Qalamkar Website Header Image

پاکستانی فوج کا نکتہ نظر: بنگالی دانشوروں کا قتل

بنگالی مورخین کے مطابق 10دسمبر 1971ء کو جماعت اسلامی کی مسلح تنظیم البدر نے پاکستانی فوج کی مبینہ سرپرستی میں ملک بھر سے معروف بنگالی دانشوروں کو اٹھانا شروع کیا اور ان کو محمد پور ضلع میں قائم فزیکل ٹریننگ کیمپ میں بند کرنا شروع کردیا تھا۔

البدر پہ یہ بھی الزام ہے کہ اس نے چودہ دسمبر کو ان دانشوروں پہ بدترین تشدد کیا اور ان کو ہلاک کرنے  کے بعد رئیر بازار کے پختہ دریار کناروں پہ پھینک دیا۔اس وقت میجر جنرل اے کے نیازی پاکستان آرمی کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے اور لیفٹنٹ جنرل راؤ فرمان علی سول ایڈمنسٹریشن اور البدر و الشمس کے انچارج تھے۔14 دسمبر کو قتل ہونے والے بنگالی دانشوروں کے اغواء اور مارے جانے کا بنیادی الزام بھی را ؤفرمان علی پہ تھا۔اگرجہ اے کے نیازی بھی اس ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتے ۔

جنرل اے کے نیازی 
DISMEMBERMENT OF PAKISTAN پاکستان کا دولخت ہونا
پندرہ/سولہ دسمبر کی رات کو،میں نے اپنے ہیلی کاپٹرز کو برما جانے کو کہا۔بعض مفاد پرستوں نے جنرل رحیم کا ہیلی کاپٹرز کی مدد سے برما کی جانب انخلاء کو متنازع بنایا۔اس نے 14 ڈویژن کے جے او سی کے طور پہ شورش دبانے کے خلاف آپریشنوں میں بہت بہتر کردار ادا کیا اور ان کو ہلال جرات سے بھی نوازا گیا۔جنگ کے دوران جب دشمن نے چاند پور میں ان کی ڈویژن کے ہیڈکوارٹر پہ دھاوا بولا تو وہ اس وقت ڈویژن کا عارضی انچارج تھا۔اس نے اپنی ڈھاکہ کے لئے  ڈیزائن کردہ ڈھاکہ کے دفاع کی پوزیشنوں سے اس وقت پسپائی کا حکم دیا جب ہیڈکوارٹر سے اس کے انخلاء کے دوران کچھ کشتیاں آگ میں پھنس گئی تھیں اور انخلاء میں دیری ہوگئی۔تو نارائن گنج واپسی کے راستے میں ان پہ ہندوستانی فضائیہ نے حملہ کردیا۔اس کی کشتی ڈوب گئی اور ہم نے کئی بہادر سپاہی کھودئیے۔جنرل رحیم زخمی ہوگیا اور اس کو سی ایم ایچ ڈھاکہ بھیج دیا گیا۔اسے میرے خصوصی حکم پہ کچھ کاغذات کے ساتھ بھیجا گیا تاکہ وہ ان کو جی ایچ کیو کے حوالے کرسکے۔یہ کاغذات بھٹو ہاؤس پہنچ گئے اور جب ان کی ضرورت پڑی تو کبھی ان کو پیش نہ کیا گيا۔الگ سے ہیلی کاپٹرز نرسوں کو الاٹ کئے گئے۔تاریکی کی وجہ سے تاہم نرسیں غلط ہیلی کاپٹر میں پہنچ گئیں اور کبھی وہاں نہ پہنچ سکے جہاں انہوں نے جانا تھا۔ان کی نشستیں خالی رہیں اور ہیلی کاپٹر ان کے بغیر ہی برما اڑان کرگئے۔

میجر جنرل فرمان نے اصرار کیا کہ اس کو بھی برما یا غربی پاکستان بھیجا جائے۔اس نے یہ اصرار 15/16 دسمبر کی درمیانی رات کو کرنا شروع کیا کیونکہ مکتی باہنی اس کو بنگالیوں اور دانشوروں کےمبینہ قتل عام میں قتل کرنے کی درپے تھی۔اس کا چہرہ بالکل زرد تھا اور وہ بالکل ٹوٹا پھوٹا لگ رہا تھا،یہ کافی قابل رحم منظر تھا۔میں نے اسے انتہائی سنجیدہ یقین دہانی کرائی کہ میں اس کی مکتی باہنی سے مکمل حفاظت کروں گا اور ہندوستانیوں سے بھی،یہاں کہ اپنی جان کی قیمت پہ بھی۔میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس کا اعتراف کرے گا کہ مکتی باہنی اور ہندوستانیوں کی جانب مستقل مطالبے کے باوجود میں کسی کو اسے چھونے دینے کی بھی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

میجر جنرل راؤ فرمان علی Major General Rao Farman Ali
HOW PAKISTAN GOT DIVIDED پاکستان کیسے تقسیم ہوا ص 189
دس دسمبر کو غروب آفتاب کے وقت مجھے ڈھاکہ کے کمانڈر میجر جنرل جمشید نے فیل خانہ دھان منڈی میں اپنے آفس میں آنے کو کہا۔اس کی کمپاؤنڈ پوسٹ کے جب میں قریب تھا تو میں نے بہت سی گاڑیاں دیکھیں۔وہ اپنے بنکر سے باہر آرہا تھا اور اس نے مجھے اپنے ساتھ کار میں آنے کو کہا۔

کچھ منٹ کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ یہ گاڑیاں کس لئے ہیں۔اس نے کہا،’یہ اسی کام کے لئے ہیں،جس بارے ہم نیازی سے ڈسکس کرنے جارہے ہیں،” جب ہم کور ہیڈ کوارٹر کے راستے میں تھے تو اس نے مجھے بتایا کہ اسے بڑی تعداد میں دانشوروں اور دوسری ممتاز شخصیات کو گرفتار کرنے کا حکم ملا ہے۔میں پوچھا،”کیوں،کس لئے؟”یہ تو ایسا کچھ کرنے کا ٹھیک وقت نہیں ہے۔” جمشید نے کہا،’یہ نیازی کو بتاؤ۔”جب ہم نیازی کے دفتر پہنچ گئےتو جمشید نے سوال اٹھایا۔نیازی نے میرے خیالات دریافت کئے۔میں نے کہا،”یہ ٹھیک وقت نہیں ہے۔”تمہیں ان کے بارے میں بھی ایک کہانی بیان کرنا ہوگی جن کو پہلے تم نے گرفتار کیا تھا۔برائے مہربانی اب کسی اور کو گرفتار نہ کریں۔” وہ رضا مند ہوگیا۔

یہ بھی پڑھئے:  اک بلھے شاہؒ درکار ہے اس عہد کو

میرا اندیشہ یہ ہے کہ پہلے احکامات کو منسوخ کرنے کے احکامات جاری نہیں کئے گئے اور کچھ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔میں آج تک نہیں جانتا کہ وہ کہاں رکھے گئے تھے۔شاید وہ اس علاقے میں نظربند تھے جس کی حفاظت مجاہدین کررہے تھے۔سرنڈر کرنے کے بعد کور یا ڈھاکہ گریژن کمانڈر نے ان پہ کنٹرول کھودیا اور وہ مکتی باہنی کے خوف سے بھاگ گئے جو کہ مجاہدین کو بے رحمی سے مار رہے تھے۔نظربند لوگوں کو شاید مکتی باہنی نے ہی قتل کردیا یا ہندوستانی فوج نے تاکہ پاکستانی فوج کو بدنام کیا جاسکے۔ڈھاکہ پہلے ہی ہندوستانیوں کے قبضے میں آگیا تھا۔
Hamoodur Rahman Commission Report.
ہم ابھی ڈھاکہ ہی میں تھے۔مجھے ہندوستانی فوج کے میجر جنرل ناگرا نے بلایا اور اس الزام پہ مجھ سے جرح کی۔میں نے اسے کہا،”میں کیسے ملوث ہوسکتا تھا۔میں اتنے بہت سارے لوگوں کو اکیلا نہیں مار سکتا تھا۔
کمانڈ میرے پاس نہیں تھی۔میرے پاس کوئی سویلین اتھارٹی تھی۔اس نے مان لیا۔یہ سوال مگر اس وقت پھر دوبارا اٹھایا گیا جب ہم جبل پور پہنچے۔ہندوستانی فوج کے بریگیڈئر لیسلے ہم سے انٹروگیٹ کرنے پہنچے۔ان کا پہلا سوال یہ تھا،’تم 16/17 دسمبر کو 200 دانشوروں کے قتل کے مرتکب ہوئے۔تمہیں اس بارے کیا کہنا ہے؟’ میں نے کہا،”جنرل نیازی،اوپر سیڑھیوں پہ بیٹھے ہیں۔جائیں اور ان سے پوچھیں:میں نے نہیں کیا اور کیا میں نے دس دسمبر کو لوگوں کی گرفتاری کی مخالفت نہیں کی تھی۔تو اگر میں ان کی گرفتاری کا مخالف تھا تو میں ان کو مارنے کا حکم کیسے دے سکتا تھا۔”وہ فوری اٹھا اور نیازی سے ملنے چلا گیا۔دس منٹ بعد وہ واپس آیا اور اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا کہ اسے اور کچھ نہیں پوچھنا:نیازی نے اس کی تصدیق کی تھی جو میں نے لیسلے کو بتایا تھا۔

ہندوستانی خود بھی پاکستان فوج میں کسی آدمی کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے بہت بے تاب تھے۔بریگیڈئر بشیر ایسٹ پاکستان رائفلز والے اور 50 دوسرے افسران کو دہلی میں قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان سے بہت پوچھ تاچھ کی گئی۔ایک افسر نے مجھے بتایا کہ ان کو پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اس قتل عام کا ذمہ جنرل فرمان کو قرار دے دیں تو اسے فوری طور پہ کہیں بھی بھیج دیا جائے گا۔لیکن کسی ایک نے بھی یہ پیشکش نہ مانی۔میں اس پہ ان کا مقروض ہوں۔ایک بھی اس لالچ میں نہیں آیا۔اور یہاں پاکستان میں پاکستانی فوج کے مشرقی پاکستان میں دانشوروں کو قتل کرنے کے الزامات کو بہت پبلسٹی دی کئی۔مقصد سیاسی طور پہ فوج کو بدنام کرنا تھا۔

جی ایچ کیو کی سپیشل کمیٹی (جسے آفتاب کمیٹی کہا گیا) اور حمود الرحمان کمیشن کی جانب سے کلیئرنس ملنے کے بعد مجھے جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ کے عہدے پہ تعینات کیا گیا،یہ فیصلے کی طرف واضح اشارہ تھا لیکن مجھے پاکستان سے باہر سے تصدیق لانا پڑی۔

حمود الرحمان کمیشن رپورٹ Hamoodur Rahman Commission Report
چودہ دسمبر 1971ء کے دوران دانشوروں کا مبینہ قتلALLEGED KILLING OF INTELLECTUALS DURING DECEMBER 14, 1971
یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جسے شیخ مجیب الرحمان نے پرائم منسٹر سے اپنے اجلاس کے دوران میں اٹھایا جو ڈھاکہ میں ہوئی۔میجر جنرل فرمان علی کے مطابق یہ نو دسمبر اور دسمبر 1971ء تھا جب اسے شام کو میجر جنرل جمشید کا فون آیا،جو ڈھاکہ ڈویژن کا ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا اور اس نے مجھے فیل خانہ میں اپنے ہیڈکوارٹر آفس آنے کو کہا۔آفس ہیڈکوارٹر پہنچنے کے بعد میں نے بڑی تعداد میں گاڑیوں کو وہاں کھڑی دیکھا۔میجر جنرل جمشید ایک کار میں بیٹھ رہا تھا۔اس نے میجر جنرل فرمان علی کو اپنے ساتھ آنے کو کہا۔وہ دونوں ایسٹرن کمانڈ کے ہیڈکوارٹر جنرل نیازی سے ملنے گئے۔اور راستے میں جنرل جمشید نے فرمان کو بتایا کہ وہ کچھ خاص لوگوں کو گرفتار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔جنرل فرمان نے اس کے خلاف رائے دی۔لیفٹنٹ جنرل نیازی کے ہیڈکوارٹر پہنچنے پہ اس نے اپنی تجویز دوھرائی۔جس پہ نیازی خاموش رہا اور میجر جنرل جمشید نے بھی یہی بات کی۔میجر جنرل فرمان علی نے بیان دیا ہے کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ہیڈکوارٹر سے آنے کے بعد کیا ہوا لیکن وہ سوچتا ہے کہ پھر مزید کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  انسانیت کی اونچی مثال

جب اس مسئلے بارے جنرل نیازی سے پوچھا گیا تو اس نے بیان دیا کہ نو دسمبر 1971ء کو مقامی کمانڈرز اس کے پاس ایک لسٹ لیکر آئے جس میں مکتی باہنی وغیرہ کے شرپسندوں کے نام شامل تھے،لیکن کسی دانشور کا نام نہیں تھا لیکن اس نے ان کو جمع کرکے گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔اس نے ان الزامات کی تردید کی کہ ان دانشوروں کو اصل میں گرفتار کیا گیا تھا اور 9 دسمبر 1971ء کو یا اس کے بعد قتل کردیا گيا تھا۔

میجر جنرل جمشید نے تاہم اس سے ذرا مختلف بیان دیا۔وہ کہتا ہے کہ یہ نو اور دسمبر 1970ء تھا کہ جنرل نیازی نے ڈھاکہ شہر میں ایک عام شورش کا خطرہ بیان کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ خاص لوگوں کی فہرستوں کے مطابق گرفتاری کرنے کا جائزہ لے جو کہ پہلے ہی کئی ایجنسیوں مارشل لاء حکام اور انٹیلی جنس برانچ وغیرہ کے پاس تھیں۔1971ء میں نو تاریخ کو ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس فہرستیں متعلقہ ایجنسیوں نے پیش کیں اور کل جن لوگوں کو گرفتار کیا جانا تھا وہ دو یا تین ہزار تھے۔

اس کے مطابق، گرفتار شدگان کے لئے جگہ،سیکورٹی گارڈ ،مسنگ اور ان کو انڈین ائر فورس کے حملے سے بچانے کے لئے سیفٹی انتظامات وغیرہ ایسے مشکلات کا شکار کرنے والے تھے جن کا حل نہیں تھا تو اس نے لیفٹنٹ جنرل نیازی کو واپس رپورٹ کی کہ اس تجویز کو ترک کردیا جائے۔وہ کہتا ہے کہ اسی لئے اس معاملے میں بعد میں کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

ایک ڈیسک ڈائری جو کھلے جھوٹ کا پول کھولتی ہے

راؤ فرمان علی کی ڈیسک ڈائری میں اس کے اپنے ہاتھ سے شکستہ طور پہ لکھے دانشوروں کے نام ہیں۔مزید اس میں البدر کے لئے گاڑیوں کے انتظام کا بھی ذکر ہے جو واضح طور پہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی یادداشتوں اور کمیشن کی رپورٹ میں ذکر کردہ گاڑیوں سے بخوبی واقف تھا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس