Qalamkar Website Header Image
saqib

پسند اور ضد

rp_Rao-Saqib-300x300.jpgوعسیٰ ان تکرھو شیاً وھوخیرلکم
وعسیٰ ان تحبّو شیاً وھوشر لکم
واللہ یعلم و انتم لا تعلمون۔
انسان فطرتاً ضدی واقع ہوا ہے۔ اس کی زندگی کی ساری کشمکش، ساری تگ و دو ، اپنی پسند کو پانے کی ” ضد ” پر مبنی ہے۔
پسند کیا ہے ؟
پسند اعمال کا پیش خیمہ ہے۔
پسند اعمال کا حاصل بھی ہے۔
پسند نیت ہے ۔
پسند نتیجہ بھی ہے ۔
نیت سے نتیجے کا سفر ہی انسان کی زندگی ہے۔
انسان کسی شے کی خواہش کرتا ہے، اسے پسند کرتا ہے۔
پسند سے نیتیں بندھتی ہیں، ارادے جنم لیتے ہیں۔
ارادوں سے اعمال اور اعمال سے نتیجے برآمد ہوتے ہیں ۔
انسان اپنی کل حیات پسند کو نتیجہ بنانے میں "ضائع” کر دیتا ہے۔
جی ہاں ! ضائع۔
جس پسند کو وہ لاحاصل سے حاصل میں تبدیل کرنے کی جستجو رکھتا ہے، اسے اس پسند کی حقیقت کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔
وو اس سفر میں خدا کے ہزاروں فیصلے پسِ پشت ڈالتا ہے، اور اپنی ضد پر اڑ جاتا ہے۔
یہی انسان کی کمزوری ہے۔ وہ اپنی پسند کے علاوہ ہر راستے سے آنکھیں چراتا ہے۔
وہ نہیں جانتا کہ اس کی پسند کے علاوہ بھی کوئی راستہ فلاح کا رستہ ہو سکتاہے۔
کسی شے کو پسند کرنا برا نہیں۔
پسند انسان کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہے۔
اس پسند کے لیے محنت کرنا، جدوجہد کرنا بھی معیوب نہیں۔
برا یہ ہے کہ وہ اس محنت، اس تگ و دو میں "اس” کے فیصلے کو بھول جائے جس نے اسے محنت اور جدوجہد کے قابل بنایا۔
پسند تب تک جائز وسود مند ہےجب تک پسند رہے۔
پسند ضد بن جائےتو نرا گھاٹا ہے۔
ہم اپنی پسند کو کامل سمجھتے ہیں۔
سب سے بہتر۔
ہر خامی سے پاک۔
چاہے حقیقت اس کے عین مخالف ہو۔
میرا سوال یہ ہے کہ انسان اپنی محدود علمی و عقلی دسترس کے باعث بہتر انتخاب کیسے کر سکتا ہے؟
وہ انسان کہ جو کھلی آنکھوں سے بھی پردے کے پیچھے جھانک نہیں سکتا۔
وہ انسان کہ جو آنے والے لمحے سے بھی کلی طور پر ناواقف ہے ۔
وہ بہترین رستہ کیسے چن سکتا ہے؟
اس کے مقابلے میں اس ذات کی پسند ہے جس کی دانائی بے انت ہے۔
جس کے علم کی حدود متعین نہیں کی جا سکتی۔
سب سے زیادہ دانا۔
سب سے بہترین منصوبہ ساز۔
جس کے لیے کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔
جس کے لیے پردوں کا وجود نہیں۔
ہر آنے والے لمحے سے باخبر۔
کیا تمہاری پسند اس کے فیصلوں کے سامنے کوئی وقعت رکھتی ہے؟
کیا تم اس سے زیادہ بہتر انتخاب کرنے والے ہو؟
ہرگز نہیں۔
ایسے بہترین منصوبہ ساز کی پسند سے راضی نہ ہونے کا مطلب جانتے ہو؟
وجہ جانتے ہو؟
بے یقینی۔
یقینِ کامل کی عدم موجودگی۔
سچ یہ ہے کہ اگر تم اس کی رضا میں راضی نہیں تو تمہیں اس کے قادرِ مطلق ہونے پر یقینِ کامل نہیں۔
پختہ ایمان تم سے اس کی پسند کو اپنی پسند بنانے کا متقاضی ہے۔
اگر یقین رکھتے ہو اس کی حکمت پر، اس کی قدرت پر،اس کی منصوبہ سازی پر،
تو قبول کرو اس کے فیصلوں کو۔
راضی ہو جاؤ اس کی رضا پہ۔
پسند کرو اس کی پسند کو ۔
یقین جانو، اس کی رضا میں راضی ہو کر، اس کی پسند اپنا کر تم جان جاؤ گے کہ اس کے انتخاب کے سامنے تمہاری پسند کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
تمہیں احساس ہوگا کہ تمہاری ادنیٰ سی عقل کی خواہش کتنی حقیر تھی۔
بس یہ ہے وہ پیش پا افتادہ نکتہ جو حضرت انسان اپنی عقل میں سمو نہیں پاتا۔
یہ ہے وہ بنیاد جس پر اطمینانِ حیات کی عمارت قائم ہے۔
یہی ہے وہ بنیادی اصول جس میں فلاح کا راز مضمر ہے۔
یہی یقینِ کامل ہے۔
یہی بندگی کی انتہا ہے۔
یہی ایمان کی معراج ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس