فرد ہی وہ واحد اکائی ہے جس سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور فرد کی تربیت میں دو بنیادی ادارے سکول اور خاندان انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔خاندانی بنیادوں پر فرد کی شخصیت سازی میں والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس میں استاد کا کردار بہت محدود ہوتا ہے کیونکہ بچہ چوبیس گھنٹوں پر محیط دن میں سے اٹھارہ گھنٹے ماں باپ کے ساتھ گزارتا ہے جبکہ سکول قابل،ہنر مند،باکردار اور شائستہ افراد تیار کرنے کی صنعت ہے جس میں اساتذہ سمیت حکومتی پالیسیوں کا پورا عمل دخل ہے۔اگر استاد بچے کے لئے روحانی والدین کا درجہ رکھتا ہے تو ریاست کے ذمے ان نونہالان کی سرپرستی اور معاشی ومعاشرتی ترقی کے لئے درست سمت میں راہنمائی فراہم کرنا ہے۔
اگر ہم جنوبی پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں کا بالخصوص اور ضلع لیہ کے تعلیمی اداروں کا بالعموم جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حکومت گزشتہ کئی دہائیوں سے تعلیم کی اہمیت سے اغماض برتتی آئی ہے اور وہ سرکاری ادارے جن کا معیار تعلیم اگر پرائیویٹ اداروں سے بلند نہیں تو کم از کم ان کے برابر ہونا لازم تھا، تقریبالاوارث رہے ہیں جس کا ثبوت مذکورہ ڈسٹرکٹ کے بیشتر پرائمری سکولوں میں گزشتہ چودہ سالوں سے محض ایک ہی استاد کی تعیناتی ہے جو بیچارہ تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ سکول میں نظم وضبط قائم رکھنے،سکیورٹی،صفائی ستھرائی،والدین سے بچوں کی تعلیمی صورتحال پر تبادلۂ خیال کے علاوہ دفتری خط و کتابت کے امور بھی نمٹاتا رہا ہے اور گاہے بگاہے افسران اعلیٰ کے حضورپیشی بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔اس ستم کا تختہء مشق محض ا کلوتا عمر رسیدہ استاد ہی نہیں بنا بلکہ اس کا خاطر خواہ اثر بچوں پر بھی پڑاکیونکہ عملی طور پر یہ ایک لا یعنی بات نظر آتی ہے کہ ایک پرائمری سکول کا واحد استاددیگر تمام امور سر انجام دینے کے ساتھ درجہء پنجم تک کی کلاسوں کو اردو سے لے کر ریاضی اور سائنس تک تمام مضامین یکساں مہارت کے ساتھ پڑھا سکے۔نتیجتہً بچہ اردو کی حروف ابجد اور اانگریزی کی سی فار کیٹ سے آگے نہیں بڑھ پایاالبتہ اپنی عمر رواں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کلاس پنجم میں پہنچ گیا۔کہنے کو تو وہ اعلیٰ درجہ میں ترقی پا گیا مگر اس کا دماغ بالکل صاف سلیٹ کی طرح رہا جس کا خمیازہ نئے تعینات ہونے والے ایجوکیٹرز کو بھگتنا پڑا جو کافی حد تک جائز دہائی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو بچہ اس سطح پر پہنچ کر ایٹم کے نام سے ہی واقف نہیں اس کو ایٹامک ماڈل کیسے پڑھایا جا سکتا ہے اور دوسری جانب جو بچہ بغیر ہجوں کے روانی سے اردو نہیں پڑھ سکتا اس سے پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کی جانب سے پیش کردہ پیچیدہ سائنس اور ریاضی ومعلومات عامہ کے امتحانات کیسے لئے جا سکتے ہیں۔یہ ایک عام فہم بات ہے کہ اگر عمارت پائیدار اور دیرپا بنانی ہو تو اسکی بنیادیں مضبوط اٹھائی جاتی ہیں۔لیکن اب جو بچے مکمل تعلیمی مدارج طے کئے بغیردرجہ پنجم میں ترقی پا گئے ہیں ان کو جدید تعلیم سے کیسے روشناس کروایا جائے۔اب جبکہ موجودہ دور کی تعلیمی جدتوں میں کلاس رومز کو انٹر نیشنلی لنکڈ کیا جا رہا ہے اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک سمیت اس کا مظا ہرہ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے تو اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دیہاتی علاقائی سکولوں میں پڑھنے والے بچے کا مستقبل کیاہو گا کیونکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال تو درکنار اس کا نام بھی ٹھیک سے نہیں جانتا۔یہ بات تو طے ہے کہ سرکاری سکولوں میں بطور ایجوکیٹرز تعینات ہونیوالے نوجوان جو کہ جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی آشنا ہیں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے لیکن اس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اس بات کو دو چار سال نہیں بلکہ ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا اور جب تک ہم عصر حاضر کے موجودہ تقاضوں کو سمجھنے اور سمجھانے کے قابل ہوں گے زمانہ ہم سے کہیں آگے جا چکا ہو گا۔
اس بھیڑچال میں قصور وارشاید صرف حکومت ہی نہیں بلکہ وہ بزرگ اساتذہ بھی ہیں جو دور جدید کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصررہے اور تختہ سیاہ اور تختی کی مدد سے روایتی تعلیم ہی دیتے رہے۔اس پر مستزاد یہ کہ بچوں کوعالمی سطح کی تعلیم دینے کے لیئے انگریزی زبان کا استعمال کیا جاتا،ان سے ان کی مادری زبان یعنی پنجابی اور سرائیکی میں ہی بات کی جاتی رہی اور یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر کر لیا گیا کہ بچہ جو زبان سمجھے گا ہم اسکو اسی کے ذریعے پڑھائیں گے جس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ بچوں کے فکر و عمل میں کبھی یکسانیت پیدا ہو ہی نہیں سکی۔تحصیل کی سطح پر حکومتی قائم کردہ سکول مینیجمنٹ کمیٹی یا سکول کونسل کے قیام کا مقصدکمیونٹی کے مقامی افراد کے ذریعے تعلیمی اداروں کا انتظام و انصرام بہتر کرنا تھاجس میں والدین سمیت معاشرے کے معززین کو معقول نمائندگی دی گئی تاکہ وہ مقامی صورتحال کا درست ادراک کرتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم میں بہتر کردار ادا کر سکیں لیکن ذیادہ تر والدین ہی فکر و عمل سے عاری نکلے جن کی ترجیحات میں بچوں کی تعلیم کی بجائے زمینیں اور جائدادیں خریدنا شامل ہے۔جب کبھی سکول کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے،والدین اول تو اس میں آنا ہی اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور بالفرض محال اگر تشریف لے بھی آئیں تو حالت یہ ہوتی ہے کہ گریبان کے بٹن ندارد،پاؤں سے جوتا غائب اور کسی کندھے پر رکھی ہوئی ہوتی ہے لہٰذا اب اس بات کا خدشہ ہے کہ ارباب بست و کشاد کو بچگانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغاں کا بھی بندو بست کرنا پڑے گا۔
اگرچہ حکومت نے اپنے تئیں تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کا بندو بست کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹرز،ریٹائرڈفوجی حضرات اور اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز گاہے بگاہے سکولوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔مگر ان کے یہ طوفانی دورے والدین کی ترجیحات پر اثرانداز نہیں ہوتے جو صبح بچے کو اس حالت میں سکول بھیجتے ہیں کہ اس کا گندا لباس اورکتابوں سے عاری بستہ والدین کی بے حسی اور ٹیچر کی بے بسی کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn