بچپن میں بزرگوں سے ایک سبق سیکھا تھا۔ اپنا پریس کارڈ یا سروس کارڈ پولیس کے کسی "سپاہی” کو نہیں دکھانا۔ اس بیچارے کو علم ہی نہیں کہ یہ کیا ہے، اسے تو بس اپنی وردی کا زعم ہے۔ چالان کروا کے پیچھا چھڑاؤ، بات چیت جتنی لمبی کرو گے اتنا ہی عزت خراب کرے گا۔
ان دنوں سپاہیوں کے لئے شاید کم از کم میٹرک کی شرط نہیں تھی لہذا اکثر ٹھیک سے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ایک زمانے میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی شکایات کے سبب لاہور کے ایس پی ٹریفک کرنل ظہیرالحسن نے اپنے سفید پوش سپاہیوں کو "پہلے سلام پھر کلام” کا نعرہ دیا۔ اس وقت اکثر ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی، "السلام علیکم سر، پیلی بتی پہ رکا کیوں نہیں؟ گاڑی سائیڈ تے لا، باہر آ، تے سارجنٹ نوں مل”۔ اس سے آگے آپ بات چیت جتنی طویل کرتے، سپاہی بادشاہ کا چھلکا اتر اتر کر آپ کی عزت کے جنازے پر ڈھیر ہوتا جاتا۔
آج کل فیس بک پر بھی اکثر ایسے سپاہی ٹکرا جاتے ہیں جو ہمیشہ لوگوں کو بدتمیزی اور رعونت کی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ ان میں کچھ کی وجۂ شہرت ہی بدزبانی ہے جبکہ نئے نئے دانشور کہلانے کے شوقین خواتین و حضرات کرنل ظہیرالحسن کے جوانوں کی طرح "السلام علیکم سر” جیسا مطلع استعمال کرتےہیں۔ اہلیان کتاب چہرہ کو مفت مشورہ ہے کہ ایسی جگہ پر منطق اور استدلال کے عقلی کارڈ دکھانے کی بجائے جلدی جلدی "بجا فرمایا” کا چالان بھر کے "کٹ” لیجئے۔
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn