Qalamkar Website Header Image
ماریہ زیب اعوان – قلم کار کی مستقل لکھاری

سیاستدانوں کی کردار کشی ایک مذموم حرکت

بات چلی ہے حق پرستی اور اصول پرستی کی تو کچھ لوگ بضد ہیں کہ ہم گیٹ نمبر4 سے اٹھنے والے طوفانِ بدتمیزی کو اصولوں کا دیوتا تسلیم کر لیں۔ ویسے ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ اس ملک کا صدر کون بنتا ہے اور وزیراعظم کون کیونکہ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔ ہم نے یہاں معین صاحب، شوکت عزیز صاحب اور جونیجو صاحب کی حکمرانی بھی دیکھی ہے۔ معین صاحب بیروت میں بیٹھے ہوتے ہیں اور یہاں حکمرانی کا قرعہ فال ان کے نام نکل آتا ہے۔ جب معین صاحب پاکستان تشریف لاتے ہیں تو فرمائش کرتے ہیں کہ والد صاحب کی قبر پر دعا کرنی ہے۔ اب انتظامیہ عجیب مشکل میں پھنس جاتی ہے کہ  معین صاحب کے والد کی قبر کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا۔ مسئلہ شیخ رشید صاحب کے سامنے پیش ہوتا ہے اور شیخ صاحب کسی پرانی قبر پر معین صاحب کے والد کا کتبہ لگانے کا مشورہ دے کر اس قومی بحران سے ملک کو نکال لیتے ہیں۔

جونیجو صاحب خوش قسمت تھے۔ میں وثوق سے کہتی ہوں کہ جونیجو صاحب عمران خان اور نواز شریف سے کہیں زیادہ مضبوط وزیراعظم تھے اور اس کی وجہ ولی خان جیسی قدآور شخصیت کا ملکی سیاست کے میدان میں موجود ہونا تھا۔ کیونکہ ان کا سیاسی دباؤ ضیاء الحق پر اتنا شدید تھا کہ کبھی کبھی جونیجو صاحب ضیاء کے مقابلے میں علم بغاوت بھی بلند کر دیتے تھے۔ بات ہو رہی تھی حق اور اصولوں کی سیاست کی تو بھٹو صاحب طیش میں آ کر بلوچستان میں قوم پرستوں کی حکومت گرا دیتے ہیں، ولی خان اپوزیشن کو لیڈ کر رہے ہوتے ہیں اور پختونخوا میں مفتی محمود صاحب جمعیت علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں۔ ولی خان مفتی محمود سے رائے طلب کرتے ہیں، مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ولی خان کیا میں اتنا کم ظرف ہوں کہ اب بھی میں اقتدار میں رہوں اور فوراً وزارت اعلیٰ سے استعفی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  کیا کتاب دوستی پاگل پن ہے؟ - حیدر جاوید سید

مولانا محمد امیر المعروف بجلی گھر مولانا ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مفتی محمود صاحب کو میری آواز پسند تھی، مجھے کہا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس آ جاؤ اور مجھے نعت سناؤ اور کھانا ایک ساتھ کھائیں گے۔ میں خوش ہوا کہ وزیر اعلیٰ کا مہمان ہوں آج تو مزے ہیں۔ کھانے کا وقت آیا تو گھر سے ابلی ہوئی دال کی دو پلیٹیں آئیں، ابلی دال حلق میں پھنس رہی تھی مگر احترام کی وجہ سے کھانی پڑی، چند دن بعد پھر مجھے وزیر اعلیٰ صاحب نے کھانے پر بلایا تو میں نے کہا مفتی صاحب ابلی دال مجھ سے نہیں کھائی جاتی تو فرمایا واللہ! اس سے بڑھ کر میری استطاعت نہیں۔ یہ ہے مفتی محمود صاحب کا کردار اور دوسری طرف ہمارے کپتان صاحب کے والد صاحب کا کردار ہے جو کہ رشوت ستانی کے الزام میں نوکری سے نکالے جاتے ہیں۔

بات کرتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن کی ،جن کی ساری زندگی قرآن اور قالا قالا رسول اللہ کی خوشبوؤں سے معطر ہے۔ آپ مولانا کی سیاست اور طرز سیاست سے تو اختلاف کر سکتے ہیں مگر مولانا کے کردار کا مقابلہ کم از کم کپتان تو نہیں کر سکتا۔ یہ مولانا کی قائدانہ صلاحیت ہی ہے کہ مدرسہ کے طالب علم کو بندوق سے دور رکھا ہوا ہے اور ان کو پارلیمانی سیاست کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ کیا ملک کے وزیر اعظم کو زیب دیتا ہے کہ وہ الزامات اور بہتان تراشی کرے۔ کیوں نہیں بناتے کیس مولانا پر اگر مولانا نے واقعی کوئی غیرقانونی کام کیے ہیں۔ تو بناؤ نا کیس ان پر مگر یہ کیا غلاظت ہے کہ داڑھی اور پگڑی کا مذاق اڑایا جائے؟ ہم تو شیخ الہند، باچا خان اور جی ایم سید سکول آف تھاٹ والے ہیں۔ ہماری سیاست کی کتابوں میں اقتدار کی کوئی اہمیت ہی نہیں اور اکثر ہم جیسے باغی اہل قلم کو زیادہ تکالیف ان حکومتوں میں ملتی ہے جو کہ نظریاتی طور پر ہم سے قریب تر ہوتی ہیں مگر یہ جو روش چل پڑی ہے پاکستان میں کہ سیاستدانوں کی کردار کشی کی جائے یہ اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور اس خطرناک روش کیخلاف ہر صاحب قلم کو جہاد کرنا ہو گا۔

Views All Time
Views All Time
1278
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

Dr Rehmat Aziz Khan Profile Picture - Qalamakr

یونیسکو سے امریکہ کی علیحدگی

تحریر: ڈاکٹر  رحمت عزیز خان  چترالی امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے علیحدگی کا اعلان عالمی سطح پر حیرت اور

مزید پڑھیں »
ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »