Qalamkar Website Header Image

بے یار و مددگار بلو چستان

ہم تو دنیا کی محبت اور رعنائیوں کو دنیا تک پہنچانے والے لوگ ہیں ۔میری کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم پولیٹکل ایشوز پر اور کرنٹ افئیرز  پر بات کروں۔ مگر کبھی کبھی حالات  گھمبیر اور مسائل اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ان مسائل پر لکھنے یا بات کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا ۔اور یقینا ََیہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملک کے اداروں پر تنقید کریں اور مشکل حالات میں ان کے خلاف بیان دیں یا قلم کے ذریعے آواز اٹھائیں۔ لیکن بعض اوقات آپ مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کے اقدامات کے خلاف موثر آواز بنیں۔

کورونا جیسی وبا کی وجہ سے جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں اس وبا کا پھیلاؤ ابتدا میں بلوچستان سے شروع ہوتا ہے۔تفتان بارڈر سے ایران سے داخل ہونے والے شیعہ زائرین جب پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو صوبائی اور وفاقی حکومت کی طرف سے جس طرح ان کے معاملے میں غفلت برتی جاتی ہے وہ یقیناََ ایک گھناؤنا کردار ہے۔ نہ صرف بلوچستان میں بلکہ سعودی عرب، خلیجی ریاستوں سمیت یورپ سے آنے والے مسافروں کی مکمل سکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ بھی وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنے۔   لیکن یہ بات تو کلئیر ہوتی ہے کہ کورونا کی پاکستان میں معلوم آمد بلوچستان کے راستے ہوئی۔ بلوچستان پاکستان کا وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اور یہ وسائل کس کے قبضے میں ہیں یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔

 رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ  جوسمندر، تیل، معدنیات اور گیس سے مالا مال ہے، میں یہ آفت آتی ہے پھر اس آفت میں باقی صوبوں اور وفاق کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟

 جس طرح بلوچستان میں اس مسئلے سے نبٹنے کے معاملے میں کوتاہی برتی گئی یہ یقینا ََقابل شرم بات ہے اور اس کا ازالہ کرنے کے بجائے وفاق اور صوبائی حکومتیں پتہ نہیں کن گھٹیا ہتھکنڈوں پر ُاتر آئی  ہیں۔ پیرا میڈک اسٹاف ،سپورٹنگ اسٹاف  جوکہ اسپتالوں کے ساتھ منسلک ہیں، ایمبولینس کے ڈرائیور، خاکروب ،نرسنگ اسٹاف ان سب کے ساتھ مشکل حالات میں ہمارے رویے دیکھنے کے لائق ہیں۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اسٹرائیک کر رہے ہیں اور ُپر امن احتجاج کر رہے ہیں۔  جس میں  ان کا  حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ انہیں کرونا سے لڑنے کے لیے حفاظتی کٹ اورضروری اسباب فراہم کرے۔ اب عجیب سی صورتحال یہ بنتی ہےیہاں جو ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں ،وہ پیرا میڈک اسٹاف اسپتال کا عملہ جو کرونا کے خلاف جہاد عظیم لڑ رہا ہے ان کے پاس ماسک تک دستیاب نہیں۔ ان حالات میں صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ انہیں کورونا کے خلاف لڑنے کے لیے تمام ضروری سامان مہیا کرتی ۔ لیکن بجائے انہیں بنیادی ضروری اشیاء فراہم کی جاتیں، ان کے مانگنے پر ان پر لشکر کشی ہو گئی۔ پولیس ان پر تشدد کرتی ہے اور گرفتار کر لیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم پاکستان کی بجائے بنانا ری پبلک کے شہری ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  نجف کا کشمیری قافلہ

جام صاحب کے اختیارات کا تو سب کو پتہ ہے۔گلہ تو خود کو قائد انقلاب سمجھنے والے اختر مینگل  صاحب سے ہے جو صوبائی حکومت کا حصہ ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے یہ ظلم ہوا اور وہ مکمل خاموش رہے۔ ہمیں تو گلہ ہے اصغر خان اچکزئی سے اور عوامی نیشنل پارٹی سے جو ہمیشہ اصولوں کی سیاست کرتی ہے، وہ پارٹی جو ایک مضبوط سیاسی تاریخ رکھتی ہے اس معاملے پر ان کی اور اصغر خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کی خاموشی مجرمانہ ہے۔

اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو ایک بیان دے کر اپنے آپ کو بری ذمہ قرار دیتے ہیں۔ نہیں بلاول صاحب آپ کی ذمے داری یہ نہیں کہ آپ کی ایک بیان دے کر خاموش ہو جائیں۔آپ کو اس معاملے کو اٹھانا ہوگااور معاملے کو  سیریس لینا ہو گا۔ آپ کو اس معاملے پر  سینٹ اور قومی اسمبلی میں قراداد لانی چاہیے اور اس معاملے کی ان کوائری کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کب تک بلوچستان پر ان نادیدہ قوتوں کا قبضہ رہےگا ؟کب بلوچستان میں عوامی گورنمنٹ آئے گی ؟ کب بلوچستان کے لوگ اپنے آپ کو بااختیار محسوس کریں گے؟  یہ جو نادیدہ قوتیں ہیں ان کو بھی میں انتباہ کرنا چاہتی ہوں کہ خدا کے لیے آپ لوگ بس کر دیں آپ بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ آپ عوامی مفادات کے بچائے اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہوں اور یہ عمل خطرناک ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  کورونا، عوام کو حقیقت حال بتانے کی ضرورت ہے

میں آخر میں تمام میڈیکل اور نان میڈیکل سٹاف جو کورونا کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہے کو بتانا چاہتی ہوں کہ پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔پوری قوم آپ کی ہم آواز ہے۔ اور گورنمنٹ  کو انتباہ ہے کہ تشدد کا عمل روک کر ڈاکٹرز کو تمام ضروری اشیاء مہیا کی جائیں۔  اگر حکومتی ہٹ دھرمی جاری رہی تو ایسا نہ ہوکہ پورے پاکستان میں  احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے۔

میری نظر سے سوشل میڈیا پر پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پتشین کے قریبی ساتھی ادریس پشتین کے ایک بیان پر پڑی جس میں وہ اپنے گروپ کے ڈاکٹرز کو رہا کرنا کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ انتہائی افسوس ہوا اس ذہنیت پر جو مجموعی طور پر ڈاکٹرز کے بارے میں بات کرنے کی بجائے فقط اپنے ہم خیال ڈاکٹرز کو فوکس کر رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی رویے ہیں جو معاشرے میں تشدد کو پھیلا رہے ہیں یہ وہ روئیے ہیں جو ہمارا چہرہ سامنے لا رہے ہیں ۔میرے خیال میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو اس بات کی وضاحت دینی چاہیے  کہ انسانی  المیہ کے دوران ایسے بچگانہ بیان کی کیا ضرورت پڑھ گئی؟ آپ کا بیان تو یہ ہونا چاہیے  کہ تما م پیرا میڈک اسٹاف کو چھوڑ دیا جائے ، سب کے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے اور ڈاکٹرز کو بنیادی چیزیں فراہم کی جائیں،  فوری طور پر ڈاکٹرز کو رہا کیا جائے، ان سے معافی مانگی جائے اور اس کرونا کے مسئلے کو سنجیدہ لیا جائے اس پر سیاست نہ کی جائے۔ باقی ملک میں عوام اور بلوچستان میں بھیڑ بکریاں نہیں بستیں۔ صوبائی تعصب ختم کر کے وسائل کی چھینا جھپٹی سے نکلنا ہوگا اور ڈاکٹرز اور میڈیکل کی فیلڈ میں کام کرنے والے تمام افراد کو مناسب کٹس باقی صوبوں کی طرح مہیا  کی جانی چاہییں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس