Qalamkar Website Header Image

مائی عیدو، ماضی کا ایک کردار-سردار ریاض الحق

اس کی عمر ستر پچھتر سال کے درمیان، جسم دبلا پتلا، قد لامبا، سر پہ سفید بالوں کا گچھا جس میں کہیں کہیں کوئی پرانی لگائی مہندی کا رنگ بھی نظر آ جاتا، سردی ہو یا گرمی ایک ہی پرانی شلوار قمیض پہنے جس میں کہیں کہیں پیوند لگے ہوتے، لمبے سوکھے بازوں میں ایک چاندی کی اور دو تین پرانی کانچ کی چوڑیاں، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں پہنی لال سبز سستے سے پتھر جڑے انگوٹھیاں کہ جن کو صاف کئے شاید مدت بیت گئی ہو اور نام  عیدو، جسے ہم مائی عیدو کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ مائی عیدو تمہارا نام عیدو کیوں ہے تو کہنے لگی بیٹا میں عید والے دن پیدا ہوئی تھی اسلئے میری  ماں نے میرا نام عیدو رکھ دیا۔ وہ میرے گاؤں مرالی والہ کی رہنے والی تھی جبکہ ہماری رہائش گوجرانولہ کے پوش علاقہ کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پوش علاقوں میں بھی کسی ایک آدھ گھرمیں ہی ٹیلی وژن تھا اور کھاتے پیتے گھروں میں ریڈیو ہونا بھی غنیمت سمجھا جاتا تھا۔

مجھے ہمیشہ مائی عیدو کے میلے کچلے کپڑوں، انگوٹھیوں، چوڑیوں سے کراہت سی محسوس ہوتی لیکن جب بھی وہ گاؤں سے آتی تو یہ میرے بچپن کے انتہائی خوشگوار اور دلچسیوں سے بھرپور لحموں میں سے ایک ہوتا۔ اور اس دلچسپی کی وجہ وہ کہانیاں تھیں جو کہ ہم بہن بھائی اس سے سنا کرتے۔ بعض اوقات وہ کافی دن نہ آتی تو والد صاحب خصوصاً ہماری فرمائش پہ اسے کسی ملازم کے ہاتھ پیغام بھجواتے اور خاص طور پر ہمارے لئے بلواتے۔ مائی عیدو کی کہانیاں کسی طلسم ہوشربا سے کم نہ تھیں۔ گل بکاولی کی کہانی، اس جن کی کہانی جس نے ایک شہزادی کو قید کر رکھا تھا لیکن اس کی اپنی جان ایک طوطے میں تھی، اس اڑن قالین کا ذکر جس پہ ایک جادوگر سفر کرتا، اس جنگجو کی داستان جس نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت اپنی دشمن فوج پر تلوار چلاتا رہے گا جب تک خون اس کے گھوڑے کی رکاب تک نہ آ جائے اور چارپائی کے چار پایوں کی کہانیاں کہ ہر پایا اپنی کہانی سناتا کہ کیا کیا جگ بیتی اس کے سامنے بیتی لیکن تین پائیوں کہ بعد جب بھی ہم اس سے کہتے کہ چوتھے کی آپ بیتی سناؤ تو اس کا جواب ہوتا وہ مجھے یاد نہیں۔ چوتھے پائے کی کہانی یاد نہ ہونے کی بات مجھے اکثر غمگین کر دیتی۔

کہانی سنانے کے کچھ طور طریقے بھی ہوتے تھے۔ جن میں ایک یہ تھا کہ کہانی دن کو نہیں سنانا۔ کبھی جو میں ضد کرتا کہ مجھے دن کے وقت کہانی سناؤ تو اس کا جواب ہوتا کہ بیٹا دن کے وقت اگر کوئی کہانی سنے تو اس کا ماموں گھر کا راستہ بھول جاتا ہے اور میرا معصوم ذہن اپنے تین ماموؤں کی جانب چلا جاتا جو کہ لائلپور میں رہا کرتے تھے۔ تصور ہی تصور میں ان کو کسی بازار میں پریشان پھرتے دیکھتا اور میں سہم کر خاموش ہو جاتا اور رات کا انتظار کرنے لگتا۔ میری نگاہیں مسلسل مائی عیدو کا تعاقب کرتی رہتیں۔ کھانا کھانے سے لے کر حقہ کی چلم بھرنے تک۔ اسے حقہ پینے کی عادت تھی۔ سرِشام ہی وہ حقہ تیار کرنا شروع کر دیتی۔ ہمارے منشی صاحب کے پاس سے حقہ لے کر آتی، گڑ اور تمباکو پچھلے سٹور کی بوریوں سے لیتی اور بھینس کے اوپلوں کو جلا کر آگ دہکاتی۔ یہاں تک کہ رات کے آٹھ بج جاتے اور پھر وہ اپنے بستر میں جا بیٹھتی۔ ہم سب بہن بھائی بھی اس کے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے۔

یہ بھی پڑھئے:  تیز ہوتی دھڑکنیں اور پی ایس ایل فائنل-شیخ خالد زاہد

کہانی شروع کرنے سے پہلے وہ ایک بات ضرور کیا کرتی کہ جب وہ کہانی سنائے تو تم میں سے کوئی ایک ہر دو تین فقروں کے بعد ہنکارہ ضرور دے، یعنی ہاں، پھر کیا ہوا وغیرہ وغیرہ ورنہ وہ کہانی سنانا بند کر دے گی۔ اب ہم کہانی کے لئے ہمہ تن گوش ہو جاتے مائی عیدو حقہ کے دو تین لمبے کش لگاتی، اس کی نظریں اوپر کمرے کی چھت کو گھورنے لگتیں جیسے اپنی یادوں کے خزانے سے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ پھر اچانک اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوتی، چہرے پر ایک ایسا اطمینان آ جاتا جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو۔ اب ہماری طرف منہ کر کے کہانی شروع کر دیتی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بہت نیک بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔، اس کی پوری کہانی کے دوران کیا مجال جو کوئی آنکھیں بھی جھپکے یا جمائی بھی لے۔ کہانی ختم ہونے پر ہم اگر دوسری کہانی سنانے کا کہتے تو کبھی کبھار کوئی مختصر کہانی بھی سنا دیا کرتی لیکن عام طور پر اگلی رات یا پھر کسی دوسرے دن کا کہہ کرہمیں سونے کا کہہ دیتی۔ دوسری طرف امی کا بھییجا ہوا نوکر بھی سر پر کھڑا ہوتا کہ وہ سونے کے لئے بلا رہی ہیں۔

پہلے پہل وہ سال میں تین چار مرتبہ آ جایا کرتی تھی لیکن پھر اس کا آنا کم ہو گیا۔ زمانے نے کروٹ لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر میں ٹی وی آ گیا۔ شام چھ بجے سے رات دس بجے تک ٹو وی کی نشریات ہوتیں۔ بچوں کے کارٹون، پوپائے دی سیلرمین، مکی ماؤس اور انگریزی فلمیں سٹار ٹریک، ایڈونچرز آف بلیک بیوٹی، سکپی دی بش کینگرو نے مائی عیدو کی کہانیوں کو لاشعور میں دیکھلنا شروع کر دیا۔ اس پر یہ آیا کہ پانچویں کلاس میں جاتے ہی اردو  بھی لکھنی پڑھنی آ گئی۔ میں نے مقبول جہانگیر کا ترجمہ کیا ہوا ایک ناول ان دیکھی دنیا پڑھ ڈالا۔ بس پھر کیا تھا۔ میری الماری میں ناولوں کے ڈھیر لگ گئے۔ حکایت اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ بھی آتے تھے۔ ان سے بھی اپنی دلچسپی کے مضامین یا کہانیاں تلاش کر کے پڑھ لیا کرتا۔ پھر کلاس کا ہوم ورک اور تعلیمی نصاب بھی بھاری ہوتا جا رہا تھا۔ غرضیکہ پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا کی ریڈیو کے بعد دوسری نسل ٹی وی نے میرے خیال و خواب سے مائی عیدو کو مٹانا شروع کر دیا۔ لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ وہ پھر آ گئی۔ میری والدہ سے کہنے لگی کی اب تو چھوٹے سردار میرے سے کہانیاں ہی نہیں سنتے۔ اس لئے میں نہیں آتی۔ میں نے دل رکھنے کے لئے کہہ دیا کہ اماں آج تم سے ضرور سنوں گا۔ چنانچہ رات کو کہانی سننے بیٹھا تو میں اکیلا ہی تھا۔ مائی عیدو نے کہانی شروع کی۔ یہ کہانی وہ کئی دفعہ سنا چکی تھی جس سے میں بور ہونے لگا۔ پھر میرا ذہن بھی دوسرے کمرے سے آنے والے ٹی وی پر لگی کسی انگریزی فلم کے تھرل میوزک میں پھنسا ہوا تھا۔ ابھی آدھی کہانی بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس نے بھی میری عدم دلچسپی کو بھانپ لیا۔ کہنے لگی، بیٹا مجھے نیند آرہی ہے۔ باقی کہانی کل سناؤں گی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور جا کر کسی بحری قزاق پر بنی مووی دیکھتے دیکھتے سو گیا۔ صبح اٹھا تو سکول چلا گیا واپسی پر کسی سے ہی سنا کہ مائی عیدو چلی گئی۔ اس رات کے بعد میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔

یہ بھی پڑھئے:  سچ سے بھاگنے کی ضرورت نہیں

مائی عیدو ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردار ہے جس کو گزرے زمانے کی دھول اور جدید ٹیکنالوجی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا۔ ریڈیو، ٹی وی، ڈش چینلز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا نے ایسے کئی کرداروں کو ہی نہیں بلکہ ادب اور فنون لطیفہ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ آج کوئی پائے کا شاعر، افسانہ نگار، موسقیار، گائیک یا دانشور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ ہاں اگریہ ٹیکنالوجی کسی چیزکا کچھ نہ بگاڑ سکی تو وہ ہے انتہاپسندی، ضعیف الاعتقادی، جہالت۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان میں اضافہ کی وجہ بنی جس کا نظارہ ہم روز کسی نہ کسی صورت میں دیکھتے ہیں۔

.dunyanews.tv

حالیہ بلاگ پوسٹس