کسی بھی قوم کے ارتقاء میں ثقافت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کے قوم کی شکل اختیار نہ کرنے میں فی الحال ثقافت شکنی سے بڑی اور کوئی وجہ نہیں۔ یہاں مرکزیت کے نام پر غیر ملکی حملہ آور لٹیروں اور قابض فاتحین کو زمین زادوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ حالانکہ قومی وحدت کے پنجے کی افادیت پانچوں انگلیوں کی جداگانہ شناخت باقی رہنے میں ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں مقامی اکائیوں کو مرکزیت کے نام پر عربی، فارسی یا افغانی ایلفی سے جوڑنے کی ناکام کوشش عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے۔ پاکستانی علاقائی ثقافت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ پوری دنیا میں یہ واحد ہے کہ جس کی حوصلہ شکنی اور تباہی میں دائیں اور بائیں بازو کے جید ارباب نے برابر کا حصہ ڈالا۔ ساٹھ کی دہائی سے اصحاب یمین اسے خلاف مذہب تو اصحاب شمال دقیانوسیت قرار دیتے رہے۔ رہی سہی کسر اندرون و بیرون ملک اسٹیج کے نام پر ہیجان خیز طائفوں اور قاسم جلالی کے عربی اور افغانی حملہ آوروں پر بنے ٹی وی ڈراموں نے پوری کر دی۔ نتیجتاً ایک متردد نسل وجود میں آئی جو خوشحال خٹک، بلھے شاہ، وارث شاہ، شمس تبریز، سلطان باہو، عثمان مروندی کے افکار تو کیا ان کے وجود سے ہی نابلد ہے۔ کسی نے کلائیو کی انگلی اور کسی نے ابدالی کا دامن تھام رکھا ہے۔ کوئی حجازی کی قتال پرستی تو کوئی منٹو کی مدہوش اذیت پسندی کا مداح ہے۔ اب ایسے کثیر خصمی پامال ثقافتی ورثے کی کوکھ سے دہشت و شدت پسند اور پیشہ ور لبرل نہیں تو کیا محمد علی کلے جنم لے گا؟
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn