بات انتہائی آسان اور موجودہ صورتحال پر مبنی ہے اور اتنی انوکھی بھی نہیں ہے کہ اسے میرے علاوہ کوئی اور سمجھتا نہ ہو لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہم یا تو سمجھ نہیں پاتے اور اگر سمجھ بھی جائیں تو بول نہیں سکتے کیوں کہ جس روش پر ہم گامزن ہیں اس میں علمی مخالفت بہت مشکل ہو گئی ہے اور یہاں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے ممکن ہے میری تحریر بھی پتھر نہ سہی اینٹ ضرور ثابت ہو بات یہ ہے کہ آج کل ٹرینڈ اور اسٹائل کے نشے میں چور اور آزاد خیالی کی چمک دمک میں اندھے ہوئے لوگ اتنے بے حس اور بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ انھیں اب معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور آوارگی محسوس ہی نہیں ہوتی ہمارے تمام پرائیوٹ ٹی وی چینلز پر خواتین بنا دوپٹے کے نمودار ہونے لگی ہیں پہلے خواتین کو جاب کرنے سے روکنا وومن رائیٹس کی وایلیشن تھا اوراب خواتین کو دوپٹہ پہنانا وایلیشن کہلائے گا یعنی ہر قسم کی بےہودگی ایکسیپٹ ایبل ہے اور ہوگی مگر کوئی بھی ایسا کام جو اسلام سے مطابقت رکھتا ہو اس کا نفاذ تشدد اور وایلیشن کہلائے گا بلکه کہلایا جانے لگا ہے آپ دوسرے کی بہن، بیٹی کے ساتھ بنا شادی کےیا مستقبل میں شادی نہ کرنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود دوستی کے نام پر تعلق قائم کرسکتے ہیں مگر اپنی بہن ،بیٹی کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتے یعنی عزت اور غیرت کا نام لینے والا ہر فرد مذہبی انتہا پسند نظر آتا ہے اس جدید اور اندھی سوچ نے معاشرے میں جسم کو آزاد اور عقل کو غلام بنا لیا ہے خود کو سیکولر کہنے والےاس طبقے کا ماننے ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کی خرابی بُرائی اور بدنظمی کی وجہ مذہب یا مذہبی انتہا پسندی ہے۔ جہاں تک بات مذہبی انتہا پسندی کی ہے تو میں اس بات کا خود مخالف ہوں کہ آپ اپنا مذہب یا نظریہ کسی دوسرے پر مسلط نہیں کرسکتےلیکن جہاں کسی مذہب پر زبردستی عمل نہیں کروایا جا سکتا تو وہیں کسی کو ذبردستی اسکے مذہب پر عمل پیرا ہونے سے روکنا بھی خلافِ انسانی عمل ہے بشرطِیکه کوئی ایسا عمل نہ ہو جس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان ہو یا کسی کی تذلیل کی جارہی ہو اسی صورت میں تو ریاست کا فرض ہے کے وہ ایسے معملات کی روک تھام کرے۔ مگرجس طرف میں توجہ مبزول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے اب ہماری نوجوان نسل کو برباد کیا جا رہا ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علم ہماری قوم کو اس وقت ہوگا جب یہ بیماری ہماری رگوں میں سرایت کرجائے گی یورپ میں بیٹھے کچھ پاکستانی ہمدرد جو ہر وقت پاکستان کے غم میں بے حال رہتے ہیں وہ کبھی یہاں کی عوام کو یہ تو بتائیں کے یورپ میں ایک گھنٹے کے دوران کتنے ریپ ہوتے ہیں کتنے ابارشن ہوتے ہیں کتنی طلاقیں ہوتی ہیں کتنے مرد اپنی گرل فرینڈز کے لیے اپنی بیویوں کو چھوڑتے ہیں اور کتنی عورتیں اپنے بوائے فرینڈز کے لیے اپنے گھر تباہ کرتیں ہیں ؟یہ سب نہ کوئی بتاتا ہےاور نا ہی کوئی بتائے گا ایک بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کے ایسٹ کبھی ویسٹ نہیں بن سکتا یورپی معاشرے نے جہاں بے پناہ ترقی کی ہے وہیں عزت وغیرت سے بھی ہاتھ دھوئےہیں مانا کے اُن کی ترقی کا اس بے ہودگی سے کوئی تعلق نہیں مگر ہماری نوجوان نسل کو یورپ کی ترقی کا خوبصورت منظر دکھا کر ان کو آزادی کے نام پر فحاشی کے سپرد کیا جارہا ہے اور یہ سب اس ملک کے لیے قابلِ قبول نہیں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے جہاں ایک طرف مذہبی انتہا پسندوں نے اسلام اور پاکستان کو بدنام کیا ہے وہیں خود کو سیکولر کہنے والے جنونیوں نے انتہا پسندی کی مخالفت کے نام پر اسلام مخالف سرگرمیاں زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کے اللہ ہمیں گناہ کرنے کے مواقوں سے بھی محفوظ رکھے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn