Qalamkar Website Header Image

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

tanveer shahid❞ہمارے ادب کو اگر لوگوں کے ضمیر کا آئینہ دار ہونا ہے اسے نیکی اور سچائی سے ان کی محبت کا انصاف کا اور حسن کے ان تصورات کا اظہار کرنا ہے تو اسے زندگی کو ایک ہی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہیے، اور دوسری آنکھ کو شرما کر بند نہیں کر لینا چاہیے، آدھی سچائی جھوٹ سے بد تر ہے کیونکہ یہ آپ کو سماج کے مفاد کے بجائے اپنے خود غرضانہ مفاد کے لیے زندہ رہنا سکھاتی ہے، ہمارے ملک میں سچے ادیبوں نے سچائی کو کبھی نہیں چھپایا اور اس گہرے احساس سے لکھا ہے کہ ان کی تحریریں قارئین تک پہنچیں گی، اس قسم کی اشاعتیں انصاف کی جیت ہیں اور اس تعمیرِ نو کے سلسلہ عمل کی مظاہر ہیں جس کا انحصار ماضی اور حال کے متعلق سچائی پر ہے❝
ایک روسی جریدے سے لیے گئے اس اقتباس سے اس موضوع کی افادیت کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے ہر معاشرے کے اپنے قوانین اور ادب ہوا کرتے ہیں، ہماری مشرقی تہذیب میں جنس کی حدیں مذہب و اخلاق کی متعین کردہ ہیں جن کی پاسداری سے اصنافِ مخالف کے درمیان رشتوں کا تقدس اور احترام قائم ہے، اہلِ مغرب کے برعکس مشرقی اقدار کے مطابق یہاں مرد وزن کے رشتوں میں ابدی سچائیاں اور دائمی محبت کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے کم نہیں ہیں، کوئی کسی کے تیرِ نظر کا کھائل ہوا تو کوئی کسی کے ہجر میں سینہ چاک کرتا نظر آیا، عشق کی طلب میں سرگرداں سارے لوگ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں، لیکن قلمکار عام آدمی صرف قوتِ اظہار کے سبب مختلف سمجھا جاتا ہے، لیکن ادیب کی زندگی کا یہی اہم جزو اس کی سوانح حیات میں کہیں نظر نہیں آتا، انہیں انسان کی بجائے فرشتہ سمجھ لینے سے ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ بھی بشری کمزوریوں کے باوصف بالکل نارمل انسان تھے اور ان کی تخلیقات کو اگر ان کی زندگی کے ان تلخ حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو معنی ومفہوم مزید واضح ہوکر سامنے آئے گا.
ادب زندگی سے علیحدہ تو نہیں، ہمارا ادب ہماری زندگی کا پرتو ہی تو ہے، اس حوالے سے یہ بھی حقیقت ہے کہ صاحبانِ علم وقلم نے اگر عشق کے معرکے انجام نہ دیے ہوتے تو دنیائے ادب میں نِری خشکی کے سوا کچھ نظر نہ آتا، بہت جاوداں مصرعے وجود ہی میں نہ آتے، فیض کو یہ دعوی نہ کرنا پڑتا کہ:
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
میر تقی میر تو یہاں تک فرما گئے:
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
محبت، پریم، رومان، عشق کے الفاظ حسن کے جذبات سے وابستہ ہیں، عشق سے مشتق معاشقہ عربی زبان کا لفظ ہے، عشق کو عملی صورت دینا بہ الفاظِ دیگر معاشقے کا مفہوم ہے، بات جب معاشقہ تک پہنچتی ہے تو ہمارے معاشرے میں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری ادبی تاریخ ان قلبی وارداتوں سے نا صرف بھری پڑی ہے بلکہ اٹی پڑی ہے، بلا شبہ یہ ضروری نہیں کہ سب تخلیقات کا مقصد یا محرک کوئی نہ کوئی معاشقہ ہو، مشاہیر کے رومان بیان کرتے ہوئے بہت سے ادیبوں نے اپنے ہم عصروں کی پگڑیاں بھی اچھالیں اور چونکہ معاشقے کھلے عام ہونے کا رواج بھی کبھی نہیں رہا اس لیے جہاں راز فاش ہوئے وہیں افسانوی انداز نے حقائق کو مسخ بھی کیا.
بظاہر ایک لطیفہ ہے کہ جوش ملیح آبادی اور ہری چند اختر کا ایک نائیکہ کے ہاں جانا ہوا، موصوفہ نے دعوت دی کہ اپنی پسند کی لڑکیاں چن لیں، ہری چند گویا ہوئے: ❞محترمہ ہم تو یہاں گانا سننے آئے ہیں پھر گھروں کو لوٹ جائیں گے❝ ان لڑکیوں میں سے ایک تیز طرار شوخ حسینہ بول پڑی: ❞اچھا تو آپ ❞انسپریشن❝ یہاں سے لیں گے اور ❞تخلیق❝ گھر پر جاکر کریں گے❝ مجروح سلطان پوری کہتے ہیں: ❞معاشقہ انسان کی فطرتِ ثانیہ ہے جب یہ جمال پرستی کی حد سے نکل کر ❞لذت پرستی❝ کی حد میں آجائے تو عیب بن جاتا ہے، یہ بڑے بڑے تاریخی واقعات کے ظہور کا سبب بھی بنا ہے اور بڑی چھوٹی تخلیقِ فن کا سبب بھی، معاشقہ پیغمبروں سے لے کر ہم آپ جیسے معمولی انسانوں کے لیے کوئی حیرت ناک ورثہ نہیں❝.
قمر رئیس کے مطابق ❞ادیب اور قاری کے ما بین باہمی خلوص یگانگت اور قربت کا رشتہ جتنا استوار ہوگا اُتنا ہی اس کے فن کی قدر وقیمت کا صحیح تعین ہوسکے گا یہ تو ممکن ہے کہ ہم کسی ادیب کی تخلیقات کو پڑھے بغیر اس کی زندگی اور شخصیت تک رسائی حاصل کر لیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی ادیب کی شخصیت اور اس کی زندگی کے پیچ وخم سے گزرے بغیر ہمیں اُس کی تخلیقات اور اس کے فن کے رموز کا عرفان حاصل ہوسکے❝.
پروفیسر عنوان چشتی کے خیال میں ❞عشق انسانی جذبوں میں سے ایک بنیادی جذبہ ہے اس کی دو واضح صورتیں ہیں، ایک عشقِ حقیقی اور دوسری عشقِ مجازی، کبھی کبھی یہ دونوں میلانات ایک دوسرے میں تحلیل ہوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، انسان کی اکثر فتوحات خاص طور پر ادب اور شاعری کا محور یا تو خدا ہے یا عورت، بہرحال عشقِ حقیقی ومجازی سے زندگی کا نگار خانہء ازل جگمگا رہا ہے❝.
ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق ❞عشق کے حوالے سے ان شخصیات کی ادبی اہمیت دیکھیں، ان کا تخلیقی مقام مدِ نظر رکھیں تو پھر یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ تخلیق کے پھول کھلنے کے لیے انہیں کیسے کیسے جذباتی المیوں کی کھاد مہیا کرنی پڑی، یہ سب زندگی کے کسی نہ کسی دور میں دل کے ہاتھوں مجبور بھی ہوئے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دیوتا نہ تھے، گوشت پوست کا جسم رکھتے تھے، دھڑکتے دل کے مالک تھے، خواب دیکھتے تھے اور پھر انہی خوابوں نے ارتفاع پاکر تخلیق کا روپ پایا، اگر مشرق کے قدغنوں والے معاشرے میں بھی حکایاتِ دل تخلیقی سطح پر تحریر کی جاتی ہیں تو پھر یورپ کا کیا کہنا جہاں مرد عورت نارمل انداز میں سماجی روابط رکھ سکتے ہیں اس کے باوجود کیٹس، فینی بران کے لیے خون تھوکتے مرا❝
پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک جگہ رقمطراز ہیں ❞کلاسیکی اردو غزل میں مجموعی طور پر محبوب کا تصور گھٹا گھٹا، بھنچا بھنچا ہے، دکنی شاعروں کو چھوڑ کر صرف میر اور مصحفی کے ہاں تصورِ حسن کا ہندوستانی روپ ملتا ہے، دہلوی شعراء سے لے کر حالی وحسرت تک اردو غزل میں جس محبوب کی کارفرمائی ملتی ہے اس کی ارضیت سے انکار نہیں لیکن اس کی جمال آرائی ٹھیٹھ ہندوستانی انداز سے نہیں کی گئی، بیسوی صدی کے اوائل میں ابھرنے والے معروف فلسفی ❞اونا مونو❝ کا کہنا تھا ❞اگر اجسامِ لذت کے ذریعے ایک ہوتے ہیں تو روحیں درد کے رشتے کی بدولت متحرک ہوتی ہیں❝ اب ایسا بھی نہیں کہ ہر ادیب اس کارِ خیر میں شریک رہا ہو، بقول ظفر اقبال ایک بیوی ہے، چار بچے ہیں، عشق جھوٹا ہے، لوگ سچے ہیں، پروفیسر محمد حسن کہتے ہیں ❞اگر گھر میں پہلے سے ہی کوئی نیک بخت بیٹھی ہو تو بقول غالب وہی طوبی کی ایک شاخ وہی حور، زندگی اجیرن کرنے کے لیے کافی ہوگی، عشق اور مُشک میں بھی فرق ہوتا ہے، ایک معاملہ ہو ہے جیسے نظیر اکبر آبادی نے بیان کیا ہے کہ دلشاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے، غالب نے اسی لیے مشورہ دیا تھا کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو، کسی مردِ دانا کا قول ہے کہ عشق کرنا آسان ہے مگر چھوڑنا مشکل ہے.
یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون اہلِ قلم کے معاشقوں کا کامل تذکرہ ہرگز نہیں، چیدہ چیدہ شخصیات کی بابت مستند کتب وجرائد سے لی گئی معلومات کا ایک نمونہ ہے، اگر کہیں کوئی لغزش ہوئی تو میری علمی کوتاہی ہوگی، نیت کی خرابی نہیں.
اردو ادب کی تاریخ کا اس حوالہ سے جائزہ لیتے ہیں تو قلی قطب شاہ کی بھاگ متی یا مشتری میر بنت عم غالب کی ستم پیشتہ ڈومنی، مؤمن کی اُمت الفاطمہ صاحب جی، داغ کی منی بائی حجاب، فانی کی نور جہاں اور تفن جان، اختر شیرانی کی سلمی، مجاز کی نورا، میرا جی کی میراسین وغیرہ نسائی کرداروں کی اہمیت سے ہم نا آشنا نہیں، ویسے بھی ایک پانچ ہزار سال پرانا تہذیبی قول ہے کہ ❞مکمل عورت وہی ہے جو صبح کی پوتر پوجا کی طرح ماں ہو، شام کے سائے میں جامنوں اور آموں کے باغ میں ساتھ کھیلنے والی بہن، دھوپ کے کھیتوں میں ساتھ تپنے والی جیون ساتھی اور رات کی سیج پرویشیا ہو❝ میر حسن کی مثنوی ❞سحر البیان❝ کے محرکات میں میر حسن کی وہ عشق ورزیاں اور چہل بازیاں شامل ہیں، جن کا تعلق فیض آباد نوابی محلات کی پُر تعیش فضا سے تھا، جرات تو دیدہ بازیاں کیا ہی کرتے تھے اور ان کی شاعری میں معاملہ بندی کا جو شوخ رنگ ملتا ہے اس کے بارے میں میر نے کہا تھا ❞میاں تم شعر کہنا کیا جانو، اپنا چوما چاٹا کہہ لیا کرو❝ مہندر سنگھ بیدی نے ایک مضمون میں لکھا کہ عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں، اس لیے اردو میں محبوب مرد پرستی کی صورت میں بھی ملتا ہے اور شکلِ نسوانی میں بھی، شاعروں کو چھوڑیے صوفیوں میں بھی رجحان پایا جاتا تھا، حضرت امیر خسرو کے ایک جگری دوست حسن تھے، وہ اپنے دور میں یوسفِ ثانی درجہ رکھتے تھے، امیر خسرو اور حسن ایک جان دو قالب کی طرح ساتھ ساتھ رہتے تھے، سمرقند وبخاری کو محبوب کے ایک تل پر قربان کرنے والے خیالات مالک حافظ شیرازی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مردوں سے مردوں کی محبت کے رجحان کی طرح انہی کے دیوان کے انگریزی ترجمے کے بعد مغرب میں پڑی، میر کے اس نوعیت کے شعر زبان زد عام ہیں، میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب، اسی عطار کے لونڈے سے دواء لیتے ہیں.
محبوب کے غم میں فانی بدیوانی شوپنہار کی طرح غم پرست اور میر کی طرح قنوطیت پسند تھے، فانی نے ایک عشق کیا تھا جس کی کوئی خاص تفصیل یا معتبر حوالہ نا پید ہے، البتہ جوش نے یادوں کی بارات میں ان کے بارے میں اس قدر لکھا ہے کہ ❞فرصت کے اوقات میں مقدمات کی مثلیں دیکھنے کے عوض مجھ کو اپنی معشوقہ کی تصویر دکھاتے اور پہروں اس کی داستانیں سناتے تھے❝
ولی دکنی ایک صوفی شاعر تھے، اس کے باوجود ان کے کلام میں امرد پرستی اور عشق صنفِ نازک دونوں کی بو آتی ہے، انہوں نے شمس الدین، گوبند لال، امرت لال اور سید معالی جیسے امردوں کا ذکر کیا ہے، مثلاً:
ہر طرف ہے جگ میں روشن نام شمس الدین کا
چین میں ہے شور جس کے ابروئے پرچین کا
ڈاکٹر فرمان فتح پوری اپنے مضمون ❞داغ کی حیاتِ معاشقہ❝ میں لکھتے ہیں ❞بظاہر منی بائی حجاب سے داغ کا یہ زخمِ محبت ناسور بن گیا تھا، اس لیے داغ نے فریادِ داغ لکھنے کے بعد بھی حجاب سے تعلقات قائم رکھے، 20 سال بعد 1902ء میں حجاب پھر داغ کے پاس حیدر آباد پہنچ گئیں، اب وہ معاشقے کی صورت نہ تھی، دونوں میاں بیوی بننے پر رضا مند بھی ہوگئے، داغ آخر دم تک پیمانِ وفا نبھانے کی کوشش بھی کرتے رہے لیکن یہ سب وضعداری کی باتیں تھیں جسے لگاؤ کہتے ہیں، نہ وہ پہلے تھا اور نہ 20 سال بعد پیدا ہوسکا، غالب کی شادی شدہ زندگی میں ازدواجی بے وفائی کے دو واقعے ایسے ہیں جن کا اقرار خود غالب نے کیا ہے، غالب کی بیوی امراؤ بیگم بھی اس سے با خبر تھیں، ایک وہ تعلق جو رئیسانہ شان میں شامل تھا خوش مذاق مگر پابند قسم کی طوائف مغل جان کے مکان پر حاضری دل لگی اور خوش وقتی، دوسرا ان کی ایک ہم قبیلہ خاتون جو اپنا کلام غالب کو بغرضِ اصلاح بھیجا کرتی تھیں، حمیدہ سلطان نے اپنی نانی کی زبانی اُس خاتون کا تخلص ❞ترک❝ بتایا ہے، وہ لکھتی ہیں ❞جب اس شاعر کا انتقال ہوا غالب بیمار پڑگئے تھے، غالب کے معاشقوں کے ضمن میں ستم پیشہ ڈومنی کا ذکر نظر آتا ہے، غالب نے ایک جگہ لکھا ہے ❞میں نے بھی ایک ستم پیشہ ڈومنی سے عشق کیا اور اسے مار رکھا، مغل بچے بھی غضب کے ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں❝ یہ حقیقت ہے غالب اپنی تمام تر خوش گفتاریوں کے باوجود حسن پرست ہی رہے کسی ایک کے ہوکر نہیں رہے، میر تقی میر جن کو ان کے گھر میں بیٹا عشق کرو کی تلقین ملی تھی ایک دنیا دار آدمی تھے، نو عمری کی عشقیہ واردات کے بعد ایک مدت تک جنون کی کیفیت سے نبرد آزما رہے.
مصائب لاکھ تھے پر جی کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
نظیر اکبر آبادی ایک قلندر صفت انسان تھے، روزانہ اپنے مریل ٹٹو پر سوار ہوکر اس بازار سے گزرتے، کسبیوں سے پان کے بیڑے وصول کرتے اور ہنسی مذاق کرتے جاتے، حکیم مومن خان مومن نے پہلا عشق نو برس کی عمر میں اپنی ہمجولی پڑوسن کی ایک لڑکی سے کیا جو دو برس تک جاری رہا، اس لڑکی کی اچانک موت نے ایک عرصہ انہیں افسردہ کیے رکھا، اس عالم میں ان کی ایک عزیزہ اپنی بیٹی سیما کے ساتھ ان کی تیمار داری کے لیے آئی، سیما مہمان بن کر آئی اور ان کے دل کی مالک ہوگئی، تنہائی کے جو بھی مواقع میسر آئے مؤمن نے ہر ہر موقعے کو خوب کشید کیا، دوپہر میں جب سب سوجاتے ان دونوں کے بخت جاگ جاتے، وہ دونوں محوِ نشاط تھے کہ کسی کی نظر پڑگئی، خبر عام ہوگئی، اتنی سی عمر اور یہ حرکات، سزا کے طور پر نزلہ سیما کے سر گرا، اور اسے واپس بھیج دیا گیا، تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے، ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا.
(جاری ہے)

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »