میمونہ عباس (گلگت ۔ پاکستان)
××××××××××××××××××××
محبت جس گھڑی مجھ پہ مہربان ہوئی تو اندیشوں اور خدشات کی ایک ان دیکھی دیوار بھی سینہ تانے میرے سامنے آن کھڑی ہوئی- بہت سے الجھا دینے والے سوالات نے جیسے میرا سارا وجود گھیر ہی لیا تھا. مگر ان سب رکاوٹوں کے آگے محبت ایسے ڈٹی رہی جیسے طے کر کے ہی آئی تھی کہ میری ذات کو کسی بھی صورت تسخیر کر کے جانا ہے. اور اسی ثابت قدمی کا اثر تھا کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میرے وجود کو گھیرے ہوئے وہم اور ڈر کے تمام ہالے ایک ایک کر کے مسمار ہونے لگے- میرا سارا وجود ایک انجانی سرشاری اور خوشی سے معمور رہنے لگا. زندگی اتنی خوبصورت لگنے لگی گویا ہر سو رنگ اور نغمے بکھرگئے ہوں.
اور بھلا یہ سب کیسے نہ ہوتا؟ وہ عشق و محبت کی کوئی عام سی داستان تھی نہ ہی ہجر و وصال کے قصے اور بیتابیاں عیاں کرتی ایک دلچسپ کہانی- بلکہ اس ملن کے سبب یہاں دو روحیں اپنے ہونے کے احساس کو جینے لگی تھیں. جہاں دو مختلف دنیاؤں کے باسی دو وجود اک دوسرے میں یوں تحلیل ہو گئے تھے گویا محبت نے آپ انسانی روپ دھار لیا ہو –
اور اپنی تکمیل کا وہ دلربا احساس اس قدر دلکش تھا کہ میلوں کی دوری پہ بیٹھا میرا محبوب مجھے اپنے آس پاس محسوس ہوتا. اُس کے ہر پل کی خبر ، محبت اپنے آپ یوں میرے پاس لاتی گویا وہ خود میری پیامبر بنی تھی.. کبھی کبھی تو اپنی محبت کی گہرائی اور شدت پہ مجھے خود ہی رشک آیا کرتا …اکثر تنہائی کی اوٹ میں بیٹھی، اُس کے خیالات کی چادر تانے, ہونٹوں پہ میٹھی مسکان سجائے میں خود سے بھی یہی پوچھا کرتی …کیاکوئی کسی کو اس قدر بھی چاہ سکتا ہے؟ بنا وصل کی خواہش کے؟ بغیر کسی غرض کے؟ کچھ پانے کے احساس سے مبرا ….. اور جواب ہمیشہ اثبات میں ہی ملتا ۔ بنا وصل کے ہی سب کچھ پا لینے کا احساس بھی تسکین بھرا اور عجب سحر انگیز ٹھہرا- یوں محبت ہر طلب سے بےنیاز ہو کر اک عجیب سی مستی میں ڈھلتی چلی گئی اور میں اپنے محبوب پہ جان وارتی رہی !
محبت کی مستی نشے کا ساروپ لئے میری رگوں میں اتر چکی تھی -مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ اپنے لئے دعامانگنے والےمیرے ہاتھ کب اُس کی سلامتی کی درخواست لئےرب کے حضور اٹھنے لگے…. میں اکثر سوچتی وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ بندوں کا عشق رب سے دور کردیتا ہے.. وہ غلط کہتے ہیں. کیونکہ میں تو اپنے مجازی محبوب کے سبب ہی اپنے حقیقی محبوب کا قرب بھی پاتی چلی گئی…اچھا لگتا راتوں کو اٹھ کر کسی انجانے احساس کے زیر ِاثر گریہ وزاری کرنا اور گھنٹوں خالقِ کائنات کے حضور سجدہ ریز رہنا- اس عاجزی و خاکساری کی خالص کیفیت کی سر مستی کا حال بھی روح میں اک سرشاری بھر دیتا ۔
میرے بہت اپنے! مجھے چاہنے والے, میری پرواہ کرنے والے……سب اس پاگل پن سے نالاں رہتے…. وہ چاہتے کہ میں اس خواب کی فسوں خیزی سے خود کو آزاد کر ڈالوں…. وہ کہتے کہ ایسی محبت کا وجود فی زمانہ کتابوں کی زینت بنا ہی اچھا لگتا ہے نہ کہ اسے حقیقی زندگی میں شامل کر کے اپنا جینا مشکل بنا دیا جائے! -مگر یہ خواب کب تھا؟ کہ میں اس کے اثر سے نکل آتی اور یہ کیسے ممکن تھا کہ میں اس احساس کو جھٹک دیتی ۔ میں اکثر سوچتی
” اگر میں اس محبت کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے محبوب کو بھلانے کی بھی کوشش کروں تو پھر جیئوں گی کیسے؟ میرے اندر کے لطیف احساسات جو مر دہ ہوتے جا رہے تھے اس کی وجہ سے دوبارہ ذندہ ہونے لگے ہیں – اُس سے جڑا ہر خیال , ہر بات اور خودکلامی تک نظم کا روپ دھار لیتی ہے- میں چاہوں بھی تو اب اس محبت سے دامن نہیں چھڑا سکتی . میری رگوں میں بہتا خون, میرے دل کی ہر دھڑکن اور روح کی گہرائی ایک اسی احساس کو تو زندہ رکھے ہوئے ہے کہ وہ مجھ میں جیتا ہے تاکہ میں جیتی رہوں – یوں زندگی رنگ برساتی رہے اور اپنے ہونے کے معانی مجھ پہ عیاں کرتی رہے . اب مجھے اپنی ذات اور روح کی تکمیل کیلیے کسی بھی طرف دیکھنے کی ضرورت جو نہیں -کیوں کہ "میں ” سے "ہم” اور "ہم” سے "میں” کا سارا سفر اُسی کی ہمراہی میں تکمیل پاگیا ہے- اور یہ کس قدر تسکین بخش احساس ہے کہ جسم کی کشش سے ماورا, چھونے کی تڑپ سے پرے کوئی کسی کی طلب کا کاسہ ہمیشہ کے لئے یوں بھرے کہ محبت خود پہ اِتراتی مغرور ہو کر رہ جائے-اور یہی میرا ایمان بھی ہے جو اس بات کی گواہی دیتاہے کہ عشق کو امر ہونے کے لئے وصل کی جسمانی لذتیں آخری شرط تو نہیں ”
یہی سب باتیں میں اس سفر کے دوران بھی سوچتی رہی جب میں پہلی بار اسے ملنے جا رہی تھی ۔ اس نے چند دن قبل ویڈیو چیٹ کے دوران کہا تھا
پیاری شائستہ ۔ تم میری زندگی کا حاصل ہو ۔ سرمایہ حیات ہو ۔ میں تم بن ادھورا ہوں ۔ اب تم سے ذیادہ عرصہ جدا نہیں رہ سکتا ۔ ملنے کی کوئی صورت نکالو ۔ تاکہ دو محبت کرنے والے بے چین دل ایک دوسرے کے قرب سے قرار پا سکیں ۔
میں نے ویڈیو میں دیکھا اس کا خوبصورت چہرہ جذبات کی شدت سے تمتا رہا تھا ۔ اور آنکھوں میں بے پناہ محبت موجزن تھی ۔ اس دن میں نے اس سے وعدہ کیا کہ جیسے ہی موقع ملا اس سے ملنے آونگی ۔
اور جلد ہی مجھے موقع مل گیا تھا ۔ دل میں دبا دبا جوش لیے میں محو سفر تھی ۔ سارا رستہ اس کی یادوں سے سرشار گزرا ۔ ہر شب فون اور کبھی ویڈیو کال پر سرگوشیوں میں ہونے والی گفتگو، اس کا دلنشیں لب و لہجہ اور اس کی مسحور کن آواز رہ رہ کر میرے ذہن میں گونجتی تھی ۔ انہی یادوں اور سمارٹ فون میں محفوظ اس کی تصاویر سے دل بہلاتے میرا سفر تمام ہوا ۔
میں نے پھولوں کی دوکان سے تازہ گلاب خریدے اور اس کے بتائے ہوئے پتے ” کالج ہاسٹل "کی طرف روانہ ہو گئی ۔ سوچ رہی تھی یوں اچانک مجھے اپنے دروازے پر پاکر وہ حیرت سے انگشت بدنداں رہ جائے گا ۔ اگرچہ میں نے فون پر باتوں باتوں میں اس سے یہ پوچھ لیا تھا کہ آج سارا دن وہ اپنے کمرے میں ہی رہے گا کیونکہ اس کی طبیعت کچھ اچھی نہ تھی ۔ مگر پھر بھی رہ رہ کر یہ خدشہ ذہن میں ابھرتا تھا کہ کہیں وہ کسی دوست یا عزیز کی طرف نہ چلا گیا ہو ۔ تب کیا ہو گا ؟ مجھے اپنے آنے کی خبر اسے دے دینی چاہیے تھی ۔۔ ؟ انہی سوچوں میں آخر وہ لمحہ آن پہنچا جب میں اس کے ہوسٹل میں داخل ہوئی ۔ اور پھر اس کا کمرہ ڈھونڈتے ہوئے دوسری منزل پر پہنچی ۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔ جب کہ ہاتھ کپکپا رہے تھے ۔ راہداری سنسنان تھی ۔ میں نے ایک بار پھر اپنے فون میسجز میں دیکھ کر اس کا کمرہ نمبر کنفرم کیا ۔ نمبر 20 ہی تھا ۔ جس کے عین سامنے اس وقت میں کھڑی تھی ۔ کمرے کی ایک کھڑکی راہداری کی طرف تھی جس کے پٹ نیم وا تھے ۔ ساتھ ہی دروازہ تھا ۔ اور اندر سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ میں دروازے پر دستک دینے ہی والی تھی کہ اس کی وہی جذبات بھری آواز سنائی دی ۔ جس نے مجھے ہوش و حواس سے بے گانہ کر رکھا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا
” پیاری تانیہ ۔ تم میری زندگی کا حاصل ہو ۔ سرمایہ حیات ہو ۔ میں تم بن ادھورا ہوں ۔ اب تم سے ذیادہ عرصہ جدا نہیں رہ سکتا ۔ ملنے کی کوئی صورت نکالو ۔ تاکہ دو محبت کرنے والی بے چین روحیں ایک دوسرے کے وصل سے قرار پا سکیں "۔
دستک کے لیے اٹھا میرا ہاتھ نیچے گر گیا اور بے اختیار میں نے ادھ کھلی کھڑکی سے اندر جھانکا ۔ وہ بغیر قیمض کے بستر پر نیم دراز تھا۔ جب کہ اس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا ۔ جس کی سکرین پر ویڈیو ونڈو میں ایک خوبصورت لڑکی کا سراپا بھی نظر آ رہا تھا۔ جس کے گریباں کے بٹن کھلے ہوئے تھے ۔
میری ٹانگوں سے جیسے جان نکل گئی ۔ میں نے دیوار کا سہارا لیا ۔ میرے ذھن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں ۔ ۔ قدم بڑھانے چاہے تو پاؤں جیسے منوں وزنی ہو گئے۔ بمشکل دیوار کے سہارے چند قدم چلی تو زور کا چکر آیا ۔ میں نے راہداری کے جنگلے کو پکڑنا چاہا اسی کشمکش میں گلاب کے پھول میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے سڑک پر جا گرے ۔ میں نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے دیکھا ایک تیز رفتار کار انہیں روندتی گزر گئی ۔
بشکریہ:محترم وحید قمر ایڈمن عالمی افسانہ فورم
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn