جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سخت حالات سے دوچار تھیں اور سیاسی میدان خالی خالی سا لگتا تھا۔ 11 ستمبر کے حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں امریکی مداخلت نے ایک عجیب زلزلہ سا برپا کیا ہوا تھا۔ طالبان سے قریبی تعلق رکھنے والی دائیں بازو کے انتہاپسند نظریات کی مختلف مذہبی جماعتوں نے دفاع افغانستان کونسل کے نام سے ایک احتجاجی تحریک منظم کی۔ اس محاذ نے بظاہر فوجی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے ملک گیر احتجاجی منصوبے تشکیل دئے اور اپنے مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔
مذہب کی لیبارٹری میں امریکہ مخالف جذبات کی عوامی آنچ پر کیے گئے اس تجربے کی کامیابی نے سرکردہ جماعتوں جمیعت علماء اسلام ف، جمیعت علماء اسلام س، جماعت اسلامی اور جمیعت اہلحدیث کو تحریک دی کہ اسے سیاسی میدان میں بھی آزمایا جائے۔ اس مقصد کے لئے قاضی حسین احمد کی تجویز پر متحدہ مجلس عمل نامی ایک سیاسی اتحاد سامنے آیا جس میں حیرت انگیز طور پر ساجد نقوی کی شیعہ جماعت تحریک جعفریہ بھی شامل تھی۔
اس اتحاد میں اقتدار و اختیار کےسب سے زیادہ سیاسی پھل جمیعت علمائے اسلام ف کے حصے میں آئے جبکہ جماعت اسلامی نے بھی حصہ بقدر جثہ وصول کیا۔ اس کے علاوہ سمیع الحق اورساجد میر کی جماعتوں نے بھی اتحاد سے مختلف قدروں میں سیاسی فائدہ کشید کیا۔ اس سلسلے میں محروم رہ جانے والوں میں اس وقت پاکستانی بریلویوں کی نمائندہ سمجھی جانے والی جمیعت علمائے پاکستان اور تحریک جعفریہ سرفہرست رہے۔ جمیعت شاید اس لئے خسارے میں رہی کہ شاہ احمد نورانی صدیقی صاحب کی زندگی نے وفا نہ کی اور ان کے جانشنین اتنا بھاری سیاسی بوجھ اٹھانے کے قابل ثابت نہ ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف کی زیر نگرانی انتخابات 2002 کے انعقاد سے پہلے سپاہ صحابہ اورتحریک جعفریہ پر پابندی عائد کی جا چکی تھی۔ اس سلسلے میں واضح طور پر تحریک جعفریہ کو غیر عادلانہ "متوازن پالیسی” کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس دعوی کا ثبوت یہ ہے کہ لاہور سیشن کورٹ حملے میں سزایافتہ محرم علی سے تحریک جعفریہ نے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اسے بچانے کے لئے کوئی عوامی، قانونی یا سیاسی جدوجہد نہ کی۔ دوسری جانب سپاہ صحابہ نے ایرانی سفیر صادق گنجی کے قاتل حق نواز سے نہ صرف اپنا واضح تعلق ظاہر کیا بلکہ اس کی سزائے موت رکوانے کے لئے پرتشدد مظاہرے اور دیت کے لئے ایرانی حکومت سے رابطےبھی کئے۔
اتنی صریح ناانصافی کے باوجود اس معاملے میں متحدہ مجلس عمل کے دیگر قائدین نے کبھی کوئی مربوط ردعمل دیا اور نہ ہی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے کسی قسم کی سخت حکمت عملی وضع کی۔ اس کے برعکس ایم ایم اے کی سرکردہ جماعتوں کے قائدین نے پاکستانی شیعوں کی علی الاعلان پرتشدد تکفیر کرنے والے اپنے ہم مسلک کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق کے مقابلے میں جھنگ کے حلقہ این اے 89 سے امیدوار نہ لانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے کسی ایسے علاقے سے تحریک جعفریہ کو قومی یا صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ نہ دیا گیا جہاں ان کے جیتنے کی کوئی امید رہی ہو۔ عام انتخابات 2002 میں متحدہ مجلس عمل میں فضل الرحمن، سمیع الحق اور قاضی حسین احمد صاحبان کے پاکستانی شیعہ برادری کے ایسے اعتماد مجروح کرنے والے جانبدارانہ اقدامات کے باوجود ساجد نقوی صاحب نے اتحاد میں شامل رہنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔ شاید سیاسی بےقدری کے اس سفر میں ہزیمتوں کی کئی اور منازل طے ہونا باقی تھیں۔
عام انتخابات 2002ء کے نتیجے میں متحدہ مجلس عمل کے دو قائدین فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے تھے۔ اب اگلا مرحلہ سینیٹ انتخابات کا تھا۔ شاہ احمد نورانی صاحب پارلیمنٹ جانے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے، پروفیسر ساجد میر کو حسب معمول پاکستان مسلم لیگ ن اپنے کوٹے سے سینیٹر منتخب کروا رہی تھی اور ایم ایم اے صوبہ سرحد سمیع الحق صاحب کے نام کی منظوری متفقہ طور پر دے چکی تھی۔ ایسے میں صرف ایک قائد ایسے تھے جن کا نام ہر جگہ مسترد کیا جا رہا تھا۔ نومبر 2002 میں منعقد ہونے والے سینیٹ انتخابات کے متعلق اتحادیوں کے ایک اجلاس میں جمیعت العلمائے اسلام ف کے سربراہ فضل الرحمان صاحب نے واضح کر دیا کہ ان کی جماعت کے ارکان اسمبلی علامہ ساجد نقوی کو صوبہ سرحد کی سینیٹ نشست پر ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد کی نشست پر یقینی کامیابی کے حالات تھے لیکن یہاں سے جماعت اسلامی نقوی صاحب کے انتخاب پر آمادہ نہ ہوئی اور قرعہ پروفیسر غفور کے نام نکلا۔ یاد رہے اسلام آباد کے لئے قومی اسمبلی کی دو نشستوں میں سے ایک ایم ایم اے کے لئے نامزد جماعت اسلامی کے رکن نے جیتی تھی۔ اس کے بعد ساجد نقوی صاحب کو پنجاب سے یقینی شکست والی ٹکٹ پیش کی گئی جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ اس تمام صورتحال میں تحریک جعفریہ کی سیاسی حکمت عملی کی مکمل ناکامی پر مہر تصدیق متحدہ قومی موومنٹ نے علامہ عباس کمیلی کوسندھ سے سینیٹر منتخب کروا کر ثبت کر دی۔
اس تمام صورت حال میں صاحبان عقل جانناچاہیں گے کہ متحدہ مجلس عمل کیوں کر قائم کی گئی۔ بیان کئے گئے واقعات و حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایم ایم اے میں تحریک جعفریہ کی شمولیت کا واحد مقصد اسے مسلکی اتحاد کی چھاپ سے بچاتے ہوئے جمیعت العلمائے اسلام کے دونوں دھڑوں، جماعت اسلامی اور جمیعت اہلحدیث کے مخصوص مسلکی و فکری مفادات کا سیاسی حصول رہا۔ اس معاملے میں تحریک جعفریہ غیر ضروری دباؤاور مصلحت پسندی کا شکار نظر آئی جس کی بنیادی وجہ قیادت کی خودغرضانہ کمزور پالیسیاں تھیں۔ دوسری جانب مسلک پرست دہشت گردوں کی پاکستانی شیعہ مساجد اور اجتماعات پر خون ریز حملوں کو متحدہ مجلس عمل کی مرکزی قیادت امریکی ڈرون حملوں کے ردعمل کا رنگ دیتی رہی۔ ایم ایم اے کی اس بےرحمانہ پالیسی نے کئی سال تک دہشت گردی کے خلاف عوامی رائے عامہ کو ہموار نہ ہونے دیا بلکہ شدید کنفیوژن میں مبتلا رکھا۔ متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہونے کے باوجود تحریک جعفریہ کی قیادت مجرمانہ چشم پوشی سے کام لیتی رہی جس کا نتیجہ بالآخر متعدد متحرک مقامی رہنماؤں کی شہادت، صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں پہ طالبانی قبضے، ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع کی منظم ٹارگٹ کلنگ اور پاراچنار کا رابطہ کئی سال باقی مملکت سے منقطع رہنے کی صورت میں نکلا۔
متحدہ مجلس عمل میں شمولیت کے تباہ کن فیصلے کے پاکستانی شیعہ برادری کو خاطرخواہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی نقصانات اٹھانا پڑے۔ اس تمام صورت حال میں ناقدین کا دعوی ہے کہ 90ء کی دہائی سے متنازع ہوئی قیادت بچا کھچا عوامی اعتماد بھی کھو چکی ہے لیکن تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ مایوس کن سیاسی صورت حال میں ابھرنے والی مختلف متبادل شیعہ قیادتوں کے رہنماؤں اور نوجوانوں کا ماننا ہے کہ زائد المیعاد قیادت مسلسل ناکامیوں کے بعد اپنا اثر کھو چکی ہے اور ایسے میں فقط ذاتی مفادات کے لئے متحدہ مجلس عمل جیسی فاش غلطی دوہرانا خودکشی جیسا ہے۔ جبکہ ایک بار پھر واضح ہے کہ عام انتخابات 2018 میں بھی راہ حق پارٹی کے سیاسی نام سے سرگرم کالعدم سپاہ صحابہ کے سرکردہ رہنماؤں کے مقابلے میں ایم ایم اےامیدوار سامنے لانے کو تیار نہیں۔
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn