Qalamkar Website Header Image

بیٹے کے نام خط – پانچویں سالگرہ | مصلوب واسطی

پیارے بیٹے، آج ماشااللہ تم پانچ سال کی عمر کو پہنچ گئے ہو۔ میں تمہارے لئے یہ خط لکھ رہا ہوں کہ جب چودہ سال کی عمر کو پہنچو تو پڑھو۔ امید ہے کہ بفضل خداوندی اس وقت تم چودہویں سالگرہ منا کر سمجھداری کے میدان عمل میں قدم رکھ چکے ہوں گے۔

پیارے بیٹے، تم میری پہلی اولاد ہو اور اس سے وابستہ احساسات بسا اوقات اک عجیب فرحت بخشتے ہیں۔  آج میں تمہارے دنیا میں آنے کے دن کی کچھ روداد اپنے جذبات کی ہلکی پھلکی پس پردہ موسیقی کےساتھ سناتا ہوں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ تمہاری آمد کی اطلاع سننے سے چند لمحے قبل تک بھی میں تمہارے نہیں بلکہ تمہاری ماں کے بارے میں زیادہ فکرمند تھا۔ ڈاکٹر نے جب آپریشن کےلئے رضامندی کے فارم پر دستخط کروائے تو شاید میرے لئے وہ اپنے نکاح نامے کے بعد  کئےمشکل ترین دستخط تھے۔ اس دوران تمہاری اماں خون کے نمونے دینے آپریشن تھیٹر سے ملحقہ کمرے میں چلی گئی جبکہ میں ڈاکٹر صاحبہ کی مالی اور طبی ہدایات پر عملدرآمد کے لئے پرائیویٹ ہسپتال کے بیرونی دفتری حصے کی طرف چلا آیا۔ تمام انتظامات کو حتمی شکل دے کر جب میں بلڈ بینک سے واپس ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچا تو تمہاری والدہ کو آپریشن تھیٹر لے جایا جا چکا تھا۔ اپنی افتاد طبع اور بیگم کی منہ زورمحبت کے ہاتھوں مجبور ہو کرجونئیر ڈاکٹر سے فرمائش کر ڈالی کہ آپریشن شروع ہونے سے قبل میں اپنی شریک حیات سے ملنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر معنی خیز انداز میں مسکرائی اورمختصرا  پوچھا، فرسٹ بے بی؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تومجھے تحمل کے ساتھ انتظار کرنے کا مشورہ یہ کہتے ہوئےدے ڈالا کہ جناب یہ محبت دوسرے تیسرے کے وقت بھی قائم رکھئے گا۔ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ میرے لئے انتظار کے وہ لمحات کس قدر مشکل تھے۔ یہ سب بتانے سے سبق دینا مقصود ہے کہ زندگی میں متعلقین سے محبت اور اس کا اظہار کسی خاکے میں بھرے جانے والے رنگوں جتنا ضروری ہے۔ اس لئے تھکن کا شکار ہوئے بِنا  کاروبارِ دنیا کے ہر خاکے میں کبھی رنگوں کو پھیکا نہ پڑنے دینا۔

یہ بھی پڑھئے:  پہلے خود کو سمجھائیے

یہاں ان سب حالات کے ذکر  کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ میں تمہیں دنیا کی سب اہم پشت پناہ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس تمام وقت میں مجھے سب سے زیادہ جس کمی کا احساس ہوا وہ میرے والد یعنی تمہارے دادا کی موجودگی تھی۔ زندگی میں کسی کٹھن وقت کو صبر اور اطمینان سے کیسے خوشگوار بنایا جا سکتا ہے، انہوں نے ہی سکھایا۔ سچ تو یہ ہے کہ کبھی مشکل کو سنجیدہ لیا ہی نہیں کہ وہ ہمیشہ پشت پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کی غیر حاضری کی وجہ یہ رہی کہ تمہاری پیدائش کراچی میں ہوئی جبکہ سارا خاندان لاہور میں رہائش پذیر تھا۔ اس تمام وقت میرے والدفون اور والدہ مصلے پر ٹکی رہیں۔ بہرحال خدا سے خیریت اور سلامتی کی دعائیں مانگتے ماہ شعبان کے آخری جمعے عین نماز جمعہ کے وقت ایک خوش اخلاق نرس نےتمہاری آمد کا نقارہ بجا کر تمہیں میری گود میں تھما دیا۔ پیارے بیٹے، مجھے ایسے لگا کہ میں زندگی کی بہت سی منزلیں "فاسٹ فارورڈ” کی طرح اچانک ایک زقند میں طے کر گیا۔ طبیعت میں چند لمحے قبل کی افتادگی کی جگہ اچانک متانت اور سنجیدگی نے لے لی۔ اس کے بعد تم نرسری میں لے جائے گئے اور میں تمہاری نیم بے ہوش ماں کے ساتھ ہسپتال کے ڈیلکس کمرے میں چلا آیا۔اسی دوران فون پر دوستوں اور رشتہ داروں کی جانب سے مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔مجھے اس خوشی کےوقت  مبارکباد کے فوری پپیغامات اور دعائیں دینے والے تمام احباب ہمیشہ یاد رہیں گے اس لئے تم بھی خوشی کے بروقت تہنیتی پیغام کی اہمیت ہمیشہ یاد رکھنا۔

یہ بھی پڑھئے:  عورت! شرق و غرب کے بیچ ٹمٹماتا تارا

اپنی زندگی کے اس خوبصورت احساس میں سب سے زیادہ شکر گذار تمہاری ماں کا رہوں گا جس نے سخت ترین تکلیف برداشت کر کے تمہیں جنم دیا۔ تمہیں بھی جب کبھی اس سے شکایت ہو، اپنے جسم پر آدھ انچ کا زخم لگا نا، پھر اس زخم کی اذیت کو سو گُنا اپنی ماں کے لئے محسوس کر لیا کرنا۔اسی لئے میں بھی اپنی ماں کا مشکور ہوں اور اپنی کوتاہ فہمیوں پر ہمیشہ اُن سے معافی کا طالب بھی۔ تمہاری پیدائش کی خوشی کا ذکر میری عزیز از جان بہن اور بھائی کے بغیر ادھورا رہے گا۔ کسی بھی انسان کی خوشی میں سب سے زیادہ خوش والدین ہوتے ہیں اور اس کا جشن بہن بھائی مناتے ہیں۔  اس لئے بیٹا، زندگی میں اپنی خوشیوں کے موقع پر کبھی اپنے بہن بھائی کو پسِ پشت نہ ڈالنا، ان کی پُرجوش شرکت کے بغیر ہر جشن نامکمل اور بے روح رہے گا۔

خدا سے دعا ہے کہ وہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے، دین و دنیا میں کامیابیاں عطا کرے اور ہمارے لئے عزت و افتخار کا باعث بنائے۔

والسلام

حالیہ بلاگ پوسٹس