Qalamkar Website Header Image

کوئٹہ کا انسانی المیہ | میثم اینگوتی

کوئٹہ شہر پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کا دارالحکومت ہے ۔ کوئٹہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 1700 میٹر سے 1900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طور پر خشک پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔کوئٹہ میں بلوچ پشتوں اور ہزارہ قبائل آبادہیں۔
بلوچستان جہاں عرصہ دراز سےانتشار اور تفرقے کی آگ لگی ہوئی ہے۔اس آگ کو سلگانے میں جہاں ناداں اور خیانت کار حکمرانوں کا ہاتھ ہے وہاں مغرور اور خود سر بلوچ سرداروں کا ہاتھ بھی ہے۔ قیام پاکستان کے فورا بعد بلوچ عوام پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیااور ان کے اندر احساس محرومی کو پیدا کیا گیا۔چاہے وہ قبائلی سرداوں اور وفاقی بیوروکریسی کے درمیاں مک مکاؤ کا دور ہو یا بلوچ سرداروں اور وفاقی اداروں کے درمیاں اختیارات اور اقتدار کی جنگ کا۔ ہر حال میں بلوچ عوام محرومی اور مفلسی کی تصویر بنے رہے۔اقتدار اور طاقت کی ڈور سے دور بلوچ عوام ہمیشہ عسرت اور غربت میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی بلوچ عوام کی اکثریت معدنی وسائل اور دولت سے مالا مال صوبے کی آبادی ہونے کے باوجود غربت اور جہالت کی زندگی گزارتی ہے۔
بلوچ عوام کی غربت و افلاس اور احساس محرومی کا فائدہ بیرونی ممالک نے اٹھایا، خاص کر جب ایک ڈکٹیٹر نے عالمی طاقتوں کی باہمی جنگ میں سادہ لوح مسلمانوں کو ایندھن بنایا۔ اس وقت بلوچوں میں مذہبی عصبیت اور بنیاد پرستی کا بیج بویا گیا۔اور طرح طرح کی دہشت گرد تنظیموں نے کوئٹہ شہر کو اپنا مرکز بنا لیا۔یہی وہ ددور تھا جب عالمی طاقتوں نے بھی بلوچستان پر نظریں گاڑ دیں اور بلوچ عسکریت پسندوں کو نہ صرف سیاسی پناہ دی بلکہ ذمہ دار ذرائع کے مطابق انھیں مالی امداد اور تربیت بھی فراہم کی گئی۔عالمی استعمار نے دنیا کی واحدمسلم ایٹمی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے اپنا کارڈ بڑے شاطرانہ طریقے سے کھیلا۔ بلوچستان میں لگی ہوئی آگ کو مزید ہوا دینے کے لئےخلیجی ممالک سےامداد دلوا کر فرقہ وارانہ تشدد کو بھی فروغ دیاگیا۔بس کیا تھا کوئٹہ کو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر قتل گاہ بنادیاگیا۔جیسا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی منظم نسل کشی کے المناک سانحات کے بعد معتبر سیاسی اور مذہبی شخصیت مولانا شیرانی نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ شیعہ ہزارہ قبائل کے قتل میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب ملوث ہے۔
افسوس صد افسوس ہماری قومی حمیت اور غیرت ختم ہو چکی ہے۔ہم آئی،ایم ، ایف کے قرضوں ، امریکی ڈالر اور خلیجی مملک سے ریال لے کر ڈکار لیتے ہیں۔ہم میں خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا پیارا وطن اپنی خودمختاری کی دہائی دیتا نظر آتا ہے۔
کوئٹہ جو ایک زمانے میں امن و آشتی کا شہر تھا اور لوگ باہمی محبت و اخوت سے رہتے تھے۔لسانیت اور فرقہ واریت کا کوئی وجود نہ تھا۔لیکن جب اسے عالمی طاقتوں کی نظر لگ گئی تو قبرستاں کا سماں پیش کرنے لگا۔کوئٹہ کی تہذیب و ثقافت ، علم و ادب اور فنون لطیفہ اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں ہزارہ قبائل کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ہزارہ برادری اپنا تعلق وسطی افغانستان کے ہزارہ جات سے بتاتی ہے۔لیکن سیاسی عدم استحکام اور منظم نسل کشی کی وجہ سےاب پوری دنیا میں موجود ہیں۔پاکستان میں ہزارہ افراد کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔اور وہ کوئٹہ میں انیسویں صدی سے آباد ہیں۔ انھوں نے زندگی کے تمام میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔۶۵ء کی جنگ کا فاتح ہیروجنرل موسی اور دیگر نامور چمپینزاور سپوت اس دھرتی کو ہزارہ کی ماؤں نے دیئے۔جب کوئٹہ کو عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے وقتی مصالحت کی بنیاد پر دہشت گردوں اور درندوں کے حوالے کیا تو ان کا سب سے پہلا اور آسان شکار ہزارہ قبیلے کے شیعہ عوام تھے۔ بیرونی آقاؤں کے اشارے پر انہیں اپنے وطن اور شہر سے نکال باہر کرنے کے لئے باقاعدہ نسل کشی کا آغاز کیا گیا۔جس کی طرف بی بی سی کی ایک رپورٹ یوں اشارہ کرتی ہے۔ ” کوئٹہ میں رہائش پذیر شیعہ ہزارہ اپنے عقیدے اور نسل دونوں کی بنیاد پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں اور ہزارہ تنظیموں کے مطابق جہاں تقریبا ایک سال میں ایک ہزار سے زائد ہزارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں وہیں دو لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے”
ہزارہ شیعہ وکلاء ، ڈاکٹرز، بینکرز، سول و ملٹری آفیسرز ،تاجر، سٹوڈنٹس ، کھلاڑی، مزدور، جوان ،بچے اور مرد و عورت سب کو ایک ایک کر کے نشانہ بنایا گیا۔ کہیں مستونگ میں زائرین کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈز چیک کر کے مارا گیاتو کہیں ہزارہ کی آبادیوں پر مہلک حملے ہوئے ۔ہزاروں افراد مجروح ہوئے اور ہزاروں معذوری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ہزاروں عورتیں بیوہ ہوئیں اور لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔سانحہ کیرانی روڈ ، سانحہ ہزارہ ٹاؤن، سانحہ علی آباد ہزارہ شیعوں کی نسل کشی کا بین ثبوت ہے۔ آج کوئٹہ کے ہزارہ علاقے ویران او قبرستان آباد نظر آتے ہیں۔ ان قبروں کی الگ الگ کہانیاں ہیں۔کتبوں میں شہداء کے نام کے ساتھ تاریخ ولادت و شہادت اور مقام شہادت لکھی ہوئی ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو ہزارہ قبرستان جا کر دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن یہ ستم اپنی جگہ ہے کہ ہزارہ شیعوں کے قاتلوں کو مکمل حکومتی ، سیاسی اور انتظامی شخصیات نے پناہ دی ہوئی ہے۔ پھر کیا تھا ؟ کوئٹہ کے در ودیوار ان کے خون سے رنگین ہوتے گئے اور شہر، بازار اور گلیاں ویران ہوتی گئیں۔ آئے روز کے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ نے انھیں اس قدر مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی کے تحفظ کی خاطر دھرتی ماں کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کاروبار چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوئے۔ اور جو زندگی کے چراغ کو جلائے رکھنے کے لئے سات سمندر پار جانا چاہتے تھے اور بے نشاں سمندروں نے جن کی زندگی کا دیا بجھا دیا ان کی کہانی بھی بہت پر دردناک ہے۔ شاید کوئٹہ شہرتو مسکرانا بھی بھول گیا ہوگا۔سینکڑوں لاشیں اٹھا کر ابھی ان کا چہلم بھی منا نہیں پاتے کہ دوسرا دھماکہ ہوجاتا ہے۔ جناب صدر ،وزیر اعظم اوروزراءکی طرف سے روایتی مذمتی بیانات اور قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دینے کی یقیں دہانی اور قصہ ختم ۔ میڈیا پر دانشوران قوم نام نہاد مذہبی، سیاسی،سماجی اور انسانی حقوق کے نمائندے بھی اپنے اپنے بیانات ریکارڈ کرا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ دہشت ،بربریت اور وحشت کے کارندے چند دن آرام کرنے کے بعد اپنی خون آشام تلواریں بے نیام ہاتھوں میں لئے کوئٹہ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انسانیت کا خون پھر سے ارزاں ہوجاتا ہے۔ اور یہ شیطانی کارندے دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ کہاں ہے ریاستی ادارے، سیکورٹی ایجنسیز ، انسانی حقوق کے علمبردار این جی اوز۔۔۔؟ لیکن یاد رکھنا ہوگا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے.ظلم پھر ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے۔ کفر کی حکومت باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس