Qalamkar Website Header Image

احمد شاملو کی چار نظمیں اور ہمارا سماج

مجھے پنجاب اور سندھ کی شہری آبادی میں اپنے ہم عمر اور نوجوان نسل کے اربن چیٹرنگ کلاس کی اکثریت سے بات چیت کرنے کے دوران سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی رہی ہے کہ ان کو کیسے بتایا جائے کہ جغرافیہ ،مقامیت، زمین اور دھرتی سے جڑجانے سے آپ کی آفاقیت متاثر نہیں ہوتی۔اور خاص طور پہ وہ نسل جو ضیاء الحق کے زمانے اور بعد از ضیاء زمانے میں سن شعور کو پہنچی ان کے ہاں جو غالب بیانیہ ہے اس میں سب سے زیادہ حوصلہ شکنی ہی مقامیت سے جڑجانے کی جاتی ہے۔اور پہلے پہل میں یہ سوچتا تھا کہ شاید یہ مسئلہ پاکستان کے اندر ہے۔لیکن پھر مجھ پہ انکشاف ہوا کہ کچھ ایسا ہی معاملہ جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے پولیٹکل اسلام ازم سے متاثر ہوجانے والے بنگالیوں،بہاری،کیرالین،گجراتی،ماڑاواڑی،سری لنکا کے سنہالی نسل کے مسلمانوں اور مشرق بعید کی چینی انڈو نسل کے مسلمانوں ،افریقی اور عرب مسلمانوں کے ساتھ بھی رہا جو کسی نہ کسی طرح پولیٹکل اسلام ازم سے وابستہ ہوئے۔جہاد ازم،سیاسی اسلام ازم، تکفیر ازم سے جڑے پنجابی،پشتون،سندھی،سرائیکی،اردو بولنے والے،ہزارہ،افغان سب کے سب جغرافیہ اور حد بندی کو ثقافت رمز ماننے سے انکار کی جانب جھکے ہوتے ہیں۔اور اس میں اردو بولنا ہی ضروری ہے۔

ویسے پولیٹکل اسلام ازم کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ نیولبرل ازم کے ساتھ جڑے نیشن سٹیٹ کے ساتھ بھی اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب اس کے یک نوعی ڈویلپمنٹ ماڈل کے آڑے مقامیت آنے لگتی ہے۔جیسے بھارت میں انڈین نیشن سٹیٹ اور پاکستان میں پاکستانی نیشن سٹیٹ اور ایسے ہی دیگر ریاستوں کا معاملہ ہے جہاں پہ قومی تضاد اور قومی سوال براہ راست ان کے سرمایہ دارانہ سامراجی اور نیو کالونیل ڈویلپمنٹ ماڈل کے آڑے آتا ہے۔

پولیٹکل اسلام ازم کیسے جغرافیہ سے آمادہ جنگ ہوجاتا ہے،اس کا ایک نشان تو ہمیں ایران کے اندر انقلاب کے دوران سیاسی اسلام ازم کی خاص شیعی ولایت فقیہ تعبیر کی فتح کے بعد ملتا ہے۔اور اس زمانے میں جو زمین زاد شاعر اور دانشور تھے انہوں نے اپنے آپ کو بہت مشکل میں پایا۔ اور ان کی شاعری اور فکشن میں ہم اس کا سراغ پاتے ہیں۔ایسا ہی ایک شاعر احمد شاملو بھی ہے۔جو ایران میں انقلاب آنے سے پہلے بادشاہت کے خلاف لڑ رہا تھا اور وہ ایرانی عوام کے ساتھ کھڑا تھا۔اس زمانے میں احمد شاملو جیسے عوام دوست شاعروں اور ادیبوں کو ایرانی ادب کے اندر ایسے رجحانات کا سامنا تھا جو ادب اور شاعری میں سیاست اور سماج بلکہ عوامی زندگی کی نمائندگی سے بالکل ہی انکاری تھے۔ان کی جمالیات ادب بس وزن اور قوافی تھے اور ان کی لغت ایسے الفاظوں پہ مشتمل تھی جس سے وہ حکمران طبقات سے ٹکراؤ میں نہ آتے ہوں۔بلکہ دوسرے الفاظ میں ان کا ادب یا تو شاہ کی براہ راست خدمت کا نام تھا یا لایعنیت پھیلاکر بالواسطہ شاہ کی خدمت کرنا تھا۔
اس زمانے میں ایسے ایرانی شاعر بھی تھے جو فارسی شاعری میں کلاسیک سے تھوڑا سا انحراف بھی کفر خیال کرتے تھے۔اور وہ بھی دراصل شعوری یا غیر شعوری طور پہ بادشاہت کی ہی خدمت کررہے تھے۔اور جب کوئی شاعر کہتا کہ ‘شاعری زندگی’ ہے اور زندگی کا دوسرا نام شاعری ہے تو وہ بھڑک جاتے تھے۔ایسے میں احمد شاملو جیسے شاعروں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ آن پڑا تھا کہ وہ شاعری کے میدان میں قدم رکھنے والوں اور شاعری پڑھنے والوں کو کیسے باور کرائیں کہ شعر کا اپنے زمانے سے جڑ جانا کس قدر ضروری ہے۔اور یہ کلاسیک سے انحراف نہیں بلکہ اس کی توسیع ہے۔

ایسی فضاء میں احمد شاملو کی شاعری کا مجموعہ ‘ہوای تازہ’ سامنے آیا تھا۔اور اس نے ایرانی معاشرے کو جھنجھوڑنے کا کام کیا تھا۔اس کی ایرانی شاعری میں وہی اہمیت ہے جو ہندوستان کے اندر ‘انگارے’ کی تھی۔اگرچہ ہوائے تازہ اس سے کہیں زیادہ گہرے معانی لئے ہوئے ہے۔

‘ہوای تازہ’ میں احمد شاملو کی ایک طویل نظم شامل ہے۔اور اس نظم کا عنوان ہے:’ شعر زندگی است’ یعنی شاعری زندگی ہے۔احمد شاملو 1925ء میں پیدا ہوئے اور 2000ء میں ان کا انتقال ہوا۔اور ہم اگر یہ کہیں کہ ہم احمد شاملو کے عہد شاعری میں سانس لے رہے ہیں تو مبالغہ نہ ہوگا۔احمد شاملو کی شاعری کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور ماقبل ایرانی انقلاب کا ہے اور دوسرا دور مابعد ایرانی انقلاب کا ہے۔شعر زندگی است ان کی ماقبل انقلاب دور کی نظم ہے۔

زرا شعر زندگی است کو دیکھیں :

شاعری تو زندگی ہے

گزرے شاعر کا موضوع شاعری
زندگی نہ تھا
اس کا آسمان خیال خشک و بنجر تھا
شراب و یار کے سوا اس کی اور گفتگو نہ تھی
وہ شب وروز اپنے خیال میں
محبوبہ کی مضحکہ خیز زلفوں کا رہین تھا
دوسروں کی نظر میں اس کا حال
ایک ہاتھ میں جام بادہ اور دوسرے ہاتھ میں زلف یار لئے
زمین خدا میں مستانہ وار نعرے مارنے والے کا تھا

موضوع شعر شاعر
اس زندگی کا غیر تھا
اس کے شعر کی تاثیر بھی
بہت کم تھی
اس کی شاعری کو ایک کدال کی طرح
اس راہ جدوجہد میں استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا
اس کے ہنر شاعری سے
تم مشکلات کے اس دیو کا خاتمہ نہیں کرسکتے تھے
جس کا خلق کو سامنا تھا
اس کے وجود کا اثر نہیں تھا
اس کا ہونا ،نہ ہونا برابر تھا
تم اس کی شاعری کو پھانسی کے پھندے کی طرح استعمال نہیں کرسکتے تھے
میرا ذاتی حال یہ ہے
کہ میں وہ شخص ہوں
جو اپنے زمانے میں
اپنے شعروں کے ساتھ
جنوبی کورین شن چوئی کے ہمراہ
لڑا ہوں
یہاں تک کہ ایک مقام پہ
کئی سال پہلے
میں نے شاعر حمیدی کو
اپنے شعروں کی پھانسی پہ چڑھا ڈالا

شعر کا موضوع
آج اور ہے
آج کی شاعری
خلق کا ہتھیار ہے
جبکہ یہاں شاعر
شاخیں ہیں خلق کے جنگل کی
نہ کہ یاسمین وسنبل ہیں
فلاں فلاں کے گل خانہ کے
بے گانہ نہیں ہے
آج کا شاعر
خلق کے مشترکہ درد سے
لوگوں کے لبوں سے
وہ مسکراتا ہے
لوگوں کے درد و امید کو
وہ اپنی ہڈیوں کے ڈھانچے پہ چڑھاتا ہے
آج
شاعر کو
خوبصورت لباس پہننا چاہئیے
اسے خوب پالش کئے جوتے پہننے ضروری ہیں
شہر کے مصروف ترین گوشوں میں
ایک ایک کرکے موضوع و وزن و قافیہ کو
اپنے پیدائشی وصف کے ساتھ
اپنے پاس سے گزرنے والوں کے سامنے چننے چاہيں
اے یاترا کرنے والو! میری پیروی کرو
ان تین دنوں میں
در بدر
میں نے تمہیں تلاش کیا
مجھے تلاش کیا؟
عجیب بات ہے
آقا میرے
لگتا ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے
آپ مجھے کوئی اور سمجھ رہے ہیں
نہیں میری جان،یہ محال ہے
میں شعر تازہ کے وزن کو خود
دور سے ہی پہچان لیتا ہوں
کیا کہا ؟
وزن شعر؟
میرے دوست،زرا صبر کرو
وزن و لغات و قافیہ کی تلاش میں
میں نے ہمیشہ ان کوچوں کی خاک چھانی ہے
میرے شعروں کی اکائی لوگ ہیں
زندگی سے لیکر (میرے اکثر شعروں کا موضوع زندگی ہے) لفظ و وزن و قافیہ شعر تک
میں ان سب کو لوگوں میں تلاش کرتا ہوں
یہ شعر کو بہتر کرتی اور ان کو زندگی و روح دیتی ہے

یہ بھی پڑھئے:  سفرِ انقلاب نہیں خودستائی ہوئی پڑاو در پڑاو | حیدر جاوید سید

اب
وہ وقت آن پہنچا ہے
جب شاعر کو
شعری منطق بروئے کار لاتے ہوئے
پاس سے گزرنے والے کو ایسے رام کرنا ہے
کہ وہ بارضا و رغبت اس کے ساتھ متفق ہوجائے
ورنہ اس کا تمام تر تکلیف اٹھانا شاعری کے لئے غارت چلا جائے گا

خوب
اب جبکہ وزن دریافت ہوچکا
تو اب ہنگام جستجو لفظوں کے لئے ہونا چاہئیے
ہر لغت
جیسا کہ نام سے پتا چلتا ہے
دوشیزہ شوخ و دل آرام ہے
وزن کی جستجو کرنے والے
شاعر کو الفاظ کی جستجو دوگنا کردینی چاہئیے
اگرچہ یہ کام مشکل اور صبر کو جلادینے والا ہے
لیکن
اس سے گریزاں نہ ہو
آقائے وزن اور خانم لغت اگر
ہم رنگ و ہم طرز نہ ہوں تو لازم ہے کہ
زندگی کا حاصل دل پذیر نہ ہوگا
جیسے
میں اور میری بیوی کے لئے
میں وزن تھا اور میری بیوی الفاظ
اور ہماری نظم کا موضوع تھا
بوسہ ہائے محبت کا ہمیشہ پیوند
ہماری نظم میں شادمانی کے ساتھ ظاہر ہوا کرتی
ہمارے بچوں کے لبوں پہ کھیلتی مسکراہٹ
ایک خوشی کی نوبت کی طرح
لیکن کچھ سیاہ سرد الفاظ
ان اشعار کو مرثیہ کا احساس دے ڈالتے
اس کے توازن کو شکست دیتے
اور شادمانی کی نوبت کو تباہ کرڈالتے
آخر میں
شعر بے ثمر و مہمل ہوجاتا
اور بے مقصدیت استاد کو تھکادیتی
بار سخن دراز ہوگیا
اور اسے دردناک زخم بنا گیا
اور ایک رگ خون پھوٹ نکلی ہے
آج کے شاعر کا ماڈل
میں کہتا ہوں
زندگی ہے
زندگی کے تجربے سے شاعر
رنگ و آب شعر سے
پہلے سے موجود نقش زندگی پہ
ایک اور نقش چڑھاتا ہے
وہ شعر لکھتا ہے
یعنی
وہ پرانے شہر کے زخموں کو چھو کر انہیں اور طرح سے پیش کرتا ہے
یعنی
وہ قصّہ شب کو
صبح دل پذیر کے ساتھ بیان کرتا ہے
وہ شاعری لکھتا ہے
یعنی
وہ شہر اور شہر والوں کے درد
بیان کرتا
یعنی
وہ اپنے گیت کے ساتھ
خستہ روخوں کو پھر سے زندہ کرتا ہے
وہ شاعری لکھتا ہے
یعنی
وہ قلوب سرد و ماندہ کو
شوق/خوشی
سے سرشار کرتا
یعنی وہ طلوع صبح کے ساتھ
خفتہ آنکھوں کو بیدار کرتا ہے
وہ شاعری لکھتا ہے
یعنی
وہ انسان عصر کا افتخار نامے کی
تشریح کرتا ہے
یعنی
وہ اس کے زمانے کے فتح نامے
کو بیان کرتا ہے
اگر شاعری زندگی ہے
تو
یہ بحث خشک معنی الفاظ خاص
ان کے کے لئے شاعری درکار نہیں ہے
اس کے نیچے تاریک شعروں میں
ہمیں آفتاب امید و عشق کی گرمی
کا احساس ہوتا ہے
کیوان نے
زندگی کے گیت کو
اپنے خون سے سینچا ہے
ورتان نے
زندگی کے شور کو
سکوت قلب میں ڈھالا ہے
اگرچہ قافیہ زندگی
اس میں
سوائے موت کے لہجے کے کچھ نہ ہو
ہر دو شعر میں
ہر معنی مرگ
معنی زندگی ہے
اسی زمانے کی ایک اور نظم بھی ہے۔ ‘ سرود ابراہیم در آتش’ ۔ ‘ آگ میں ابراہیم کا گیت’ ۔مجاہدین خلق ایران جب امریکی سامراج کی گود میں نہیں بیٹھی تھی اور ایک انقلابی مارکس واد تنظیم تھی۔1951ء میں مھدی رضايی کو تیر چتگیر چوک میں شاہ ایران کی جانب سے پھانسی پہ چڑھایا گیا تو اس واقعے کی یاد میں احمد شاملو نے یہ نظم لکھ کر مہدی کی شہادت کو یادگار بنادیا تھا۔
آگ میں ابراہیم کا گیت
بھیڑيے کی خون خوار غراہٹ کے سامنے
ایک اور ہی طرح کا مرد کھڑا تھا
جو دھرتی کو سرسبز و شاداب دیکھنا چاہتا تھا
اور سب سے حسین ترین عورت کے عشق کا سزاوار تھا
اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا
اس کے لئے بے قدر کام نہ تھا
خاک و سنگ ہوجانا
کیا مرد تھا،کیا مرد تھا
اس نے کہا
دل کے لئے سب سے خوبصورت بات ہوتی ہے
کہ ہفت شمیشر عشق سے
خون میں بھیگ جائے
اور لبوں کے لئے بہترین بات ہے
ان سے خوبصورت ترین نام
ادا ہو
اور ایک شیر آہن کوہ اس عشق میں
خون آشام میدان تقدیر کو عبور کرجائے
کہ اس کی ایڑیاں ایشل جیسی ہوں
اس نے لکھی خود اپنی تقدیر
اس کا تن ناقابل شکست تھا
اس کی موت کا راز
اندوہ عشق اور
غم تنہائی تھا
آہ اسفندیار مغموم
تمہاری بند آنکھیں
اس خون آشامی سے آنکھیں پھیرنے کی طرح تھا
ایک ‘نہ’ تھی
بس ایک نہیں
جو کافی تھی میری تقدیر کا تعین کرنے کے لئے
میں
اور تنہا میں ہی چلایا
نہیں
اور میں نے ڈوبنے سے انکار کردیا
تو میری صدا ہوگئی
اشکال کے درمیان ایک شکل
اور اس طرح میں نے معنی کو پالیا
میں تھا
اور پھر ہوگیا
ایسا نہیں کہ پھولوں میں غنچہ
نہ جڑ کہ بڑھ کر ہو درخت
نہ بیچ کہ بڑھ کر جنگل ہوگیا ہوں
بلکہ ایک عام مرد
جو شہید ہوگیا
جس کی نماز
آسمان پہ پڑھی گئی
میں کوئی عاجز غلام نہ تھا
اور بہشت کی طرف میرا سفر
سفر طاعت و خاکساری نہ تھا
میں تو ایک اور ہی طرح کے خدا کا حق دار تھا
جو مخلوق کے قابل ہو تا
جو نوالہ ناگزیر کے لئے
گردن نہ جھکاتی ہو
اور ایک خدا
ایک اور ہی طرح کا
میں نے پیدا کیا
آہ! ایک پہاڑ کی طرح سورما
جو کہ تم تھے
پہاڑ کی طرح تم کھڑے رہے
اور خاک پہ گرنے سے پہلے ہی
تم مرگئے
اور نہ خدا نے اور نہ ہی شیطان نے
تمہاری سرنوشت رقم کی
بلکہ ایک بت نے لکھی تمہاری سرنوشت
وہ بت جن کی دوسرے لوگ پوجا کرتے ہیں
وہ بت کہ جن کی دوسرے لوگ پوجا کرتے ہیں

یہ بھی پڑھئے:  یہ بائیس کروڑ لوگ گھامڑ نہیں ہیں صاحب! - حیدر جاوید سید

انقلاب کے بعد احمد شاملو کو ایسے رجیم کا سامنا تھا جس نے اپنے مخصوص پولیٹکل اسلام ازم کے زیر اثر مقامیت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔اور احمد شاملو کو مقامیت کے خلاف اس جنگ کے اعلان سے جس جنگ کا سامنا ہوا،اس میں احمد شاملو کو کہنا پڑا:

No, a person cannot be without boundaries. Without them one wanders. Human beings need boundaries.
The Final Word

https://www.youtube.com/watch?v=QIhRMJd4d70

کوئی بھی شخص سرحدوں کے بغیر مشخص نہیں ہوسکتا۔اس کی پہچان اس کے بغیر نہیں ہوتی۔بغیر سرحدوں کے ہونا آوارگی ہے اور انسانوں کو جغرافیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں اس کے بغیر زمین زاد ہونا ممکن نہیں ہوتا۔اور اس کے بغیر آپ کی آفاقیت مصنوعی اور جلد ہی بکھر جانے والی ہوتی ہے۔ہم نے اسے مشرقی پاکستان میں بکھرتا دیکھا اور اب بلوچستان، سندھ اور سرائیکی خطے میں ریشہ ریشہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

احمد شاملو نے دیکھا کہ مابعد انقلاب ایرانی سماج کے اندر اب ایک اور نئے جبر کا سامنا تھا اور یہ جبر ایرانی نیشنل ازم کے پولیٹکل اسلام ازم کے نکاح کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔احمد شاملو اس جبر کے خلاف بھی بہت طاقتور امیجری کے ساتھ تشکیل پانے والی مزاحتمی شاعری کے ساتھ سامنے آئے۔ویسے یہ امیجری اور تمثال نگاری احمد شاملو کی ساری شاعری کا جوہر ہے جو ان کو اپنے ہم عصر شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور ایسے میں احمد شاملو کو ایسے زمانے کا سامنا کرنا پڑا جب ‘محبت کرنا’ اور ‘محبت کے گیت’ گنگنانا ہی جرم ٹھہر گیا۔اس زمانے میں ایک اور جبر سامنے آیا اور وہ جبر یہ تھا کہ اب آپ کو اپنے خدا کو ایرانی نیشنل ازم اور ولایت فقیہ کے ملغوبے سے سامنے آنے والے خدا سے بدلنا تھا۔

ویسے ہمارے سماج میں ہم نے پہلے 74ء میں اور پھر 80ء میں ایک گروہ کو کہا کہ اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اکثریت کے مذہب اور اس کے ہاں خدا و رسول سمیت مستعمل اصطلاحوں کو استعمال کرے اور اپنی عبادت گاہوں کے نام اکثریت کے نام پہ رکھے۔اور پھر ہم نے مخصوص ناموں اور شناختوں کو جن میں حسین، علی ، حسن، عباس ، کربلاء اور اس سے ملتے جلتے ناموں کا رکھا جانا،ان سے خود کو وابستہ کرنا زندگی سے محروم کردئے جانے کے مترادف جرم ٹھہرا دیا۔اور احمد شاملو مابعد انقلاب ایرانی سماج کو ‘ راہ بند’ کہتا ہے اور اس مناسبت سے وہ ایک نظم لکھتا ہے جس کا عنوان وہ رکھتا ہے: ‘ کنار تیرک راہ بند’ یعنی تاریک بند گلی کا نکڑ ۔زرا دیکھیں وہ کیا کہتا ہے:

سیاہ بند گلی کے نکڑ پہ

عجب زمانہ ہے نازنین
وہ تمہارا منہ سونگھتے ہیں
مبادا کہ تم نے مجھے کہہ نہ دیا ہو
میں تم سے پیار کرتی ہوں!
وہ تمہارا دل تک سونگھنا چاہتے ہیں
عجب زمانہ ہے نازنین
اور عشق کو
تاریک بند گلی کے نکڑ پہ
وہ کوڑے مارتے ہیں
عشق کو ہمیں تاريک گوشوں میں چھپانا ہوگا
ان مکار بھول بھلیوں میں
اس پیچدار سرد کونے میں
وہ شعروسرود کے ایندھن سے
آگ جلاتے ہیں
سوچنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے
عجب زمانہ ہے نازنین
وہ جو آدھی رات کو تمہارے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں
تمہارا چراغ توڑنے کو آتے ہیں
تو ہمیں روشنی کو بھی تاریک گوشوں میں چھپانا ہوگا
پھر وہاں قصاب ہیں
ہر گزرگاہ کے نکڑ پہ ہیں ٹھہرے ہوئے
آہنی گولا اور خون آلود چھرے لئے
عجب زمانہ ہے نازنین
لبوں پہ تبسم
زبانوں پہ ترانوں
کو وہ کاٹ دیتے ہیں
تو ہمیں اپنے ‘شوق’ کو بھی تاریا گوشوں میں چھپانا ہوگا
قناری(ایک پرندہ) کو بھونتے ہیں
آتش سوسن و یاسمین سے
عجب زمانہ ہے نازنین
فتح کے نشے میں بدمست شیطان
ہمارے دستر خوان عزا پہ بیٹھا ہے
ہمیں اپنے خدا کو بھی تاریک گوشوں میں چھپانا ہوگا
عجب زمانہ ہے نازنین

احمد شاملو نے ایرانی سماج میں مابعد انقلاب موت کے پھیلاؤ کو ایک اور طرح سے دیکھا۔اور ہمیں ایسے لگتا ہے کہ ہم کچھ اس طرح کی صورت حال سے بلوچستان میں گزر رہے ہیں۔ اور شاملو اس نظم کا عنوان ‘ از مرگ’ رکھتا ہے۔اور کہتا ہے:

موت سے

میں ہرگز موت سے ڈرا نہیں
اگرچہ اس کے ہاتھوں ابتذال میرے لئے زیادہ توڑنے والا عمل تھا
میرا دل اس دھرتی پہ مرنے سے ڈرتا ہے
جہاں گورکن کی مزدوری
آدمی کی آزادی کی قیمت سے
زیادہ ہوگئی ہے
میں نے سوچا
(تاکہ) دریافت کرلوں
اور آزادانہ (راہ) اختیار کرلوں
اور اپنے جوہر کو ایک قلعے میں بدل ڈالوں
موت کی قیمت چاہے کتنی ہی بھاری ہو
لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ میں مرنے سے کبھی نہیں ڈروں گا

حالیہ بلاگ پوسٹس