہاری اور مغربی پاکستانی عورتوں کو بچانے کی کوشش کرنے میں پاکستان کی ایجنٹ اور آزادی کی دشمن کہہ دیا گیا۔بالکل ایسے ہی جیسے آج اگر کوئی بلوچستان میں آبادکاروں اور پنجابی معصوم شہریوں کو نشانہ بنائے جانے پہ بلوچ سرمچاروں کی مذمت کردے تو وہ غدار ٹھہرجاتا ہے۔یا بلوچوں کی نسل کشی کے خلاف پنجاب سے کوئی آواز اٹھائے تو وہ قومی سلامتی کا دشمن قرار دیا جاتا ہے اور بھارتی ایجنٹ قرار پاجاتا ہے۔
” مرا نام نور بیگم ہے۔مرا گاؤں اصل مین دیناج پور میں تھا۔اور مری شادی 1971ء میں ہوئی اور میں اپنے شوہر کے گھر رہ رہی تھی۔یہ چریریربانڈر میں ایک سرحدی گاؤں تھا۔یہ جگہ پھلبری دیناج پور کہلاتی تھی۔جب جنگ شروع ہوئی تو میرے شوہر، ان کے بھائی،اور والد انڈیا فرار ہوگئے۔کوئی نوجوان آدمی یہاں نہیں رہ سکتا تھا۔وہ سب انڈیا چلے گئے۔بس عورتیں گھروں پہ تھیں۔اس دوران مرد کبھی کبھار وقفے وقفے سے چوری چھپے اپنی عورتوں سے ملنے آتے تھے۔مرا شوہر بھی مجھ سے ملنے آتا رہتا تھا اور اس وقت جب آزادی بالکل قریب تھی تو میں حاملہ تھی اور مرا شوہر واپس آتے ہوئے راج کاروں کی مخبری پہ پکڑا گیا۔یا آزادی سے 15 سے 20 دن پہلے کی بات تھی۔مجھے ایک عورت نے بتایا۔میں ننگے پاؤں، ننگے سر بھاگی تو میں نے دیکھا کہ میرے شوہر کو پکڑ کر درخت سے باندھ رکھا تھا اور وہ اس پہ تشدد کررہے تھے۔اور جب میں نے ان سے منت کی کہ ایسا نہ کریں تو ایک فوجی نے مجھے بوٹ سے ٹھوکر لگائی میں بے ہوش ہوگئی ، اسی دوران انھوں نے میرے شوہر کو درخت سے لٹکاکر پھانسی دے دی۔اس سے پہلے انھوں نے میرے سارے خاندان کو پکڑلیا تھا اور ایک ماہ پہلے میرے والدین کو مار ڈالا تھا۔پہلی مرتبہ جب پاکستانی فوج نے مجھے پکڑا تو مجھے بالکل ننگا رکھا گیا۔اور انھوں نے میرے پستان ،گال کھینچے، نازک اعضاء میں انگلیاں ڈالیں اور میرے سر کے بال جو بہت لمبے تھے انھی کے ساتھ مجھے ایک کرسی سے باندھ دیا تھا اور اتنا تشدد کیا کہ میں بے ہوش ہوگئی(اس دوران نور بیگم نے اپنی چھاتیوں پہ مندمل زخموں کے سیاہ نشان دکھائے)مرا سارا جسم سوج گیا تھا۔میرے ہونٹوں پہ کاٹے جانے کے نشان تھے اور سارے جسم پہ کاٹ کھانے کے نشان تھے۔میرے ہاتھوں پہ بلیڈ سے زخم بنائے گئے۔یہ دیکھیں میرے ہاتھ۔مجھے ایک کے بعد ایک نے جنسی،جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور میں نے وہاں مردہ لڑکیوں کی لاشیں دیکھیں۔انھوں نے ان کے مردہ جسموں کو بھی نہیں چھوڑا۔مرجانے کے بعد بھی ان کو اذیت دی جاتی رہی۔میں ایک بنکر میں تھی جہاں 50 سے 60 بنگالی عورتیں تھیں ان میں مری سسٹر ان لاء بھی تھی جو بعد میں تشدد سے وہیں بنکر میں مرگئیں۔بعد میں اس بنکر سے کئی عورتوں کو دھان منڈی ڈھاکہ میں بحالی مرکز میں لایا گیا اور ان کا علاج کیا جاتا رہا۔
Victim’s Memories P-143
اسی کتاب میں آگے چل کر ہم فردوسی پریا بھاسانی کی دلخراش ریپ کی داستان سنتے ہیں۔چار پاکستانی آرمی کے کیپٹن یہ سب کرتے ہیں اور پھر کئی اور۔ بار بار یہ ہوتا ہے۔اسے ایک ٹیکسی میں اغواء کیا گیا تھا۔اور فردوسی پریا بھاسانی وہ عورت ہے جس نے کم از کم سامنے آکر پوری دنیا کو جنگ جرائم بارے بتانے کی ہمت کی تھی۔
"امن کمیٹی کے چئیرمین کو ہمارے پاڑا میں فوج نے بےعزت کیا۔انہوں نے اسے کرسی کے ساتھ باندھ دیا اور اس کے سامنے اس کی بیوی کا ریپ کیا۔یہ تو پاکستان کے حامی لوگ تھے۔یہ تو بنگلہ دیش بننے کی تحریک سے وابستہ نہ تھے۔لیکن ان کو بھی پاکستان آرمی نے نہ چھوڑا۔جس گھر میں آپ بیٹھی مجھ سے انٹرویو کررہی ہو اسی گھر میں میرے ایک انتہائی قریبی رشتہ دار خاتون کا ریپ ہوا۔اس نے ایک ٹوائلٹ میں خود کو چھپانے کی کوشش کی جب اس نے دیکھا کہ فوجی ان کے گھر داخل ہونے کو ہیں۔لیکن وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکی۔میں نے یہ باتیں دوسروں کو کبھی نہیں بتائی ہیں۔ اس کے گھروالوں کو کبھی پتا نہ چل سکا۔کیونکہ اگر ان کو پتا چلتا تو اس کو کبھی وہ عزت و احترام نہ مل پاتا جو اسے حاصل تھا۔میں نے آزادی کے بعد اسی گھر میں متاثرہ عورتوں کو خفیہ طریقے سے بچے جنم دینے میں مدد کی ،کبھی کبھی ایک مڈ وائف مری مدد کرتی اور یہ سب کام رازداری سے کیا گیا۔مری ایک اور عزیزہ کا ریپ ہوا، پھر اس کی شادی ہوگئی لیکن کسی کو آج تک اس سانحہ کا پتا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔جب پارٹیشن ہوئی تو میں نے اپنی ہندو برادری کے بہت سے خاندانوں کو یہاں سے ہجرت کرجانے سے روک لیا لیکن 1965ء کی جنگ کے دوران یہاں بدترین ہندو۔مسلم فساد ہوا جس میں ہندوؤں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی اس دوران کئی خاندان ہجرت کو چلے میں نے روکا لیکن نہ رکے۔اور پھر 71ء میں جو ہوا اس کے بعد تو یہاں کسی کو روکنے کی ہمت تھی ہی نہیں لیکن میں گاندھی واد ہونے کے سبب یہاں سے جانہ سکی”
Women Services Chap 4
Suhsani Devi,Syhhet
"مجھے بہت سے پاکستانی فوجی افسروں نے اپنی یاد داشت پہ زور دیتے ہوئے بتایا کہ ان کو ان سے اوپر کے افسران نے بنگالیوں کو سبق سکھانے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اپنی ہائی کمانڈ کے احکامات کی پیروی کی اور اپنا فرض ادا کیا۔انہوں نے بنگالی تحریک کو ایک بغاوت خیال کیا۔اور وہ اسے کچل ڈالنے کے لئے پرعزم تھے۔ان میں سے بعض فوجی افسران نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے غیر مسلح، عام بنگالی مقابلہ نہ کرنے والے شہریوں کو بھی مار ڈالا صرف اس خوف کے سبب کہ کہیں وہ ان کی اپنی موت کا سبب نہ بن جائیں۔ان فوجی افسران کا کہنا یہ تھا کہ ان کو پورا یقین تھا کہ موت کی سزا اور بھیانک تشدد بنگالیوں کو تحریک آزادی سے باز کرنے میں مدد دے گا۔اور موت کا خوف ان کو شکست قبول کرنے پہ مجبور کردے گا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے بنگالی عورتوں پہ تشدد اس لئے کیا کیونکہ وہ بنگالی مردوں کو ذلیل اور بے عزت کرنا چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے ان عورتوں کو صرف اپنی کنیزوں کے روپ میں دیکھا۔انہوں نے ہوس کے ہاتھوں مجبور ہوکر بنگالی عورتوں کا ریپ کیا اور یہ بار بار کیا کیونکہ محاذ جنگ پہ ان سے کوئی بھی ڈسپلن کو توڑنے بارے پوچھنے والا نہیں تھا۔پاکستانی فوج کے افسران جن سے میں نے رابطہ کیا ان کا کہنا یہ تھا کہ پاکستانی فوج کا جو تشدد اور وائلنس تھی یہ پاکستان کو بچانے کی خواہش اور محرک کے سبب تھی۔اور اس کا مقصد بنگالیوں کو آزادی کے راستے سے واپس لانا تھا۔عورتوں پہ ان کے گھروں میں حملہ کیا گیا۔اور ان کے گھر کے افراد کے سامنے ان کا ریپ ہوا اور پھر باہر ندی نالوں میں ان کو پھینک دیا گیا۔یرغمال بنائی گئی بنگالی عورتوں کو مغربی پاکستان کی اعلی قیادت کے علم میں لائے بغیر یا ان کے علم میں لاکر سیکس کیمپ میں رکھا گیا۔ان کے بال کاٹ کر انھیں گنجا تک کیا گیا۔ان کو باندھا گیا اور پھر ان کا ریپ ہوا۔ان کو کھانا دینے سے انکار کیا گیا۔اور اسی حالت میں کئی عورتیں بھوک پیاس کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئیں۔قیدی بنگالی عورتوں سے زبردستی قبریں کھودنے کا کام لیا جاتا جس میں مردہ بنگالیوں کی لاشیں دبائی جاتی تھی”
صاعقہ یاسمین آگے بتاتی ہیں کہ کیسے پاکستانی فوجی اور اس کی حامی ملیشیاء کے بنگالی عورتوں پہ ڈھائے گئے مظالم کی سزا بنگالی تحریک آزادی کی حمائت نہ کرنے والے بہاری، پنجابی ، یوپی سی پی کی مہاجر خاندانوں کی عورتوں کو بھگتنا پڑی اور ان عورتوں کا بھی اغواء ، ریپ ، قتل ہوا۔اور پھر ساری بہاری آبادی کو لیجاکر مہاجر کیمپوں میں ڈال دیا گیا۔بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی سٹار ڈھاکہ نے 4 اپریل،2008ء کو خبر دی کہ "دی وار کرائمز فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ” نے 1597 جنگی مجرموں کی فہرست مرتب کی ہے جس میں 359 پاکستانی فوج کے افسران ہیں، 1150 مقامی معاون بشمول راج کار،البدر اور امن کیمٹیوں کے اراکین اور 78 بہاری شامل ہیں۔
صاعقہ یاسمین اپنی اس کتاب میں ہمیں بتاتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جسٹس ریٹائرڈ حمود الرحمان کی سربراہی میں بنگلہ دیش پہ جو انکوائری کمیشن بنایا تھا جس میں 213 افراد سے انکوائری ہوئی تھی اور یہ رپورٹ جولائی 1972ء میں 12 نقول کے ساتھ سرکار کے حوالے کی گئی لیکن 11 نقول کہا جاتا ہے جلادی گئیں اور صرف بھٹو صاحب کے پاس جو کاپی تھی وہی بچی۔اس رپورٹ کی فائنڈنگ کبھی عوام کے سامنے نہیں آئیں۔1974ء میں یہ انکوائری پھر ری اوپن ہوئی۔اور اس وقت کمیشن نے 73 ٹاپ فوجی اور سویلین بیوروکریٹس سے انٹرویو کئے اور نومبر 1974ء میں ایک سپلمنٹری رپورٹ جمع کرائی گئی۔اور اس رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ پاکستان آرمی نے اندھا دھند اقدامات کئے۔لوٹ مار،بنگالی افسران اور سپاہی ،سویلین افسران،انٹلیکچوئل ،پروفیشنل ، بزنس مین ،صنعت کار ، شاعر ، ادیب ، سیاسی کارکن اور ہندؤ اقلیت کا قتل بنا کسی ثبوت کے محض بغاوت کے شبے میں کیا گیا اور بڑی تعداد میں عورتوں کے ساتھ ریپ کیا گیا۔اور یہ جان بوجھ کر محض بدلے ، ردعمل اور سبق سکھانے کے نام پہ کیا گیا۔کمیشن کا کہنا تھا کہ ان الزامات کی زد میں آنے والے لوگوں کے خلاف راست اقدام کیا جائے تاکہ پھر سے یہ واقعات نہ دہرائے جا سکیں۔یہ رپورٹ بھی کبھی پبلک نہیں ہوئی پھر 21 اگست 2001ء یہ سپلمنٹری رپورٹ ایک ہندوستانی میگزین میں منظر عام پہ آئی۔
صاعقہ یاسمین کہتی ہے کہ پاکستان کی جو ملٹری اکیڈیمی ہیں وہاں بھی اس جنگ کے دوران انسانی حقوق کی پامالی، جنگی جرائم اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی خوفناک واردات بارے کچھ بھی نہیں بتایا جاتا بلکہ صرف سٹریٹیجی ، وار پلان اور آپریشن پہ بات ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ وہاں بھائی کے ہاتھوں بھائی کے مارے جانے اور اپنے ہی لوگوں کے گمراہ ہوجانے کی باتیں ہوتی ہیں جس میں کوئی احساس زیاں نہیں ہوتا ہے۔
سولہ دسمبر 1971ء سے آج کے پاکستان اور خاص طور پہ پنجاب میں رہنے والی ایک بھاری اکثریت نے کچھ سیکھا بھی ہے کہ نہیں؟ میں جب بلوچستان ، سندھ ، خیبرپختون خوا سے ملنے والی مسخ شدہ لاشیں ، جبری گمشدہ افراد کی بڑھتی ہوئی فہرست اور فوجی آپریشن دیکھتا ہوں تو مجھے سخت مایوسی ہوتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn