کیا حسین کا یہی کمال ہے کہ وہ شہید ہو گئے۔۔؟ اس سے پہلے کیا لوگ شہید نہیں ہوئے؟ اس سے پہلے کیا کسی نے قربانی نہیں دی؟ تو حسین ہی کیوں جسکو چودہ سو سال سے لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں؟ خلافت کے نام پہ ہونے والی جنگ کو کیوں ڈرامائی انداز مین پیش کیا جا رہا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہم ہر سال محرم میں سنتے چلے آ رہے ہیں اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ واقعی دینا میں لاتعداد شہید گزرے ہیں جنھوں نے قوم و مذھب کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں وہ سب قابل آحترام ہیں لیکن سوال یہ ہے اگر انکے سامنے انکی اولاد کو رکھ کر ذبح کیا جاتا یا وہ تمام مظالم ڈھائے جاتے جو دس دن میں کربلا میں خاندان رسالت نے برداشت کئے تو شاید اتنا حوصلہ کسی میں نہ ہوتا۔
قرآن میں سورہ بقرہ میں ارشاد ہے کہ” بےشک ہم انسان کو آزمائیں گے خوف سے، بھوک سے،مال و دولت کے نقصان سے اور انکے پھلوں کو چھین لیں گے۔”
یہ سب آزمائشیں انسان پہ آتی ہیں مگر ایک ایک کر کے۔ اللہ تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ کبھی دولت چھین کے معاشی حالات تنگ کر کے کبھی ایک ایک کر کے والدین اور اولاد کو چھین کے کبھی خوف میں مبتلا کر کے، اور انسان اس پہ بھی صبر نہیں کر سکتا دل کے دورے پڑ جاتے ہیں یا ذہنی توازن خراب ہو جاتا ہے۔ اور اللہ سے گلے شکوے تو معمولی بات ہے
لیکن اندازہ تو کریں حسین ابن علی کا جس نے دس دن کے اندر اندر یہ سارے دکھ درد دیکھ لئے ہر آزمائش دیکھی اور کمال کا حوصلہ دکھایا۔ چند ماہ کے معصوم بیٹے سے لے کر جوان بیٹے تک کی لاشوں کو خود اٹھایا۔ بھوک پیاس خوف سب کچھ دیکھا بہن بھائی کی اولاد کٹتی دیکھی ۔۔ اپنے ہاتھوں سے سب لاشیں اکھٹی کیں اور آخری دن بچ جانے والی عورتوں کو سمجھایا بجھایا۔ یعنی اتنی ہمت تھی کہ اپنی شہادت کے بعد کے حالات سے عورتوں کو روشناس کرا رہے تھے۔ پورے خاندان کے اکہتر بندوں کے بے دردی سے شہید ہونے پہ بھی وہ بندہ حوش و حواس میں رہا، اس نے اللہ سے آزمائش کا گلہ نہیں کیا۔ پورے خاندان کو لٹا کر جب وہ میدان کی طرف آئے تو اسی ہمت اور حوصلے کے ساتھ ۔ انکو معلوم تھا کہ سب مرد شہید ہو گئے ہیں صرف عورتیں ہیں جو انکی شہادت کے بعد یزیدی فوج کے رحم و کرم پہ ہوں گی مگر یہ چیز بھی انکے ایمان کو کمزور نہی کر پائی۔ ایک دفعہ کسی نے انکو منت سماجت کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔آخر میں دم تکلتے وقت بھی نماز ظہر ادا کی ایسا کون ہو گا جو لٹ جانے کے بعد بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے شہید ہو رہا ہے جس کو معلوم تھا کہ جو سجدہ میں کرنے جا رہا ہوں اسکے بعد میرا سر نیزے پہ بلند ہو گا مگر اس نے اس وقت بھی اللہ کا حکم مانا۔
ہم آپ یا کوئی اور ہوتا تو اسی وقت پاگل ہو چکا ہوتا یا مر گیا ہوتا مگر آفرین اس حوصلے پہ جس نے ثابت کیا کہ رہتی دنیا تک اس جیسا انسان نہیں پیدا ہو سکتا۔ اور آپ اس کو کسی عام بندے کے ساتھ ملانے کی بات کیسے کرسکتے ہیں۔
رہی بات خلافت کی جو ناعاقبت اندیش کہتے ہیں کہ دوشہزادوں کے درمیان جنگ کو اتنا بڑھا کے مت پیش کریں تو وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جنت کے سردار کو دنیاوی بادشاہت کا لالچ کیسے ہو سکتا ہے، جس گھرانے نے دینا میں فقر و فاقہ کو چنا اور دنیاوی آسائشیں خود پہ حرام کر دیں وہ خاندان بادشاہت کے حصول کے لئے لڑے گا؟؟؟؟ بادشاہت ہی مقصد ہوتا تو مزاکرات کئے جا سکتے تھے کچھ لے دے کے حکومت میں بڑا عہدہ حاصل کر سکتے تھے خاندان کو قربان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
اور بعض لوگ جو یزید کے معاملے میں اور اس کی دوستی میں اس قدرڈوب گئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ یزید مسلمانوں کے اتفاق سے امیر ہواتھا اور اس کی اطاعت امام حسین پر واجب تھی۔ انکے لئے عرض ہے کہ اس دور کا بندہ بندہ یزید کے کالے کرتوتوں سے واقف تھا جس کی بنا پہ وہ بیعت کا حق دار نہیں تھا۔ اس کے ہم عصر صحابی حضرت عبداﷲ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اﷲ عنہ کا قول نقل ہے کہ۔:
’’خدا کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جب کہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں۔ کیونکہ یہ شخص (یزید) مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑتا تھا‘‘ (طبقات ابن سعد ۵ ص ۶۶‘ ابن اثیر ۴‘ ص ۴۱‘ بحوالہ امام پاک اور یزید پلید)
اس اعلان کے بعد اب اس کے ’’معصوم‘‘ ہونے کی گنجائش قطعی باقی نہیں رہتی اور یزید پلید کے فاسق و فاجر ہونے میں کسی بھی دور کے علمائے حق میں اختلاف نہیں رہا۔ اس معاملے میں چاروں امام بھی متفق ہیں۔ تو امام حسین کس طرح ایک ذلیل انسان کی بیعت کرسکتے تھے۔ ؟؟
یہ بات طے ہے کہ اہل بیت کرام سے بغض و عناد رکھنا کوئی نئی بات نہیں ۔ محمد مصطفے ﷺ کے دور مبارک سے لے کر آج تک ہر دور ایک ایسا طبقہ ضرور رہا ہے جو آل رسولﷺ کی عظمت و رفعت سے ہمیشہ جلتا کڑھتا رہا ہے۔ اور الزام تراشیاں کرتا رہا ہے طبقہ خوارج آئے روز اپنے عقائد کی خباثت کا اظہار کرتے رہتے ہیں کبھی اہل بیعت پہ الزام لگا کراور کبھی یزید کو صحابی بنا کر مگر کوئی شک نہیں کہ سب نے ہمیشہ منہ کی ہی کھائی ہے کیونکہ حسین کا ذکر اس ذات نے بلند کر رکھا ہے جس کی خاطر حسین ابن علی نے سب کچھ لٹا دیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn