معراج محمد خان گزرگئے اور پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کا ایک اور رومانوی عہد تمام ہوگیا۔اور یہ مجھ جیسے اس ملک کے ہزاروں لوگوں کے لیے بہت ہی صدمے اور دکھ کی گھڑی ہے۔کیونکہ قریب قریب دو نسلوں کے نوجوان سیاسی کارکنوں اور طالب علموں کے لیے معراج محمد خان سورس آف انساپرئشن بنے رہے تھے۔اور جو بھی ان سے جڑا وہ ایک بہترین طالب علم سیاسی کارکن کے روپ میں ظاہر ہوا۔
میں جب کالج میں پہنچا تو قومی محاذ آزادی آخری سانس لے رہا تھا اور یہی حالت این ایس ایف کی بھی تھی۔لیکن اس زمانے میں پروگریسو کرنٹ رکھنے والے ہر نوجوان کا پہلا انتخاب این ایس ایف ہوا کرتی تھی اور میرے اردگرد تو قومی محاذ آزادی کے بہت سے کارکن تھے اور این ایس ایف کے کئی انتہائی سرکردہ لوگ بھی موجود تھے ۔منیرکامریڈ تھے۔میرے ایک عزیزجن کے بیٹے سے بعد میں میری بہن کی شادی ہوئی اور ایسے ان سے میری قربت اور بڑھ گئی تھی یونس کامریڈ تھےالفتح فوٹو لیب والے، جنہوں نے یہ نام الفتح معروف ترقی پسند رسالے کے نام پہ رکھا تھا بائیں بازو کے بہت پرانے ساتھیوں میں سے تھے ۔وہ نیشنل عوامی پارٹی سے وابستہ رہے تھے اور پھر جب قومی محاذ آزادی بن تو اس سے منسلک ہوگئے ۔کہتے تھے کہ انقلاب تو بندوق کی نالی سے نکلتا ہے ۔یونس کامریڈ کے کزن خورشید ایڈوکیٹ جوکہ اب حیدرآباد میں ہوتے ہیں وہ بھی حلقہ بگوش معراج محمد خان تھے۔ اسی طرح سے چوہدری ظفر اقبال، شیخ یوسف جو اب پی پی اے کے جنرل سیکرٹری ہیں، شکیل پٹھان، ان کی اہلیہ نسرین، حبیب اللہ شاکر، قمر زمان بٹ،اعجاز مڈو،میرے دوسرے بہنوئی کامریڈ حنیف کے بیٹے اقبال، اور ان سے جونئیر کامریڈ فہیم عامر، طارق شہزاد،مقصود گوندل،لاہور سے روزی خان، احمد علی بٹ، پرویز صالح، کراچی سے اقبال حیدر،سید امیر حیدر کاظمی مرحوم غرض کہ ان گنت نام ہیں جن سے میرے رابطے اور تعلق سب معراج محمد خان کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے اور سچی بات ہے کہ طلباء سیاست میں مجھ سمیت ہر طالب علم کا خواب شہرت کے اس آسمان کو چھونا ہوتا تھا جس کو معراج محمد خان نے چھویا تھا ۔معراج محمد خان کی شعلہ بیانی سے لیکر فتح یاب علی خان کی مسحور کردینے والی تقریریں ہمیں ہروقت سرگرم رہنے میں مدد دیا کرتی تھیں ۔قومی محاذ آزادی ایک چھوٹی سی پارٹی تھی مگر جہاں جہاں اس کا کارکن موجود تھا اس نے بحالی جمہوریت کے لیے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کردی اور پی پی پی کے بعد ایم آرڈی میں یہ سب سے زیادہ متحرک پارٹی تھی ۔کامریڈ حسن رضابخاری اور نذر عباس بلوچ جیسے ہیرے بھی ہمارے دوست اسی کے ذریعے سے بنے تھے ۔
این ایس ایف اور قومی محاذ آزادی نے پاکستان کی ترقی پسند،سامیراج دشمن اور سرمایہ دارانہ و جاگیرداری مخالف اور مذہبی جنونیت کے خلاف استوار ہونے والی سیاست کے ذریعے سے ہزاروں نوجوانوں کی تربیت کی اور پاکستان کے اندر پولیٹکل اسلام ازم کے آگے بند باندھنے کی کوشش بھی کی ۔اور آج بھی پاکستان میں مذہبی جنونیت کے آگے بند باندھنے والوں میں خوشہ چیں معراج محمد خان کا بڑا ہاتھ ہے ۔
معراج محمد خان کی شخصیت کا یہ خاصہ تھا کہ وہ ایج ازم کے سخت مخالف تھے اور نوجوانوں میں ٹیلنٹ اور صلاحیت دیکھ کر ان کو بڑی سے بڑی ذمہ داری سونپنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے سے گریزاں نہیں ہوتے تھے ۔اور ان کی اس عادت کے سبب بہت سے ایسے نوجوان افق سیاست پہ ستارے بن کر چمکے جو کہ اشراف سیاسی پس منظر نہ رکھتے تھے ۔حبیب اللہ شاکر ایڈوکیٹ، چوہدری ظفر اقبال ایڈوکیٹ اس کی بڑی مثال ہیں یہ دونوں این ایس ایف جیسی بڑی طلباء تنظیم کے مرکزی صدر تک بنے ۔جب مشرف دور میں بائیں بازو کی کئی ایک تنظیموں نے مل کر ایک اتحاد عوامی تحریک کے نام سے بنایا تو پنجاب کی کنونیئر شپ کے لیے میرا نام لیبر پارٹی، پاکستان مزدور محاذ، کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کی جانب سے سامنے آیا لیکن عابد حسین منٹو کو میرے نام پہ اس لیے اعتراض تھا کہ میں کم عمر ہوں اور ابھی میری لک لیڈر شپ والی ہے نہیں ۔رسول بخش پلیجو نےبھی اس پہ تحفظ ظاہر کیا تھا ۔لیکن یہ کامریڈ فاروق طارق تھے جنہوں نے کہا کہ عامر اگر لیڈر لگتا نہیں تو ہم بنادیں گے اور معراج محمد خان صاحب نے بھی اس معاملے میں میرا حوصلہ خوب بڑھایا اور انہوں نے کراچی میں ایک ملاقات پہ کہا کہ قیادت و سیادت کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوا کرتیں کام اور کام سے اس کو حاصل کرنا مشکل نہیں ہوا کرتا ـ تم بھی اپنے آپ کو کام سے اس عہدے کا اہل ثابت کرو ۔معراج محمد خان اس اتحاد کے واحد لیڈر تھے جنہوں نے اے پی ڈی ایم کا حصہ بننےسے انکار کیا اور اے آرڈی کو توڑنے کے عمل کا حصہ بننے کے لیے لندن میں نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس میں نوازشریف کے فراہم کردہ ٹکٹ پہ جانے سے انکار کردیا تھا جبکہ عابد حسن منٹو ؍رسول بخش پلیجو عوامی تحریک اتحاد کی مرکزی کمیٹی سے اجازت لیے بغیر نواز شریف کے خرچے پہ نہ صرف لندن گئے بلکہ اے پی ڈی ایم کا حصہ بنے اور لیفٹ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرڈالا۔اور بعد میں یہی امر میری ان سب سے علیحدگی کا سبب بھی بنا تھا۔
معراج محمد خان یاسیت کو کبھی اپنے قریب آنے نہیں دیتے تھے اور انتہائی مایوسی اور زوال کے ماحول میں بھی وہ امید بھرے کام کا راستہ نکالنے کے ماہر تھے ۔اور تحریک انصاف کا قیام بھی ان کی اسی عادت کی نشانی تھی ۔لیکن جب پی ٹی آئی کسی اور راستے کی طرف چل نکلی تو انہوں نے اس سے الگ ہونے میں دیر نہیں لگائی ۔میں نے معراج محمد خان کو سٹیج پہ گھن گرج کے ساتھ آخری مرتبہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد کسان کانفرنس میں بولتے دیکھا اور یہ بھی مشرف کا دورتھا۔اور وہ اپنےشاگردوں کی اتنی بڑی تعداد کو وہاں دیکھ کر بہت خوش نظر آرہے تھے اور ان سے آخری ملاقات میں نے گزشتہ سال ہسپتال میں کی تھی اور اس موقعہ پر بھی میں نے ان کو قطعی مایوس نہیں دیکھا۔اس ملاقات کے بعد مجھے یاد ہے کہ میں کنور مومن خان سے ملنے پہنچا تھا اور کنور مومن خان نے اس دوران فون پہ کامریڈ لالہ بلال خانزادہ کو لیا تھا اور ہم تادیر خان صاحب کی باتیں کیے گئے ۔میں نے معراج محمد خان کو وہ زنجیر پایا جس سے ہم کئی لوگ جڑے اور اس شہر قدیم میں برھا کی پکڑ سے بچنے کا سامان کیا۔وہ ایک روشن دماغ تھے اور ڈاکٹر رشید حسن کی وفات کے بعد ان کی وفات ایک بڑا صدمہ اور دکھ ہے اور ابھی تو حسن رضا بخاری اور ظفر لنڈ کی جدائی کے غم سے نجات نہیں ملی تھی کہ یہ اندوہناک خبر آگئی اور ہم نے ایک مرتبہ پھر دری بچھالی اور گریہ و ماتم میں مصروف ہیں ۔ویسے دری کو لپیٹنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور ایک کے بعد ایک اداس کرنے والی خبر ملتی جاتی ہے۔
معراج محمد خان ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کی لیگسی آنے والی نسلوں کو شعور وآگہی بخشنےمیں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔لال سلام و لال سلام۔انقلاب و انقلاب۔زندہ باد زندہ باد۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn