Qalamkar Website Header Image

ایک مٹھی خاک – مدیحہ سید

madiha-syedزمین سے ایک مٹھی خاک اٹھائیں۔ اسے غور سے دیکھیں۔۔ کیا نظر آیا۔؟ بس مٹی اور چھوٹے چھوٹے ذرات۔
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس مٹی میں ہم جیسے کتنے لوگوں کی باقیات ہیں۔! کتنے حسین و جمیل لوگ جن کے آنکھ کے اشارے سے تحت و تاج الٹ جاتے اور کئی لوگوں کی دنیا زیر و زبر یو جاتی۔ جنکی دہشت اور حسن کے چرچے شرق و غرب تک پھیلے تھے، آج ملیا میٹ ہو کر خاک کی تہوں میں گم ہو چکے ہیں۔
کہاں گیا ملکہِ مصر قلوپطرہ کا جان لیوا حسن، مونا لیزا کی دلکشی، سکندرِاعظم کا جاہ و جلال، فرعون و نمرود کی بادشاہی۔؟
اپنے زمانے کی اہم شصیات ہمارے زمانے کے لئے صرف عبرت کا نشان۔ بالکل اسی طرح اگلے زمانے والے ہماری باقیات پہ افسوس کریں گے۔۔
چلیں اسے رہنے دیں کسی پرانے قبرستان میں پڑی کچھ ہڈیاں اٹھا کے دیکھ لیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کون تھا۔
مرد یا عورت،امیر یا غریب، خوبصورت یا بدصورت۔؟ نہیں کچھ نہیں معلوم سوائے اسکے کہ بہت دہشت ناک ہیں۔ کیا پتہ کہ یہ ہڈیاں جو اب دیکھنے والے کو خوف میں مبتلا کر رہی ہیں اپنے زمانے میں کتنے حسین و جمیل بندے کی ہوں۔؟
ہزاروں لوگ جو زمین پہ راج کرتے تھے آج کیا ہیں۔؟
صرف ایک مٹھی خاک!
غرور و تکبر ایسی چیز ہے جو اللہ کو کبھی بھی کسی صورت میں نھیں بھائی۔ یہ تکبر ہی تھا جس نے ہزاروں سال فرشتوں کی سرداری کرنے والے عزازیل کو ابلیس بنا دیا۔قارون جو کسی زمانے میں نیک بندہ تھا دولت کے غرور میں زمین میں دھنسا دیا گیا۔نمرود نے 400 سال بادشاہی کی تو موت کو بھلا بیٹھا۔ تکبر میں خدائی کا دعویدار بنا اور ایک نہایت معمولی مچھر نے اسکا کام تمام کیا۔۔ بہت بچپن میں پیغمبرِ خدا یوسف نے صرف خود کو دیکھ کر ناز کیا تھا۔ تاریخ نے دیکھا اس حسن کی بولی لگی۔ یہ غرور نہیں تھا صرف بچگانہ عمر میں آیا ایک خیال تھا مگر اسکی پاداش مین یوسف کو 40 سال ٓغلامانہ زندگی بسر کرنی پڑی۔
ہمارے مذھب میں بھی تکبر کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے اور اسکی سزا جہنم۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں وَاِسْتِعِمٰالُ التّکُبّر وَالَّجَبِّرُ تکبر اور جبر سے کام لینا بھی گناہان کبیرہ ہے میں سے ہے۔ سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ألَیْسَ فِی جَھَنَّمَ مَثْویً لِلْمُتَکبََّرِیْن(سورہ زمر آیت ۶۰)
کیا غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے۔
اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کٰانَ مِنَ الْکَافِرِیْن(سورہ بقرہ آیت ۳۴)
(شیطان نے آدم کو سجدے سے انکار کیا اس نے تکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔
اِنَّ فِیْ جَھَنَّمَ لَوادٰ یاً للّمتکبّرِیْن یُقٰالُ لَہُ سَقَر شکَیٰ اِلَی اللّٰہِ عَزَّو جَلَّ شِدّ ةِ حِدِّہ۔وَسَئَلَہُ اَنْ یثاذَنَ لَہُ اَنْ یَتَنَفَّسَ فَتَنَفَّسَ فَاحَرْقَ جَھَنَّمَ (کافی جلد۲صفحہ۳۱۰)
دوزخ میں ایک ایسا درہ ہے جو متکبروں کے لئے مخصوص ہے کہ جسے سقر کہتے ہیں اس سے اپنی گرمی کی شدت کی خداوند عالم سے شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت چاہی پس اس نے سانس لیا اور جہنم کو جلادیا
۔آپ نے یہ بھی فرمایا۔
اِنَّ المُتکَبَّرِیْن یَجْعَلُونَ فِیْ صُوَرِ الذَرِّ یتَوَ طَئَاھمُ النّٰاسَ حَتّٰی یَفْرغُ اللّٰہُ مِنَ الْحِسٰابِ (کافی جلد ۲صفحہ ۳۱۱)
بلاشبہ تکبر کرنے والے(روز قیامت)باریک چیونٹیوں کی صورت میں محشور ہوں گے اور خداوند عالم کی مخلوق کے حساب سے فارغ ہونے تک لوگ انہیں پاوٴں تلے روندیں گے۔
غرور تکبر جیسی صفت صرف اسکو زیب دیتی ہے جسے کبھی زوال نہیں اور جسے ہمیشہ رہنا ہے۔ اس ہستی کے علاوہ کسی کو نہیں جچتا کہ وہ کسی چیز پہ غرور کرے۔اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا۔ دل و دماغ آنکھیں اور کان دیے کہ ہم سوچیں اور سمجھیں اور عاجزی اختیار کریں۔ کیونکہ کیا فائدہ ایسے غرور و تکبر کا جسکی اصلیت ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  فلسفہ وحدت ہے کیا؟

ایک مٹھی خاک

حالیہ بلاگ پوسٹس