تاج محل جو ایک مغل بادشاہ نے اپنی چہیتی بیگم کی محبت میں بنایا، خوش قسمتی سے اتنے سالوں کے بعد بھی پیار کی اکلوتی نشانی کے طور پہ پایا جاتا ہے ۔ اتنی صدیوں بعد بھی اسکی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں تاج محل کی نقل کر کے بہت سی عمارتیں بنائی گئی ہیں مگر اس جتنی مقبولیت کسی کو نہیں ملی۔
کہا جاتا ہے کہ اس محل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی اینٹیں رنگ بدلتی ہیں۔۔ صبح کو تاج محل کا رنگ ہلکا گلابی اور رات کو دودھیا سفید۔۔ کچھ سیانے لوگوں نے تاج محل کے بدلتے رنگوں کو عورت کے بدلتے مزاج سے تشبیہ دی ہے۔ انکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ممتاز بیگم شاہ جہاں کی چوتھی بیوی تھی اور اسکی وفات کے بعد بادشاہ نے مزید چار شادیاں کی۔ تو یہ تو پھر بادشاہ کے مزاج کی عکاسی ہوئی نہ۔۔۔ ۔
ممتاز کو بادشاہ سلامت کی محبوبہ کا اعزاز بھی حاصل تھا اور اس حوالے سے خوش قسمت رہیں کہ آج صدیوں بعد بھی انکا نام زندہ و جاوید ہے۔ لیکن اس محبت کی نشانی کی تعمیر بہت ظالمانہ طریقے سے انجام پائی۔ ایک محبت کی تکمیل میں ہزاروں ارمانوں کا خون ہوا۔بیس سال تک غریب عوام اپنی محبتوں کے سکھ کی خاطر دن رات پتھر ڈھو کے مزدوری کرتے رہے اور تعمیر محبت کے بعد بیشتر کاریگروں کے ہاتھ کاٹ دئے گئے کہ دوبارہ ایسی عمارت نہ بن سکے ۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں جمنا کے پار مہتاب باغ میں اپنے لئے ایک سیاہ تاج محل بھی بنوانا چاہتا تھا۔ مغل شہنشاہ کی خواہش تھی کہ اگر جمنا میں کشتی میں کھڑے ہو کر تاج محل کا دیدار کیا جائے تو مہتاب باغ میں بنے سیاہ تاج محل کے طور پر اس کی پرچھائیں نظر آئے تاہم شاہ جہاں کا یہ خواب ادھورا رہ گیا۔
کچھ عرصہ پہلے سنا تھا کہ ایک جاپانی سیاح سیلفی لیتے ہوئے تاج محل کی سیڑھیوں سے گر کے ہلاک ہو گیا۔اتنی صدیوں بعد ایک اور دیوانہ اس محبت کی نشانی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
ویسے ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ لاکھوں سیاح ہر سال اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں اس محل کی وجہ سے آج ہزاروں لوگوں کا روزگار چل رہا ہے۔ آگرے کے جو لوگ ذرا پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ غیر ملکی سیاحوں کے گائیڈ بن جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں وہ چوڑیوں کا اسٹال لگا لیتے ہیں۔ تاج محل کے اردگرد چوڑیوں کا بہت بڑا بازار ہے جس سے بہت سے لوگوں کے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ ان چوڑیوں کی خوبصورتی ہی یا تاج محل کا جادوکہ اکثر بھولی بھالی غیر ملکی خواتین ان کانچ کی چوڑیوں کی خاطر سونے کے زیورات تک دے جاتی ہیں۔
وقت کے نشیب و فراز نے تاج محل پہ بہت اثر چھوڑا آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے محل کے جگمگاتے سفید سنگ مر مر کو نقصان پہنچا۔ حالیہ برسوں کے دوران بھارتی حکام نے اس عمارت کی اصل چمک دمک کو بحال کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں گنجان آباد شہر آگرہ میں کوئلے سے چلنے والی صنعتوں پر اور آس پاس کے علاقوں میں گائے کے گوبر کو جلانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس اقدام کا مقصد اس عمارت کی بیرونی دیواروں پر کاربن کے ذرات کو جمنے سے روکنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل نو سال تک ملتانی مٹی کا لیپ کرنے سے سنگ مرمر پہ پڑے کالے پیلے دھبے دور کئے جا سکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے شدید نفرت رکھنے والی ہندو سرکار مسلمان بادشاہ کی بنائی ہوئی عمارت کی اتنی حفاظت کیوں کر رہی ہے۔؟
آخر کو روزی روٹی کا سوال ہے بابا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn