خود فراموشی اور تماشبینی میں غرق ہماری یہ حالت ہے کہ 11 جولائی آپریشن سائلنس میں جام شہادت نوش کرنے والے ایس ایس جی کے 11 کمانڈوز کی دسویں برسی خاموشی سے گذر گئی۔ اس موقع پر سیاسی نمائندوں، صحافتی اداروں اور حکومت کی لاتعلقی سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ آج شہیدوں کے اصل وارث بھی خاموش رہے۔ اس قربانی کو بھول جانے کا نتیجہ ہے کہ ان کا قاتل آج بھی دارالحکومت میں اک شان بے نیازی سے ہمارے شیردل جوانوں کی جائے شہادت پر فتح مند بیٹھا ہے اور ہم ملک کے طول و عرض میں بکھرے لاشوں کے ٹکڑے سمیٹ رہے ہیں۔
اکثر سوچتا ہوں یہ گیارہ جوان کون تھے، ابھی تک میرے لئے ان کا تعارف بس ان کا جانباز کمانڈر ہی ہے، سینے پر گولیاں کھانے والا خطۂ لاہور کا جانثار لیفٹنٹ کرنل ہارون اسلام شہید۔ پیشرو ایسا ضیغم تھا تو اس گروہ میں ہر فرد غضنفر ہو گا۔ کیا کبھی میں انہیں جان پاؤں گا؟
آج ٹوٹے ہوئے دل سے میرا ارباب اختیار سے صرف ایک مطالبہ ہے، صرف ایک ۔ ۔ ۔ گھبرائیے مت ۔ ۔ کوئی بڑی بات نہیں حضور والا، کسی کو سزا نہ دیجئے، قاتل بھی گرفتار نہ کیجئے، شہیدوں کی قبور پر پھولوں کی چادر کی ضرورت بھی نہیں، مجاہدوں کے مقتل سے نظر آنے والی یادگار شہدا پر ان کا ذکر چاہے نہ ہو سکے کیونکہ
مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
لیکن خدارا ۔ ۔ ۔ آپ کو خدا کا واسطہ ہے ۔ ۔ ۔ صاحب خدا کے لئے ان شیروں کے نام تو بتا دیجئے ۔ ۔ ۔ میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا چاہتا ہوں
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn