Qalamkar Website Header Image
ماریہ زیب اعوان – قلم کار کی مستقل لکھاری

ریاست ہوگی ماں جیسی

پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کے لیے ہر محاذ پر نت نئے مسائل ابھر رہے تھے۔ وادی کشمیر جوکہ پاکستان کے ریاستی مفاد کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں پر حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے تھے۔ جناح صاحب جیسے زیرک سیاستدان کو حالات کی سنگینی کا اندازہ تھا ۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جناح صاحب افواج پاکستان کو کشمیر میں کارروائی کا حکم صادر کر دیتے ہیں۔لیکن افواج پاکستان کے کمانڈر ان چیف جنرل سر فرینک والٹر میسروی صاحب جنگ لڑنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔اور ایک عجیب سی غیر یقینی صورتحال بن جاتی ہے۔ان حالات میں وزیرستان کے قبائل بغیر کسی ذاتی مفاد اور لالچ کے دفاع وطن کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور اپنے خون سے ایک تاریخ رقم کرتے ہیں اور وہ پاکستان کو آزاد کشمیر بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔

آج انہی قبائل کے نوجوان، خواتین اور  بوڑھے ایک نوجوان منظور احمد پشتین کی قیادت میں ریاست ماں سے اپنے حصے کی محبت اور شفقت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جنوری کے اس یخ بستہ ماحول میں بنوں گل کے تاریخی شہر میں لاکھوں لوگوں کا اجتماع اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ” اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے” اور اس کا ازالہ نا گزیر ہے ورنہ مایوسی ہمیشہ بغاوت کو جنم دیتی ہے۔

ریاست اور ریاستی اداروں کا کام اپنی عوام سے مقابلہ نہیں بلکہ اپنی عوام کے حقوق کے تحفظ کی غیر مشروط یقین دہانی ہوتا ہے۔ریاست ہو گی ماں جیسی جس کی نظر میں سب بچے برابر ہوں گے اور ریاست ہر بچے کو یہ یقین دلائے گی کہ اس کی نظر میں سب برابر ہیں۔ریاست شہریوں کے درمیان محبتیں بڑھاتی ہے۔فاصلے کم کرتی ہے اور سب کو تحفظ دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  آزادی صحافت کا دن اور پاکستان میں صحافت

ریاستی شہریوں کی بھی یہ ذمے داری ہوتی ہے۔کہ وہ باہمی عزت اور احساس کا رشتہ یقینی بنائے۔یہ حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون زیادہ محب وطن ہے اور کون کم۔لاہور اور اسلام آباد کے لوگوں کو یہ لائسنس کبھی نہیں دیا جاسکتا کہ وہ لوگوں کے لیے حب الوطنی کے پیمانے بنائے۔یہ غدار غدار اور کافر کافر کاکھیل اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے جارہا ہے۔ کیوں نہ لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کی بات سن لی جائے ،کیوں نہ طاقت کی بجائے دلیل کو مضبوط کیا جائے۔ اگر ملک کے کسی حصے میں بہت سارے لوگ سڑکوں پر ہیں تو کیو ں نہ ان کی بات سن لی جائے۔

ریاست کیوں خائف ہے اگر ریاست نے کچھ غلط نہیں کیا؟؟ پختون تحفظ موومنٹ ہر لمحہ یہی بات کر رہی ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں ۔کیا ریاست پاکستان کے آئین کے مطابق اپنے جائز انسانی حقوق کا مطالبہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ ہم ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیں؟کیا کوئی ایسا طریقہ کار نہیں ہوسکتا کہ مسنگ پرسن کا معاملہ احسن طریقے سے حل ہو؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ جو بے گناہ ہے یا ان کو کسی غلط فہمی میں نظر بند کر دیا گیا ہوان کو رہا کر دیا جائے؟ کیا یہ ممکن نہیں لینڈ مائنز کو صاف کیا جائے،اگر وسائل یا ٹیکنالوجی کا کوئی مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ اور عالمی دنیا سے مدد حاصل کی جائے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ  آئی ڈی پیز کی باعزت آباد کاری کی جائے اگر وسائل کی کمی ہے تو قوم سے مدد مانگ لی جائے؟ کیا حق نہیں بنتا کہ جن لوگوں نے وطن اور قوم کی خاطر دہشت گردی کے خلاف لازوال قربانیاں دی ہیں ان کی اجتماعی مدد کی جائے؟۔

یہ بھی پڑھئے:  اللہ کے مومن بندے

کیا اس مملکت میں ایک سچ اور مفاہمتی کمیشن نہیں بنایا جاسکتا جو کہ حقائق تک پہنچ کر ایک پائیدار امن کی بنیاد رکھے؟ کیا یہ اتنی ناممکن بات ہےکہ اسفند یار ولی خان،محمودخان اچکزئی،حضرت مولانا فضل الرحمان،منظور احمد پشتین اور حکومت اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک بامقصد قومی جرگہ ہو جوکہ پشتون قوم کو مطمئن کر سکے۔ کیا یہ سب نا ممکن ہے؟

یہ سب چیزیں ممکن ہے ۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ حالت جنگ میں غیر ارادی طور پر کچھ غلطیاں ہوئی ہوں اور شاید وہ غلطیاں ریاستی پالیسی نہ ہو،مگر ان سے قبائلی عوام کے جذبات مجروع ہوئے ہوں۔ تو کیوں نہ آگے بڑھ کر بڑے دل کیساتھ معافی تلافی کریں ۔اور ریاست مفاہمتی عمل میں پہل کرے کیونکہ ریاست ہوگی ماں جیسی،۔

پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشین سے بھی بصد احترام عرض ہےکہ کچھ باتوں کا آپ کو سنجیدگی سے نوٹس لینا ہو گا۔جو لوگ پختون قوم کو تشدد کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں ان سے مکمل لاتعلقی ظاہر کرنا ہو گی۔ بابا ئے امن باچا خان کے عدم تشدد کے نظریہ کو مضبوطی سے پکڑنا ہو گا،کچھ حد تک یہ ذمے داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریک کے نوجوانوں کے اشتعال پر سخت نظر رکھیں۔ ریاستی مفادات ،خطے کی غیر یقینی صورتحال اور افغانستان میں پاکستان کے ریاستی مفادات یہ باتیں بھی انتہائی حساس اور اہم ہیں۔ افغانستان کی سیاست میں پاکستان کے خلاف بڑھتی ہو ئی نفرت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے اور چونکہ منظور پشتین ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف ایک قابل قبول شخصیت ہے۔ تو اپنے سیاسی اثر روسوخ کو دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لیے استعمال کریں۔

یہ بھی پڑھئے:  منظور پشتین، عوامی شکایات اور ریاست کی ذمہ داری

پی ٹی ایم کے سپوٹر اور حمایت یافتہ لوگ پوری دنیا میں موجود ہیں۔منظور پشتین کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ بیرونی دنیا میں پاکستان مخالف لوگ اس تحریک کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ کر سکیں۔لیڈر وہ نہیں ہوتا جو قوم کو مسائل میں دھکیلے بلکہ قوم کو مسائل سے نکالے۔ لیڈر سیلاب کے سامنے بند باندھتا ہے تاکہ قوم کو تباہی سے بچایا جا سکے۔
امن زندہ باد

Views All Time
Views All Time
1479
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »