Qalamkar Website Header Image

بیگم کلثوم نواز کی نامزدگی – این اے 120 تاریخ کے جھروکے سے | مصلوب واسطی

تین سال بلا شرکت غیرے حکومت اور آئین میں ترامیم کے اختیار سے لطف اندوز ہونے کے بعد 2002ء میں جنرل مشرف نے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 95 سے ڈھلے این اے 120 میں بھی سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے میاں نواز شریف نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ روایت یہ رہی تھی کہ نواز شریف الیکشن کے بعد صوبہ سرحد کی نشست پر حلف اٹھاتے اور این اے 95 کی نشست چھوڑ دیتے تھے۔ 1997ء میں بھی میاں نوازشریف نے اس حلقے سے 50 ہزار ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر آنے والے پیپلزپارٹی کے حافظ غلام محی الدین نے نو ہزار چھ سو تئیس ووٹ حاصل کئے۔اس کے علاوہ پہلی بار انتخابات میں اترنے والے سابق کرکٹ کپتان عمران خان پانچ ہزار تین سو پینسٹھ ووٹ حاصل کر پائے تھے۔ اگلے چند سالوں میں ملکی سیاسی حالات یکسر بدل گئے اور طیارہ سازش کیس میں سزا پانے کے بعد فوجی حکومت سے معاہدےکے نتیجے میں نوازشریف دسمبر 2000ء میں سعودی عرب تشریف لے گئے۔ اس صورت حال میں ان کا انتخابات کے میدان میں اترنا بظاہر ممکن نظر نہ آتا تھا۔ اس لئے مسلم لیگ ن نے میاں صاحب کی "کورنگ کے ترکش میں بیگم کلثوم نواز اور پرویز ملک جیسے تیر رکھ چھوڑے۔ بیگم کلثوم نواز نے اس کے علاوہ این اے 118 سے بھی سابق گورنر پنجاب اور مسلم لیگ ق کے سربراہ میاں اظہر کے خلاف مسلم لیگ ن کے مرکزی امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب کاغذات کی منظوری کے باوجود میاں محمد نواز شریف ازخود انتخابات سے دستبردار ہو گئے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے بظاہر اس کی وجہ بے نظیر بھٹو سے اظہار یکجہتی بتائی گئی جن کے کاغذات نامزدگی برائے انتخابات 2002ء عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے باعث لاڑکانہ اور رتو ڈیرو سے مسترد کر دئے گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان مقدمات کے اصل موجد بھی میاں نوازشریف ہی تھے۔ سیف الرحمان کے بدنام زمانہ احتساب کمیشن کی جانب سے قائم کئے گئے مقدمات کو فوجی حکومت نے سیاسی فائدے کے لئے بخوبی اپنے حق میں استعمال کیا۔بہرحال اہم پہلو یہ ہے کہ تکنیکی اور قانونی بنیادوں پر میاں نواز کے کاغذات مسترد کرنا بہت مشکل کام تھا اس لئے ان پر سیاست سے دوری کے معاہدے کی پاسداری کے لئےضمانت دینے والے "کفیل” کے ذریعے دباؤ ڈالا گیا۔ نوازشریف کی دستبرداری کے بعد بیگم کلثوم نواز ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئیں کیونکہ 1999ء میں ن لیگی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں انہوں نے جو کردار ادا کیا لاہور کے سادہ لوح اور وفادار عوام اس معاملے میں ان سے بڑے پیمانے پر ہمدردی رکھتے تھے۔کسی بھی قسم کی جائیداد، مقدمہ یا بینک قرضے نہ ہونے کے باعث تکنیکی بنیادوں پر بیگم کلثوم صاحبہ کو میدان سے باہر کرنا میاں صاحب کو چِت کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام تھا۔ ایف سی کالج لاہور سے فارغ التحصیل بیگم کلثوم نواز اپنے ہم مکتب جنرل پرویز مشرف اور شاہی جماعت مسلم لیگ ق کے لئے سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیار کر گئی تھیں۔ اس موقع پر قانون کے جادو کی پیرزادگی چھڑی گھومی اور کاغذات کی جانچ پڑتال کے ذمےداروں نے بیگم صاحبہ کے دستخط مشکوک قرار دے دئے۔ تین سالہ آمریت کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے لئے کئی غیر ملکی مبصرین ملک میں موجود تھے۔ اس لئے شفافیت کے عنصر کو بظاہر برقرار رکھنے کے واسطے شرط لگائی گئی کہ بیگم صاحبہ ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنے دستخطوں کی تصدیق کریں۔ جلاوطنی کے باعث ارباب اختیار کی یہ "قانونی” شرط پوری ہونا ممکن نہ تھا۔ اس طرح بالآخر بیگم کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی کا استرداد ممکن ہوا اور پرویز ملک مسلم لیگ ن کے حتمی امیدوار بنے جنہوں نے تینتیس ہزار سات سو اکتالیس ووٹ حاصل کر کے چودہ ہزار ووٹوں کی سبقت سے یہ نشست محفوظ بنائی۔

یہ بھی پڑھئے:  فلیتہ

فوجی حکومت کے اس قدر قانونی اہتمام کے باوجود یورپی یونین کے مبصر مشن نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے پر ان الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا؛

"The EU EOM expresses its concerns about: The spurious legal grounds of disqualifying Shahbaz Sharif and Kulsoom Nawaz on the basis of procedural technicalities of questionable nature”.
(FINAL REPORT OF THE EUROPEAN UNION’S OBSERVATION MISSION TO PAKISTAN 10th OCTOBER 2002, NATIONAL AND PROVINCIAL ASSEMBLY ELECTION, Page 35)

"یورپی یونین کا مبصر مشن قابل اعتراض تکنیکی بنیادوں پر شہباز شریف اور کلثوم نواز کی نااہلی کی مشکوک قانونی حیثیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے”۔
(یورپی یونین کے مبصر مشن برائے پاکستانی انتخابات قومی و صوبائی اسمبلی 10 اکتوبر 2002 کی حتمی رپورٹ، صفحہ 35)

حالیہ بلاگ پوسٹس