Qalamkar Website Header Image

تم بھی وہی ہو ؟ – عامر حسینی

aamir hussaini newپہلی آواز : کیا ہوا ؟
دوسری آواز : کیا بتائیں ، سالا وہ ایسا ہوگا سوچا بھی نہ تھا ۔
تیسری آواز (لڑکی کی لگتی ہے): ہاں نا یار کتنی اچھی باتیں کرتا، کبھی کبھی گم سم ہوکر بیٹھا ہوتا تو ایسے لگتا جیسے بہت شریف ہو ۔
چوتھی آواز: یار ہم نے تو اسے بہت قریب کرڈالا تھا ۔
یہ چاروں آوازیں یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ایک میز کے گرد بیٹھے اسٹوڈنٹس کی تھیں۔میں وہاں بیٹھا اپنے ایک دوست کا انتظار کررہا تھا جو اس یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اور ابھی اپنی کلاس کو لیکچر دینے میں مصروف تھا ۔ایسے میں اردگرد کے ماحول کا جائزہ لینا فطری تھا۔کیمپس کے کیفے ٹیریا میں کچھ زیادہ بدلاؤ نہیں تھا بس کچھ ڈیوائسز کا فرق پڑا تھا-اب ہر ایک کے پاس موبائل فون، کانوں میں ہینڈ فری، سامنے میز پہ کہیں کہیں کھلے لیپ ٹاپ اور کئی ایک بڑی تیزی سے ایک ہاتھ میں موبائل اور اسی ہاتھ کی انگلیوں سے میسج ٹائپ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔کئی ایک لڑکیاں موبائل پہ مسیج ٹون بجنے پہ چونک سی اٹھتی تھیں اور کچھ تو اردگرد دیکھتے ہوئے موبائل سکرین ایسے دیکھتی تھیں جیسے کوئی دور سے ان کی سکرین پہ جگمگاتا پیغام پڑھ لے گا، یہ ایسے ہی تھا جیسے ہمارے زمانے میں کورس کی کتاب کے اندر رکھکر پریم پتر پڑھا جاتا تھا۔کچھ تو بہت ہی فنکار لڑکیاں ہوتی تھیں ، کتاب کے اندر رکھے پریم پتر کو ایسے پڑھتیں جیسے کوئی اہم ٹاپک پڑھ رہی ہوں اور ساتھ ساتھ نوٹس لینے کا ناٹک بھی کرتی تھیں۔جبکہ کچھ بالکل کبوتری کی طرح ڈری ڈری سی اور گبھرائی ہوئیں اک نظر پریم پتر کی سطروں پہ تو ایک نظر آس پاس کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ماحول کچھ بدلا نہیں تھا بس ذرا اور زیادہ شوخ اور جدید ہوگیا تھا۔مرے ہونٹوں پہ خودبخود مسکراہٹ آگئی تھی اور اسی دوران وہ چار آوازیں مرے کانوں میں پڑیں اور میں ان کی جانب متوجہ ہوگیا۔
پہلی آواز:یار زیبی ! وہ تمہارا کزن جو جیل میں ہے، اس نے بھی تو ان کا ہی ایک آدمی پھڑکایا تھا، کیا کہتا ہے وہ ان کے بارے میں ؟
دوسری آواز:ہاں یار ! ہمارے محلے میں ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھا-یہی کوئی 70 سال عمر ہوگی ہوسکی۔اچانک ہی ہمارے محلے میں اس نے دکان کھولی، اور اس کی دوا بہت سستی تھی اور اثر کرتی تھی، اور رات دن جب کوئی بلاتا چلا آتا تھا۔شکل و صورت سے اور اٹھنے ، بیٹھنے اور لوگوں کے کام آنے کی عادت کے اعتبار سے سب اسے پسند کرنے لگے تھے۔بہت مقبول ہوگیا تھا۔لیکن وہ مولویوں کے بڑا خلاف تھا۔وہ تمہیں یاد ہے ہمارے محلے میں دفتر ہے قاسمی صاحب کا ؟ وہ ان کے خلاف اکثر باتیں کرتا تھا۔مرا کزن قاسمی صاحب کا بڑا معتقد ہے۔میں جیل میں اسے ملا تھا۔اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر بھی وہی تھا جو یہ شکل مومنانہ کرتوت کافراں تھا۔سچی بات ہے مجھے یقین نہیں آیا کہ اسقدر اچھی عادات کا مالک اندر سے "وہ ” نکلے گا۔مرے کزن نے جب اسے قتل کیا تو آس پاس کے لوگوں نے اسے ہار ڈالے، تھانے کے اندر اور باہر اس کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔اور اب بھی ہر پیشی پہ لوگ اس کو خراج عقیدت پیش کرنے جاتے ہیں۔اور مرے چچا اس کے والد کہتے ہیں کہ "مرے پتر نے مرا سر فخر نال اچا کردتا اے، اے غازی! اے غازی !
تیسری آواز: یار کچھ بھی ہو ایسے لوگوں کو مار دینا تو ٹھیک نہیں ہے۔اگر اس نے کوئی جرم کیا تھا تو اس پہ مقدمہ قائم کرنا چاہئیے تھا۔
پہلی آواز: توں کمال کردی ایں، لڑکی ہو نا اس لئے چڑی جیسا دل رکھتی ہو، ویسے تم بتاؤ کیا یہ ہمارے مذہب سے ہیں ؟بتاؤنا ؟
تیسری آواز: نہیں ، نہیں ( ہچکچاتے ہوئے اور ذرا گھبرا کر ) ان کا ہمارے مذہب سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔
چوتھی آواز: ان کا یوکے سے جو ٹی وی چینل چلتا ہے تم یوٹیوب پہ دیکھو کبھی، تمہیں پتا چلے کتنے خطرناک لوگ ہیں یہ اور ہمارے مذہب کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ایہہ پتا اے کیہ کردے نئیں۔۔۔۔۔ اس دن وہ جب ہمیں اپنے گھر لیکر گیا تھا اور تم نے دیکھا تھا کہ کیسے اس کی بہن ایک دم سے کمرے میں آئی ،جینیز اور کرتے میں اور کیسے وہ ایک دم بے تکلف ہوگئی اور وہ بھی اس دوران کیسے ہمیں اس کے قریب کررہا تھا۔مرے تایا اپنے دوست کو بتارہے تھے کہ یہ ہمارے مذہب سے اپنی طرف بلانے کے لئے اپنی عورتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ان کی عورتیں اپنے جال میں پھنسا کر ہمارے نوجوان گمراہ کرتی ہیں۔
تیسری آواز: لیکن جینز اور کرتا تو میں بھی پہنتی ہوں۔اور کئی ایک مرتبہ تم بھی مرے گھر گئے ہو، یار یہ اینٹی فیمنسٹ رویہ مت اپناؤ۔
دوسری آواز: ایہہ کامریڈاں نیں تینوں خراب کردینا ایہہ ، تینوں کہندا رہندا آں بچ کے رہیا کر اناں تو، اوہ جیہڑا پروفیسر اے وقار ،او کافراں دا امام اے۔۔۔۔۔ساڈا مذہب تباہ ہوجوے ، ساڈی نسلاں بدلی جان اونہوں کیہہ ، بس سرخ سویرا ہووے ،،،،، چڑ کے کہا اور کرداں آں میں انکل نال گل
تیسری آواز: بھئی میں ان کے عقائد سے اختلاف کرتی ہوں مگر یہ مارا ماری ، اور عورتوں کے بارے میں ایسے بات مجھے پسند نہیں ہےاور تمہیں اگر ایسے ہی کرنا ہے تو میں اٹھ کر چلی جاتی ہوں۔
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ مرا پروفیسر دوست آگیا۔وہ جب ان چاروں کے پاس سے گزرا تو انہوں نے اسے سلام کیا۔اس نے سلام کا جواب دیا،ان کا حال پوچھا اور مری طرف چلاآیا۔میں اور وہ کیفے ٹیریا سے باہر آگئے اور کار میں بیٹھ کر چل دئیے۔باتوں کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ تم ایک میز کے پاس بیٹھے تین لڑکوں اور ایک لڑکی کے گروپ کے پاس ٹھہرے تھے۔وہ کون ہیں؟ کیوں خیر ہے بھئی؟ پروفیسر نے پوچھا ۔ پہلے تم بتاؤ کہ وہ کون ہیں؟ ان میں جو نیلی شرٹ میں ملبوس تھا (پہلی آواز ) وہ مقصود عبداللہ ہے۔کیمپس میں محمدیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا امیر ہے۔اور وہ جو سرمئی کلر کی شلوار قمیص میں تھا (دوسری آواز ) وہ اختر جمال ہے اسلامی جمعیت طلباء کا ہاسٹل نمبر ۔۔۔۔ فلاں کا ناظم ہے۔اور جو ڈارک بلیو جینز میں تھا وہ (چوتھی آواز) احسن معاویہ ہے تمہارے علاقے کا –اور وہ لڑکی جویریہ ہے یہ چاروں ایم۔ ایس۔ سی فزکس کررہے ہیں۔
تم تو آئی۔ آر کے پروفیسر ہو۔تمہیں ان کے بارے میں کیسے معلوم ہے ؟ میں نے حیرت سے کہا
دو دن پہلے معلوم ہوا-پروفیسر بولا
دو دن پہلے یہ ایک اور اپنے کلاس فیلو نواز کے ساتھ کیفے پہ بیٹھے سموسے اور چائے کی پارٹی کررہے تھے۔احسن معاویہ نے کوئی بات کی جس کا جواب اس لڑکے نواز نے کچھ دیا جس کے بعد تینوں لڑکوں نے نواز کو مارنا شروع کردیا اور لہولہان کردیا۔وہ لڑکا چپ چاپ مار کھاتا رہا اور اس کے بعد وہ یہ یونیورسٹی چھوڑ گیا۔کیونکہ اگلے دن ایک خاص کمیونٹی کے خلاف پوسٹر لگ گئے اور ایک پمفلٹ بھی تقسیم ہوا۔وہ اسی گروپ کی حرکت بتائی جاتی ہے۔میں نے جب تحقیق کی تو پتا چلا کہ احسن معاویہ نے وہاں بیٹھے ہوئے اس کمیونٹی بارے کہا کہ ان کی تبلیغ اپنی ماؤں بہنوں کی دلالی سے فروغ پارہی ہے جس پہ نواز نے غصّہ کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی تو اسی کمیونٹی کا ہوں ، کیا مری ماں اور بہنیں بھی ایسی ہیں۔ایک دم سے یہ انکشاف ان پہ بجلی بنکر گرا اور پھر وہ سب ہوا جس کا میں نے تم سے تذکرہ کیا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »