کئی ماہ قبل پاکستان میں ڈی ٹی ایچ سروس کے لائسنس فروخت ہوئے جو بعد ازاں روک دیے گئے۔ اس سلسلے میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی تھی۔ ریسرچ اور ٹیسٹنگ کے بعد ایک روسی سیٹلائٹ اس مقصد کے لئے موزوں قرار پایا تھا لیکن ان دیکھے محرکات کے تحت تمام پیش رفت روک دی گئی۔
کچھ عرصہ قبل کوریا نے پاکستانی افق کے لئے بھی دستیاب Koreasat 5A لانچ کیا تھا لیکن Paksat 1R سے تیس فیصد سستا ہونے کے باوجود پاکستان میں اس کے خریدار نہ مل سکے۔ حیرت انگیز طور پر کسی پاکستانی چینل کی انتظامیہ Koreasat سے فائدہ اٹھانے کو تیار نہ ہوئی حالانکہ اس وقت مالی مشکلات کا شکار نیوز چینل اس طرح ڈھائی لاکھ سے لے کر دس لاکھ روپے ماہانہ تک بچا سکتے ہیں۔
تحقیق اور جستجو کرنے والوں کے لئے دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی ٹی وی چینل چین سے حاصل کردہ ملکی مصنوعی سیارے Paksat کے علاوہ چین کا ہی Chinasat اور چینی ہانک کانگ کے زیر انتظام Asiasat استعمال کر رہے ہیں۔ یاد رہے Paksat 1R ڈی ٹی ایچ سروس فراہم کرنے کے لئے موزوں تصور نہیں کیا جاتا۔پاکستانی کمیونیکیشن انڈسٹری سے وابستہ انجینئرنگ مینیجرز کہتے ہیں کہ مذکورہ سیٹلائٹس کے علاوہ کسی اور سروس استعمال کرنے کے خواہشمند عموماً سیکیورٹی کلیئرنس کے منتظر ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں براہ راست سیٹلائٹ سگنل اپ لنک کا عمل قریباً 17 اداروں کے اجازت ناموں سے مشروط ہے۔
اب اطلاع یہ ہے کہ پاکستان نے چین کی ایک اور "اُترن” یعنی خلا میں پہلے سے موجود ایم ایم ون نام کا سیٹلائٹ حاصل کیا ہے جو پاکستانی مدار میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ دلچسپ "اتفاق” یہ ہے کہ نیا سیٹلائٹ ڈی ٹی ایچ سروس فراہم کرنے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔ پیشگوئی نما امید کی جاتی ہے کہ ان دیکھے ہاتھ "اب” ڈی ٹی ایچ لائسنس کی نیلامی کو نئے مالی سال میں پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے جو اگلی حکومت کامیابی سے چلانے کے لئے زبردست اقتصادی بونس ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستانی خلائی پروگرام سے وابستہ طاقتور ہاتھوں کی بھی پانچوں گھی میں ہی نظر آ رہی ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn