سال 2018ء کا عشرۂ محرم ملکِ عراق میں گذرا۔ نجفِ اشرف میں ایک مختصر کشمیری قافلہ نمازِ عشاء کے بعد روضۂ امام علی ع کے باہر آکر بیٹھا۔ مجھے دیکھ کر ایک بزرگ نے یاسین ملک جیسے لہجے میں سلام کے بعد پوچھا، بھارَتی ہو؟ میں نے جوابِ سلام کے ساتھ ہاتھ بڑھاتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی ہوں۔ یہ سُن کر اس کے چہرے پہ محبت کی ایک پرچھائیں لہرائی اور کانپتے لہجے میں میرا ہاتھ تھام اپنے باقی ساتھیوں کو کشمیری زبان میں میرا تعارف کروایا۔ پاکستان کا نام سُن کر بزرگوں کے چہرے کھِل گئے لیکن ان کے ساتھ تین جوانوں میں سے ایک کے چہرے پہ شدید ناگواری اتر آئی۔
کشمیری بزرگوں نے ایک ماہ قبل مقتدر ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا کہ یہ مشرف کی طرح ہمیں بیچ نہ دے۔ میں نے انہیں امید دلائی اور پوچھا کہ بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل 370 کا کیا فیصلہ کرے گی۔ یہ سُن کر وہ بچوں کی طرح خوش ہوئے اور ناراض جوان کو کشمیری زبان میں طنزیہ انداز سے کچھ کہا تو اس نے خاموشی سے شرمندہ انداز میں سر جھکا لیا۔ اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہو؟ وادی، لداخ یا جموں؟ اس پر اننت ناگ بتایا اور ناراض جوان کا پھر ٹھٹ اڑایا گیا۔ میں نے پوچھا اننت ناگ یعنی اسلام آباد، اس پر ناراض شخص پھر ہدفِ طنز و تشنیع بنا۔
ایک بزرگ نے بتایا کہ یہ کہتا تھا پہلے حکومتِ پاکستان نے ہمیں تنہا چھوڑا تھا اور اب پاکستانیوں کو بھی ہماری کوئی پرواہ نہیں رہی لیکن آپ عام آدمی ہو اور آپ نے ہماری کتنی خبر رکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے کچھ دیر راولپنڈی لاہور کو یاد کیا اور آرٹیکل 370 ختم ہونے کو زندگی موت کا مسئلہ قرار دیا۔ پھر ایک بزرگ نے نمناک آنکھوں سے کہا کہ اللہ، نبی ص اور مولا علی ع کے بعد ہمیں صرف آپ لوگوں سے امید ہے کہ زندگی ساتھ نہیں لکھی تو موت کے بعد کم سے کم پاکستان میں ضرور ہماری فاتحہ پڑھی جائے گی۔ آپ ہمارے کشمیر کی کربلا کے قبیلہ بنی اسد ہو۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ہاتھ ملا کر اجازت چاہی لیکن ناراض جوان آگے بڑھ کر "یا علی” کہتے ہوئے میرے گلے لگ گیا۔ الگ ہوئے تو ہم دونوں کی آنکھوں میں موتی تیر رہے تھے۔
کل پاکستانی قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھا تو یہ ملاقات یاد آ گئی۔ شکر کیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہے، کہیں وہ ناراض کشمیری جوان کاروائی دیکھ لیتا تو جان لیتا کہ ہم ان کے بارے میں "دراصل” کتنے باخبر اور فکرمند ہیں۔
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn