دبئی میں سردی بس نام کو آتی ہے اور ایک مہینے میں غائب بھی ہو جاتی ہے۔ کل جب سردی کے کپڑے واپس پیک کرنے لگی تو سب گھر والوں کا ایک ایک سویٹر اور کچھ پورے بازو کی ٹی شرٹس ہی نکلیں۔ پاکستان میں تو ہر سال ایک بڑے بکس میں سے سویٹر نکلتے تھے، ان کو دھوپ لگا ئی جاتی ، پرانے سویٹر ادھیڑ کر نئے بنے جاتے اور اس کام میں تقریباََ پورا گھر ہی شامل ہوتا ۔
سویٹر تہہ کرتے کرتے اچانک میں رنگ برنگے ا ون کے گولوں میں گھر گئی۔ امی کے ہاتھ کے بنے ان گنت سویٹر آنکھوں کے سامنے آ گئے۔وہ ہلکے آسمانی رنگ کا ہائی نیک۔۔۔لمبی دھاریوں والامیرون سویٹر۔۔۔لال جالی کے ڈیزائن والی شال اور بادامی رنگ کا وی گلے والا سیدھے الٹے ڈیزائن والا سویٹر۔۔۔پرانے اون کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی اور لوہے کا ٹرنک پھر کھل گیا۔
سویٹر بننا ایک آرٹ ہے۔میری امی کے پاس آج بھی لمبی لمبی اونی سلائیوں کا ایک سیٹ ہے ۔نارنجی رنگ کے پلاسٹک کورمیں محفوظ وہ اون بننے کی سلائیاں جس سے تلوار بازی کرنے کا شوق مجھ سمیت پاکستان کے نووے فیصد افراد کو ہو گا۔وہ سلائیاں جس کی حفاظت امی اپنے سونے کے زیورات جتنی کرتی تھیں اور ان کو چھونا یعنی اپنی موت کو دعوت دینا ہوتا۔ سنا ہے سلائیاں ٹیڑھی ہونے سے بنے ہوئے سویٹر میں جھول آ جاتا ہے۔ اس زمانے میں سردیاں آتے ہی ا ون کے اشتہار ٹی وی پر آنے لگتے۔اے بی سی نونیٹ کا ایڈ ہر بچہ قومی ترانہ سمجھ کر لہک لہک کر گاتا نظر آتا۔اور ہماری امی بھی اس اشتہار کے عین مطابق دوکاندار سے نام لے کر طلب کرتی تھیں۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ساتویں جماعت میں جب لڑکیوں کونئی نئی فیشن کی سمجھ آنا شرع ہوتی ہے، ہمارے اسکول میں ا ونی مفلر کا فیشن آیا۔ہر لڑکی نت نئے رنگوں کے مفلر گلے میں ڈالے گھوم رہی ہوتی۔میں نے جب امی کو یہ بات بتائی تو امی بھی پچھلے اسٹور نما کمرے سے ا ون کا تھیلا نکال لائیں۔اس کالے رنگ کے بڑے سے تھیلے میں سے جھانکتے ا ون کے گولے شادی میں لگے قمقمے معلوم ہوتے تھے۔وہ رنگ آج بھی میری آنکھوں میں محفوظ ہیں۔ امی نے رنگ پسند کروایا اور مفلر بننے میں لگ گیں۔پتہ نہیں کتنا وقت لگا ہوگا البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ اگلی صبح آف وائٹ رنگ کا مفلر پہن کر اسکول گئی تھی۔ اس صبح ا احساس ہوا کہ ملکہ الزبتھ جب اپنا تاج پہنتی ہوں گی تو ان کی کیا کیفیت ہوتی ہو گی۔
آج کل سویٹر بنانے کی انڈسٹری عروج پر ہے۔ یہ ایک بزنس ہے جس سے ہزاروں کمپنیاں کروڑوں ڈالر کما رہی ہیں۔دنیا بھر میں لوگ نت نئے ڈیزائن کے سویٹر، کوٹ اور مفلر روز بدلتے فیشن کے حساب سے پہننا چاہتے ہیں۔لیکن اگر آپ نے اپنی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا ایک بھی سویٹر پہنا ہے تو آپ میری اس بات سے متفق ہوں گے کہ آج تک کسی بھی برانڈ نے اتنی محبت اور شفقت سے آپ کو سویٹر نہیں پہنایا ہوگااور نہ ہی اس برانڈ نے اسکول یونیورسٹی یا آفس میں آپکو تحفّظ کا احساس دلایا ہوگا۔اعلیٰ سے اعلیٰ پرفیوم لگانے پر بھی آپکو اس سویٹر میں سے ماں کے ہاتھ کی خوشبو نہیں آ سکتی۔ اور نہ ہی کوئی برانڈ آپکو سالوں بعد ٹائم ٹریول کروا کر بچپن میں پہنچا سکتا ہے۔شایدبڑے برانڈ اے بی سی نونیٹ کا اون استعمال نہیں کرتے، یا شاید مامتا کی گرمی کا نعم البدل کسی سلائی مشین میں نہیں ڈھونڈ پائے۔
یہ بلاگ ان تمام گمنام سویٹروں کے نام جو ہر طرح سے خوبصورت ہونے کے باوجود کسی برانڈ کا ٹیگ حاصل نہیں کر پائے،اور آج بھی کسی سیلے ہوئے ٹرنک میں پڑے تحسین کے منتظر ہیں۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn