عموما سوال کیا جاتا ہے کہ اردو ادب کے پاس دوسری زبانوں خاص کر انگریزی ادب سے لیے گئے خیالات، اصناف اور تنقیدی اصطلاحات کے علاوہ کیا ہے؟یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے۔مگر کیا انگریزی زبان نے بھی کوئی اختراع کی؟یہ میرا انگریزی ادب کے جاننے والوں سے سوال ہے۔انگریزی ادب نے کس طرح دوسری زبانوں سے اپنی فضا کو منور کیا،چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی کتاب ’’انشائیہ کی بنیاد‘‘ میں ایک دلچسپ بات کا انکشاف کیا ہے:۔
’’جہاں تک اس اصطلاحEssayکا تعلق ہے تو اس کی تاریخ بذاتِ خود دلچسپی کی حامل ہے۔محمد ارشاد کے بقول:’’ہم میں بہتوں کو جان کر حیرت ہوگی کہ فرانسیسی زبان کا لفظAssaiدر حقیقت فرانسیسی زبان کا لفظ نہیں،بلکہ عربی کا ہے۔عربی میں سعی کے معنی کوشش اور کوشش کرنا کے ہیں،السعی کے معنی کوشش کرانا کے ہیں۔اور یہی معنی Assaiکے بھی بیان کیے جاتے ہیں‘‘۔(ص:۱۰)
یہی لفظ جب انگریزی میں آتا ہے تو Essayکے طور پر رائج ہو جاتا ہے،جو انگریزی ادب کی صنف ہے۔
نارسس(Narcis)اگر چہ ایک یونانی آدمی کا نام ہے،مگر آج کی انگریزی میں خود پرستی کے لیے Narsicism(نرگسیت)کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔اس کا تذکرہ ڈاکٹر سلیم اختر اپنی کتاب ’’اردو زبان کیا ہے؟‘‘یوں کرتے ہیں:۔
’’نارسس نے تالاب کی آئینہ نما سطح پر اپنا عکس دیکھا تو حسنِ خود کا گرویدہ ہوکر رہ گیا‘‘۔(ص:۱۳)
اردو میں لفظ رومان بہت رائج ہے۔اس سے متعلقہ اشتقاقی الفاظ رومانی،رومانیت وغیرہ بھی رائج ہیں۔عمومی طور پر یہ لفظ انگریزی زبان کا تصور کیا جاتا ہے،مگر ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’تنقیدی دبستان‘‘ میں لوکس کی کتابDecline & Fall of Romantica سے ایک اقتباس اردو میں پیش کیا ہے:۔
’’رومتہ الکبری کے سقوط کے بعد جب دورِ انتشار کا آغاز ہوا تو سرکاری زبان لاطینی کے علاوہ ایک عوامی بولی بھی معرضِ وجود میں آ گئی۔جسے رومانی(Languas Romanica)کہتے تھے۔اسی سے Romanice اورRomaanceجیسے الفاظ نے جنم لیا۔قدیم فرانسیسی زبان کا نام Romanzتھا۔اور بعد ازاں سرکاری زبانRomance کہلائی۔اسی طرح ایک زمانہ میں اسپینی کا نام بھی Romanceہی تھا۔اس کے علاوہ لاطینی خاندان کی بعض بولیوں کے لیے بھی یہ نام استعمال ہوتا رہا۔فرانسیسی کے نام کی رعایت سے اس میں لکھے گئے ایک خاص نوع کے ادب کو بھی رومانس کہا جانے لگا۔‘‘(ص:۸۷)
اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ کہ رومانیت ،جس نے ایک تحریک کی صورت اختیار کی،جو کلاسیکیت کے لگے بندھے اصولوں کے خلاف اعلانِ بغاوت تھی؛بذاتِ خود ایک اصطلاح کے طور پر انگریزی ادب میں منتقل ہوئی۔اور بعد ازاں رومانی تنقید کا رو پ اختیار کر لیا۔
اسی طرح صنفِ ادب ’’ڈرامہ‘‘ یونانی لفظ ڈراؤ سے ماخوذ ہے۔خود یہ بھی تو یونانی ادب کی دین ہے۔یہاں پر کسی حوالہ کی ضرورت نہیں کہ ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے ڈرامہ یونانی سے ہی انگریزی میں آیا۔
ایک نظر عارفہ صبح خان کی کتاب ’’اردو تنقید کا اصلی چہرہ‘‘ کے اقتباس پر:۔
’’اردو تنقید کا اصل منبع انگریزی تنقید کی طرح یونانی تنقید سے استوار ہے۔یونانی تنقید تک پہلے عربی نقادوں نے رسائی حاصل کی تھی۔اور یونانی زبان سے ان کا ترجمہ عربی میں کیا،جس سے انگریزوں کو آسانی پیدا ہوئی۔(ص:۴۳)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزی ادب نے یونانی سے بالواسطہ اور عربی سے بلا واسطہ استفادہ کیا۔عارفہ صبح مزید فرماتی ہیں:۔
’’ابنِ قتیبہ کا نام انگریزی تنقید میں ایک مستند حوالہ ہے۔ابنِ قتیبہ نے ’’الشعر والشعرا‘‘جیسی کتاب لکھی۔قدامہ بن جعفر،ثعالبی،ابو بکر محمد بن الطیب باقلانی عربی کے مشہور اور قد آور نقاد ہیں۔یہ سب تیسری اور چوتھی صدی کی پیدا وار ہیں،جب انگریزی تنقید برگ و بار بھی نہیں لائی تھی‘‘(ص:۴۳)
یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزی نے غیر زبانوں سے کس طرح فائدہ اٹھایا،بلکہ آج اگر ہم سائنسی اصطلاحات پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے الفاظ یونانی اور لاطینی کے مل جاتے ہیں۔مثلا براسیکا،نیوکلیئس،ایڈرینالین وغیرہ یونانی،نیٹریم(Na)،کیلئم (K)وغیرہ لاطینی ہیں۔یہ اثر آج بھی اسی انداز سے قائم ہے۔
انگریزی میں لفظ Magazineبہت مشہور ہے،اب ادب سے متعلق ہونے کی وجہ سے ہی بھی ایک طرح کی ادبی اصطلاح ہے۔اس کا ماخذ کیا ہے؟اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر نے(اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ )میں اردو رسالہ ’’مخزن‘‘ کے حوالے سے شیخ عبدالقادر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرمایا:۔
’’ بہت سے ناموں کو سوچنے کے بعد اس کے حق میں یہ فیصلہ کیا کہ یہ لفظ جامع تھا اور مختصر انگریزی ڈکشنری سے مجھے پتہ چلا کہ لفظ میگزین جو انگریزی رسالوں کے لیے مستعمل ہے،در اصل عربی’’ مخزن‘‘ سے سے مشتق ہے۔اس لیے اردو رسالے کے لیے موزوں معلوم ہوا۔بعد ازاں قبولِ عام نے مہر لگا دی‘‘(ص۴۸۱)
ان حوالہ جات کے علاوہ تلاش کرنے والوں کو اور بھی بہت سے حوالے مل جائیں گے۔انگریزی ادب نے اگریونانی ،فرانسیسی،لاطینی اور عربی سے فائدہ اٹھایا تو یہ کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ اسی طرح اردو نے اگر بلاواسطہ انگریزی زبان سے فائدہ اٹھایا ہے تو دوسرے لفظوں میں اس نے بھی مندرجہ بالا زبانوں سے بالواسطہ فائدہ اٹھایا ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اردو کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو جوں کا توں استعمال کرنے پر قادر ہے،جو انگریزی زبان کا خاصہ نہیں ہے۔یہاں ہماری زبان ایک لحاظ سے ممتاز بھی ہے۔
اردو ادب نے عربی سے بہت سی اصناف لیں مثلاقصیدہ،مرثیہ،نعت،حمد،مثنوی وغیرہ۔غزل فارسی سے آئی۔گیت دوہا،سہرا،پہیلی وغیرہ اردو ادب کی مقامی جنم بھومی سے لی گئیں۔
المختصر میں سمجھتا ہوں کہ کسی ایک زبان کا دوسری زبان سے استفادہ کرنا کوئی ایسی غلط بات نہیں۔انگریزی اگر دوسری زبانوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے تو خوامخواہ اردو پر انگلی اٹھانا کہ اس نے انگریزی سے فائدہ اٹھایا ہے،درست معلوم نہیں ہوتا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn