Qalamkar Website Header Image

اور اب مطیع الرحمن نظامی شہید

Noor ul Hudaخونِ شہداء کی تابانی ہر لمحہ فزوں تر ہوتی ہے
جو رنگ وفا سے بنتی ہے ، ہوتی ہے حسیں تصویر بہت
بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں کو فقط جماعت اسلامی سے منسوب کرنا اس لحاظ سے زیادتی ہے کہ وہاں لوگوں کا جماعت اسلامی کے نام پر نہیں ’’پاکستان‘‘ کے نام پر عدالتی قتل کیا جارہا ہے ۔ پروفیسر غلام اعظم ، عبدالقادر ملا ، قمرالزمان ، علی احسن مجاہد ، صلاح الدین اور اب مطیع الرحمن نظامی ۔۔۔ گذشتہ نہایت مختصر عرصہ میں 6 افراد محض اس وجہ سے تختہ دار پر جھولا دئیے گئے کہ انہوں نے 1971ء میں ’’پاکستان‘‘ کو ٹوٹنے سے بچایا اور غداروں و باغیوں کی سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا ۔ جب انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا ، اس وقت بنگلہ دیش کا وجود ہی نہیں تھا ۔ تب بنگلہ دیش بھی ’’پاکستان‘‘ تھا ۔۔۔ اس تناظر میں پھانسی کے پھندوں پر جھولنے والے احباب پاکستان سے وفاداری کررہے تھے بنگلہ دیش سے غداری نہیں ۔۔۔ اگر یہ بغاوت تھی تو پھر حب الوطنی کسے کہتے ہیں ، حسینہ واجد کے پاس بھی شاید اس سوال کا جواب نہیں ہے ۔۔۔ افسوس کہ پاکستانی حکومت اور نہ ہی اقوام عالم یہ بات ماننے پر تیار ہیں کہ بنگلہ دیش میں کچھ لوگ پاکستان کے نام پر مارے جارہے ہیں ۔۔۔ پاکستان کے نام پر گرائی گئی لاشیں اٹھا رہے ہیں ۔۔۔ پاکستان ہی کے نام پر انہیں مجرم قرار دیا جارہا ہے ۔۔۔ وہ پاکستان سے محبت میں قربان ہورہے ہیں ۔۔۔ بنگلہ دیش کے دارورسن پر پاکستان کے وفادار جھول رہے ہیں تو پھر یہ بنگلہ دیش کا داخلی یا اندرونی معاملہ کسی صورت نہیں ہوسکتا ؟ ۔۔۔ اور یہ تو جماعت اسلامی بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ خالصتاً قومی ایشو ہے ، یہ پاکستان کامعاملہ ہے لیکن پاکستانی حکومت اور عوام اسے اپنانے کو تیار ہی نہیں ہیں ۔
مقام افسوس تو یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کا ناتجربہ کار اور متعصب جنگی ٹربیونل پاکستان کا نام استعمال کرکے اپنے ہی شہریوں پر بے بنیاد الزام عائد کررہا ہے اور حکومت پاکستان میں اخلاقی طور پر بھی ان الزامات کی تردید کی جرات پیدا نہیں ہورہی ۔۔۔ بنگلہ دیش میں جن لوگوں کو تختہ دار پر چڑھایا جا رہا ہے ان کا قصور صرف یہ ہے کہ متحدہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد جب ایک خطے کا نام بنگلہ دیش بن گیا تو مشرقی حصہ کے رہائشی ہونے کی بدولت وہ وہیں سکونت اختیار کرگئے اور بنگلہ دیشی کہلائے ۔ انہوں نے بنگلہ دیشی قوانین کو قبول کیا اور بنگلہ دیشی آئین کے تحت ہی سیاست کی ۔۔۔ لیکن بنگلہ دیش میں وہ پاکستان سے محبت کرنے والے کہلائے ۔۔۔ وہ پہلے بھی نیزوں کی زد میں رہے اور بعد میں بھی سولی چڑھتے رہے ۔۔۔ اس سے بڑھ کر سردمہری کی انتہا یہ بھی ہے کہ ’’ پاکستان‘‘ کے نام پر ، پاکستان کی بقا کیلئے بہنے والا خون پاکستان کیلئے ہی اجنبی ہے ۔۔۔ بنگلہ دیش انہیں اپنا شہری ماننے پر آمادہ نہیں اور پاکستان کیلئے وہ غیرملکی ہیں ۔۔۔
ہم سے تو اچھے لندن ، نیویارک ، جنوبی افریقہ ، ترکی ، قطر ، عمان ، سعودی عرب (مکہ ، مدینہ) ، بحرین اور کویت والے ہیں جہاں ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف نہ صرف بڑے پیمانے پر احتجاج اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کئے گئے بلکہ ترکی نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے احتجاجاً بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلالیا بلکہ وہاں تو ذرائع ابلاغ نے بھی اس ایشو کو بھرپور کوریج دیکر پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے ، جیسے ہمارا مشرقی حصہ ترکی کا مشرقی بازو ہو ۔۔۔ لیکن جس کیلئے ، جن کے نام پر پروفیسر غلام اعظم ، عبدالقادر ملا ، قمرالزمان ، علی احسن مجاہد ، صلاح الدین اور مطیع الرحمن نظامی نے جام شہادت نوش کیا ، انہیں اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔
’’مرے تھے جن کیلئے ، وہ رہے وضو کرتے‘‘
لیکن یہاں وضو کی نیت بھی کرنا تو درکنار ، ان کے حق میں ہلکی سی ہمدردی تک پیدا نہیں ہوسکی ۔ پاکستان سے محبت کے جرم میں مقتل آباد کرنے والوں کیلئے ہمارے ہاں نہ کوئی پُرسہ ہے اور نہ ہی آنسو ۔۔۔ اگر ہم محض اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں پاس کرکے سمجھتے ہیں کہ ان شہادتوں کا قرض چکا دیا ، تو یہ غلط ہے ۔ کاش کہ ہمارے حکمرانوں نے مطیع الرحمن وغیرہ کو بچانے کے لیے ایک سنجیدہ کوشش تو کی ہوتی ۔۔۔ بنگلہ دیش میں بحیثیت ملک کوئی ایسی خاص بات بھی نہیں ہے کہ اس سے سفارتی تعلقات قائم رکھنا ہماری مجبوری ہوں ۔۔۔ وہاں پاکستانی سفارتکار نہ ہو اور یہاں بنگلہ دیشی سفارتخانہ بھی بند کردیا جائے تو بھی ملکی سلامتی پر آنچ نہیں آئے گی ۔۔۔ ہماری حکومت بھی ہمت کرکے ترک صدر جیسا اقدام اٹھائے اور بنگلہ دیش سے کم از کم سفارتی بائیکاٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے تو یقین مانیں کہ اس کی حیثیت میں فرق نہیں آئے گا ۔ بیشک تجربہ کرکے دیکھ لے ۔
جماعت اسلامی کے روح رواں سراج الحق کے بقول انہوں نے وزیراعظم ، وزیر داخلہ ، حکومتی زعماء اور وزراء سمیت ایران ، سعودی عرب ، یمن ، جرمنی اور دیگر مسلم و غیرمسلم ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کر کے انہیں اس ظلم کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرنے کی درخواست کی ، لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی بلکہ پاکستان کے فریق بننے تک معاملے میں کردار ادا کرنے حوالے سے معذوری کا اظہار کیا گیا ۔۔۔ البتہ پاکستانی دفتر خارجہ کادبے الفاظ میں 1974ء کے سہہ فریقی معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ ضرور سامنے آیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان دبنگ موقف اختیار کرتا اور واضح طور پر مذکورہ صاحبان پر اپنے نام سے لگے ہوئے الزامات کی سختی سے تردید کرتا ۔ اس صورت میں ان پھانسیوں کی نوعیت مختلف ہوجاتی ۔ ممکن تھا کہ یوں کچھ عالمی ادارے بھی مدد کو آتے اور یہ 6 اہم زندگیاں بچ جاتیں ۔۔۔ اگر یہی حال رہا اور پاکستان و پاک فوج سے محبت اتنی مہنگی ثابت ہوتی رہی تو آئندہ کوئی پاکستان سے محبت کا جرم نہیں کرے گا اور بوقت ضرورت پاک فوج کا ساتھ دینے پر بھی کوئی آمادہ نہیں ہوگا ۔ اگرچہ پاکستان میں حالات مختلف ہیں اور پاکستانی قوم حکومت اور دیگر اداروں سے زیادہ پاک فوج پر اپنی ذات سے بھی بڑھ کر اعتماد کرتی ہے ، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پھانسیاں عالمی سازش ہوں اور پاکستانی عوام کااعتماد فوج سے ہٹانے کیلئے دی جارہی ہوں تاکہ پاک فوج کو مستقبل میں تنہا کیاجاسکے ۔ اگرچہ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن بہرحال توجہ طلب ہے ۔
’’پاکستان‘‘ کے نام پر بے جا پھانسیاں پانے والے مذکورہ بزرگوار اپنی اوسط عمر گزار چکے تھے ، اب وہ ’’بونس زندگی‘‘ گزار رہے تھے ، ایسی صورت میں انہیں شہادت کا رتبہ حاصل ہونا یقیناً ان کیلئے باعث سعادت اور حسینہ واجد کی شکست ہے ، لیکن اسے اس کا ادراک نہیں ۔۔۔ البتہ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان بزرگوار کی شہادت سے ان کے گھروں میں صفِ ماتم تو نہیں بچھی ہوگی لیکن ان کے پسماندگان کا دل ضرور خون کے آنسو روتا ہوگا کہ ان کے بزرگوں کا جرم وطن کو متحد رکھنا اور اسے ٹوٹنے سے بچانا تھا جس کی انہیں اتنی بھیانک سزا دی گئی ۔۔۔ ان کی آنکھیں پاکستان کی جانب اٹھتی ہوں گی تو انہیں مایوسی ہوتی ہوگی کہ جس کی محبت کے نام پر وہ قربان ہوئے ، انہوں نے اس پر ہمدردی اور افسوس کا ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔۔۔ اور پاکستان کے پاس سوائے ’’افسوس‘‘ کے ہے بھی کیا ؟ ۔ اس سے بڑھ کر کوئی ردعمل سامنے آنا شاید مفادات ، دوستی ، نام نہاد مذاکراتی عمل اور ’’ہم آہنگی‘‘ پر حرف آنے کے برابر ہے ، حالانکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ بھی اس بات کی تصدیق کرچکی ہے کہ بنگلہ دیشی جنگی جرائم کے ٹربیونل (عدالت ) کا طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ۔۔۔ پاکستان تو اس تناظر میں دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ساتھ ملاکر اپنا موقف مضبوط کرسکتا تھا ، جہاں لاکھوں بنگالی کام کررہے ہیں ، لیکن اس میں اتنی اخلاقی جرات بھی پیدا نہیں ہوسکی ۔
ایک دوست کالم نگار نے درست کہا کہ حسینہ واجد ’’خون آشام چڑیل‘‘ ہے ۔ ہم مانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں ہم سے غلطیاں ہوئی ، لیکن حسینہ واجد ہم سے بڑھ کر غلطیاں کررہی ہے ، اور اسے اس کا اندازہ ہی نہیں ہورہا ۔۔۔ آمرانہ خصلت رکھنے والی بنگلہ دیشی حکومت کا استعماری خواب اگر یونہی پورا ہوتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب نفرتوں اور خونریزی کا بویا جانے والا بیج تناور درخت بن جائے گا ، ممکن ہے کہ پھر حسینہ واجد خود بھی انتقام کی اسی آگ میں جل کر راکھ ہوجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر اس خونخوار قاتل حسینہ کی انتقامی کارروائیاں یونہی جاری رہیں تو بنگلہ دیش کی مٹی مستقبل میں وفا کو بھی ترسے گی ۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ وقت آنے سے پہلے پہلے حکومتِ بنگلہ دیش ہوش کے ناخن لے اور گذشتہ معاملات کو بھلا کر آگے کی جانب دیکھے تاکہ خیرسگالی اور ہم آہنگی کو تقویت مل سکے ۔۔۔ بنگلہ دیشی حکومت اچھے ہمسائیوں کی طرح دوستی ، بھائی چارے اور باہمی تعاون کے تعلقات کو فروغ دے اور قانونی ، عدالتی ، اخلاقی اور انسانی اقدار کی نفی اور انصاف کے خون سے گریز کرے ، کہ یہ خطے کے امن و امان کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
تقلیدِ تار تار میں انسانیت ہوئی تار تار
درندوں کی بھی حدِ ہوس ہوا کرتی ہے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

یہ بھی پڑھئے:  اماں حضور‘ ملتان اور ملتانی | حیدر جاوید سید

ادارتی نوٹ:
نورالہدیٰ نے یہاں جو موقف بیان کیا ہے اس سے ‘قلم کار ‘ کی ٹیم کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن ہم اسے صحت مند مکالمے کے فروغ کے لیے شایع کررہے ہیں – 70ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور نجی دہشت گرد گروہ ‘البدر و الشمس ‘ کی تشکیل کے بارے میں پاکستان کے صف اول کے ماہرین سیاست کا خیال یہ ہے کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی تهی ، اب تک اس زمانے کے بارے میں جتنی بهی غیرجانبدار کتابیں لکهی گئیں ان میں یہ بات تو طے ہے کہ اگر مکتی باہنی نے تشدد ، غیر بنگالیوں کو قتل کیا تو پاکستان آرمی ، الشمس و البدر جیسی تنظیموں نے بهی بنگالی شہریوں کا قتل کیا ، عورتوں سے زیادتی بهی ہوئی اس لیے کسی کے جرائم کو ‘پاکستان’ یا ‘بنگلہ دیش ‘ سے محبت کے نام پہ ٹهیک قرار نہیں دیا جاسکتا-جماعت اسلامی کے جو لوگ بنگلہ دیش میں مطیع الرحمان نظامی سمیت دیگر لوگوں کی پهانسی پہ جو احتجاج اور مذمت کررہے ہیں ان سے جماعت اسلامی کی سوچ سے اختلاف رکهنے والے دوسرے حلقے یہ سوال سوال اٹهارہے ہیں کہ پاکستان میں انہوں نے جنرل ضیاء کی جانب سے زوالفقار علی بهٹو ، رزاق جهرنا ، ادریس طوطی ، ایاز سموں سمیت سیاسی کارکنوں کو پهانسی دیے جانے پہ کیوں احتجاج نہیں کیا تها ؟ اسی طرح جماعت اسلامی انڈویشیا میں سہارتو ، چلی میں پنوشے ، سعودی عرب میں آل سعود کی جانب سے سیاسی مخالفوں کو جهوٹے مقدمات میں پهنساکر پهانسیاں دینے پہ خاموش کیوں رہی ؟ شیخ نمر باقر النمر کو سولی دئیے جانے پہ جماعت اسلامی نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کی کہ یہ سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے-جماعت اسلامی آمریت پہ تنقید کرتے ہوئے کچه اچهی نہیں لگتی جبکہ اس نے جنرل یحیی خان اور پهر جنرل ضیاء کی آمریتوں کی حمایت کی تهی؟ یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات جماعت اسلامی کے مخالف کیمپ سے اٹهائے جاتے ہیں ، تو اس پہ مکالمہ جاری رہنا چاہیے ، قلم کار اس کو آگے بڑهائےگا

حالیہ بلاگ پوسٹس