Qalamkar Website Header Image

پاکستان میں بائیں بازو اور ماؤ نواز تحریکوں کا عروج و زوال ڈاکٹر | اشتیاق احمد – ترجمہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ

14۔اگست 1947کو پاکستان کا قیام آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا یونین مسلم لیگ کے مابین ہندوستان سے برطانوی اقتدار کے خاتمے کے بعد شراکت اقتدار کے پس منظر میں کسی متفقہ اور قابل عمل فارمولے کے حوالے سے جاری طویل اور لا حاصل مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا ۔کانگریس نظریاتی طور پر سیکولر ازم اوربلالحاظ مذہب قوم پرستی کی داعی تھی اور اس کی قیادت کا بڑا حصہ جدید تعلیم یافتہ ہندو سیاسی رہنماؤں پر مشتمل تھا جب کہ آ ل انڈیا یونین مسلم لیگ ہندوستان کے مسلم عوام کے علیحدہ سیاسی اور ثقافتی تشخص پر یقین رکھتی تھی اور اس کا نظریاتی اثاثہ فرقہ پرستی اور سیاسی قدامت پسندی پر مشتمل تھا۔ تاہم مذہب کے نام پر سیاست کرنے کے باوجود مسلم لیگ کی قیادت مذہبی عناصر کی بجائے کانگریس کی مانند جدید تعلیم یافتہ سیاسی رہنماؤں کے ہا تھوں میں تھی۔دونوں سیاسی جماعتیں ہندوستان سے برطانیہ کی رخصتی کے بعد ریاستی اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنا چاہتی اور ایک دوسرے کو اکاموڈیٹ کرنے سے انکار ی تھیں۔ ان کے باہمی مابین مذاکرات کی ناکامی نے ہندوستان کی تقسیم کی راہ ہموار کردی تھی ۔ بر صغیر کی تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں ہندو ، سکھ اور دوسرے غیر مسلم پاکستان میں شامل علاقوں سے نقل مکانی کرکے بھارت اور لاکھوں مسلمان نقل مکانی کر کے بھارت سے پاکستان آنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ تقسیم کی بدولت لاکھوں ( 14-17 ملین )ہندو ، سکھ اور مسلمان باہمی فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کی بھینٹ چڑھ گئے۔
پاکستان میں شامل ہونے والے ہندوستان کے شمال مشرقی اور شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقے صنعتی ترقی کے اعتبار سے پسماندہ تھے۔ان علاقوں میں باقی ماندہ ہندوستان کی نسبت صنعتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ہندوستان میں اس وقت موجود کل 14677صنعتی اداروں میں سے صرف 1414 ( 9.6) صنعتی ادارے پاکستان کے حصے میں آئے تھے ، 1,375,000 کلوواٹس بجلی سپلائی میں سے پاکستان کے حصے میں 72,700 (5.3)کلو واٹس بجلی آئی تھی،31,41,800 صنعتی مزدوروں میں سے پاکستان کے حصے میں206100(6.5) صنعتی مزدور آئے تھے اور معدنی وسائل کا صرف 10فی صد حصہ پاکستان کو ملا تھا۔پاکستان کے حصہ میں آنے والی صنعتیں چھوٹے درجے کی تھیں اور ان میں کچھ تو ایسی تھیں کہ انھیں گھریلو صنعتیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں کی معیشت زرعی اور طبقاتی ڈھانچہ مزارعوں ،چھوٹے مالک کسانوں ، بڑے اور درمیانے درجے کے جاگیرداروں کی مختلف پرتوں پر مشتمل تھا ۔
ہندوستان میں کسانوں کی انقلابی تحریکیں بیسویں صدی کے آغاز ہی میں ابھرنا شروع ہوگئی تھیں۔ ان تحریکوں میں سے کچھ تو سامراج مخالف حب الوطنی کے جذبات سے سرشار تھیں لیکن زیادہ تر بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک سے فکری اور تنظیمی طور پر متاثر تھیں۔بہت سی سیاسی، ثقافتی ،تاریخی ،سماجی اور معاشی وجوہات کی بنا پر سکھ کسان مسلمانوں،ہندووں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی نسبت زیادہ بڑی تعداد میں انقلابی نظریات اور تحریکوں سے متاثر ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی انقلابی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور تحریکوں کاجائزہ لیا جائے تو ان میں سکھ کارکن نسبتازیادہ تعداد میں ملتے ہیں۔ یہاں اس تاریخی حقیقت کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی۔پی۔آئی) نے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی تھی ۔اس بدیہی حقیقت کے باوجود کہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد مذہبی عقیدہ تھی، سی ۔پی۔آئی کا موقف تھا کہ قیام پاکستان کا مطالبہ دراصل قوموں کے حق خود ارادیت کے تسلیم شدہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے(قیام پاکستان کے بعد سی۔پی۔آئی نے مطالبہ پاکستان کی حمایت کے اس فیصلے کوپارٹی کا اجتماعی فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے انفرادی نکتہ نظر قرار دے کر اس سے اظہار لا تعلقی کر دیا تھا ) مطالبہ پاکستان کی حمایت کے اس فیصلے کی بنا پر سی ۔پی۔آئی کے بہت سے مسلمان کارکنوں نے پارٹی کی ہدایت پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور جب 1946 میں صوبائی انتخابات ہوئے تو پنجاب مسلم لیگ نے جو منشور پیش کیا وہ ایک کمیونسٹ بیرسٹر دانیال لطیفی ( 1917- 2000)نے لکھا تھا ۔ زرعی اصلاحات کو اس منشور میں بہت نمایا ں جگہ دی گئی تھی ۔مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں کمیونسٹ کارکن پنجاب کے مسلمان کسانوں کو یقین دلاتے رہے کہ قیام پاکستان کی صورت میں کسانوں کی ایک ایسی ’جنت‘ وجود میں آئے گی جہاں استحصال، نا انصافی اور دھونس دھاندلی کا نام و نشان نہیں ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ کہ کسانوں کو ہندو مہاجنوں کے مظالم ا ور زیادتیوں سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی ۔
قیام پاکستان کے وقت سی ۔پی۔آئی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوا تھا۔تاہم فروری 1948 کے اواخر میں سی۔پی۔آئی کی دوسری کانگریس منعقدہ کلکتہ (مغربی بنگال) ،جس میں موجود ہ پاکستان سے تین مندوب ۔۔ پروفیسرایرک سپرین(1911-1996)، محمد حسین عطا اور جمال الدین بخاری شریک ہوئے تھے، میں سی ۔پی ۔آئی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ معروف ادیب اور دانشور سید سجاد ظہیر ( -1973 1905)کو اس کانگریس میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان( سی۔پی۔پی) کا جنرل سیکرٹری مقرر کرتے ہوئے مسلم پس منظر کے حامل پارٹی کارکنوں جن میں سید سبط حسن(-1986 1912 ( اورمرزا اشفاق بیگ سر فہرست تھے، کو پاکستان جاکر پارٹی کی تشکیل و تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹانے کی ہدایت کی گئی تھی ۔
تاہم اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ملک جس کے قیام کی کمیونسٹ پارٹی نے حمایت کی تھی ،اس ملک میں اس کے لئے سیاسی سرگرمیوں کے تمام قانونی راستے بند کر دیئے گئے ۔ پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی وزیر اعظم لیاقت علی خاں(1895-1951)کی حکومت نے پارٹی جنر ل سیکرٹر ی سیدسجاد ظہیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کر د یئے تھے ۔ برطانوی سامراج سے ورثے میں ملی کمیونزم دشمنی پاکستان کی ریاستی مشینری کی ترجیحات میں سر فہرست تھی ۔کمیونسٹ پارٹی اور کمیونسٹ سیاسی کارکنوں سے بری طرح خوف زدہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت جبر و تشدد کا ہر حربہ آرمانے پر تلی ہوئی تھی ۔ ’پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا لہذا یہاں کسی ’غیر ملکی‘ نظریئے کا پرچار اور اس کے حوالے سے کسی تنظیم کا قیام پاکستان کے’ بنیادی نظریہ‘ اسلام سے متصادم تھا۔مسلمان ایک قوم ہیں یہاں طبقاتی تفریق ، لسانی اور ثقافتی تنوع کی بات کرنا اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے‘۔ یہ تھا وہ بیانیہ جو قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے اپنا یا ہو اتھا۔ ریاستی اور حکومتی پشت پناہی سے مذہبی سیاسی جماعتیں اور رجعتی پریس پاکستان میں ’ مکمل اسلامی نظام کے نفاذ‘ کے نعروں کی آڑ میں سماجی انصاف ، قانون کی حکمرانی اور جمہوری آزادیوں کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے میں ضرورت سے زیادہ سر گرم تھا۔ حکومتی پالیسیوں کے مخالفین کو’ لامذہب‘ اور ’پاکستان دشمن‘ قرار دے کر مطعون کیا جاتا تھا۔
9 ۔مارچ 1951کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایک سنسنی خیز بیان میں انکشاف کیا کہ فوجی افسران پر مشتمل ایک گروہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش ( بعدا زاں اس کو راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا ) تیار کی تھی جسے بر وقت کاروائی کر کے ناکام بنا دیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم کے بیان کے مطابق اس سازش میں فوج کے چند افسران کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنما، کارکن اور ہمدرد بھی ملوث تھے اور اس کا مقصد قانونی اور آئینی طور پر قائم حکومت کا خاتمہ تھا ۔انھوں نے الزام لگایا کہ ’سازشی عناصر متشدد طریقوں سے ملک میں مایوسی پھیلانا اور مسلح افواج کی وفاداریوں کو تبدیل کرنا چاہتے تھے‘۔مبینہ سازش میں ملوث ملزمان سازش کے مختلف پہلووں کی تفصیلات طے کرنے اور بعدازاں ان پر عمل درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کے لئے متعدد مرتبہ راولپنڈی میں اکٹھے ہوئے تھے۔فوجی افسران کے ساتھ جن سویلین افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سی۔پی۔پی کے جنرل سیکرٹری سید سجاد ظہیر ، معروف شاعر اور انگریزی اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر فیض احمد فیض((1911-1984اور معروف ٹریڈ یونین رہنما اور پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن محمد حسین عطا اور سازش کے سرغنہ میجر جنرل اکبر خان ( (1921-1993)کی بیوی نسیم اکبر خان شامل تھیں۔
راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے لئے ایک تین رکنی خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی جس کے سربراہ فیڈرل کورٹ کے جسٹس عبدالرحمان جب کہ ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جسٹس امیرالدین اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شریف اس کے ممبرز تھے ۔ خصوصی عدالت میں استغاثہ ملزموں کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کے باوجود سویلین ملزموں کو چار چار سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سنائی گئی جب کہ فوجی افسران کو مختلف المعیاد سزائیں دی گئیں جو تین سال سے سات سال تک تھیں۔سازش کے مبینہ سربراہ میجر جنرل اکبر خان کو سب سے زیادہ ۔۔ بارہ سال کی سزا سنائی گئی۔
راولپنڈی سازش کیس کی آڑ میں بائیں بازو کی سر گرمیوں کو دبانے کی جاری پالیسی کو مزید سخت کر دیا گیا لیکن تمام تر پابندیوں اور جبر کے باوجود کمیونسٹ اور ان کے ہمدرد دانشورپاکستان کی سیاست میں ثابت قدمی سے اپنا متحرک کردار ادا کرتے رہے۔ ان دنوں مشرقی بنگال، بلوچستان، صوبہ سرحد اور سندھ میں صوبائی مختاری کے لئے جاری تحریکوں میں کمیونسٹ پیش پیش تھے۔ مارچ 1951 میں جب مشرقی بنگال میں صوبائی انتخابات ہوئے تو متعددسیاسی جماعتوں نے مغربی پاکستان کے غلبے کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دیا تھا جس نے صوبائی اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے مختص 237 میں سے 223 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی تھی ۔متحدہ محاذ کی اس انتخابی جیت نے مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو بہت زیادہ خوف زدہ کردیا کیونکہ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ مشرقی بنگال کے عوام اب زیادہ دیر تک مغربی پاکستان کے سیاسی اور معاشی غلبے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے متحدہ محاذ کی انتخابی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ متحدہ محاذ اور کمیونسٹ پارٹی علیحدگی پسند تحریکوں کو مدد اور تعاون فراہم کرنے کی سازش میں ملوث ہیں اور ان کا مقصدپاکستان کی جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔یہی وہ سیاسی فضا تھی جس میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی اتحادی تنظیموں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین، ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پاکستان ٹریڈیونین فیڈریشن پر جولائی 1954 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ پارٹی اور اس کی اتحادی تنظیموں کے دفاتر سیل ، ریکارڈ، مطبوعات اور تمام اثاثے ضبط کر لیے گئے۔پورے ملک میں کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کے خلاف کریک ڈاون شروع ہوا اور درجنوں افراد کو پارٹی سے تعلق یا ہمدردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔عمومی طور پر سیاسی، سماجی اور ثقافتی محاذوں پر بائیں بازو کے کارکنوں کو ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ شروع ہو ا جو آ نے والی کئی دہائیوں تک جاری رہا تھا۔
سرد جنگ کی بدولت دنیا دو دھڑوں میں منقسم ہوچکی تھی ۔ امریکہ اور اس کے حواری ہر ملک اور ہر خطے میں بائیں بازو کا راستہ روکنے پر کمر بستہ ہوچکے تھے۔ چنانچہ پاکستان نے بائیں بازو کے خلاف جو تادیبی کاروائیاں کیں امریکہ نے ان کی بھرپور حمایت اور تعریف و تحسین کی تھی۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تیز ی سے بڑھنے لگے اور پاکستان1954 میں سیٹو او ر1955 میں بغداد پیکٹ میں شامل ہوگیا۔اکتوبر 1954میں پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے ملک فیروز خان نون(1893-1970 )کی سویلین مگر غیر منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا ۔
1950 کی دہائی میں یہ نکتہ نظر بہت مقبول تھا کہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک جن میں قومی سرمایہ داری مفقود اورجمہوری ادارے غیر متحرک اور جمہوری روایات مستحکم نہیں ہیں وہاں فو ج ہی ایک ایسا ریاستی ادارہ ہے جو ملک کو جدیدیت کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔اس دور میں چھپنے والے سیاسی لڑیچر میں یہ نکتہ نظر نمایاں طور پر موجود ہوتا تھا۔ فوج کے ذریعے معاشی و سماجی ترقی کا جو ماڈل ان دنوں پاپولر تھا جنرل ایوب خان کی حکومت اس پر پورا اترتی تھی ۔کمیونزم مخالفت کے نظریاتی فریم ورک میں رہتے ہوئے جنرل ایوب خان کی انتظامیہ نے صنعتی اور زرعی ترقی کے حصول کی پالیسی پر تیزی سے عمل درآمد شروع کیا تھا۔ایوب خان نے زرعی اصلاحات متعارف کرائیں لیکن ملکیت کی حد بہت زیادہ تھی ۔ مغربی پاکستان میں نہری زمین کی حد پانچ سو ایکٹر جب کہ بارانی زمین کی حد 1000 ایکڑ مقرر کی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں یہ حد 90ایکڑ سے بڑھا کر 300ایکڑ کر دی گئی تھی۔ ایوب خان کی زرعی اصلاحات کا مقصد جاگیرداری کا خاتمہ نہیں بلکہ خوشحال زمین داروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا تھا جو مراعات کے حصول کے لئے ریاست اور حکومت کی مدد کا محتاج رہے۔
پاکستان کی دفاعی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا بنیادی نقطہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس کی سکیورٹی کو بنیادی خطرہ بھارت سے ہے۔1962 کی چین بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے بھارت کی حمایت کی اور اسے اسلحہ کی سپلائی جاری رکھی تھی۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو اسلحہ سپلائی کرنے کی یہ پالیسی پاکستانی قیادت کے لئے ناقابل قبول تھی کیونکہ مضبوط بھارت ،اس کے مطابق پاکستان کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا تھا۔چنانچہ جب ستمبر 1965میں پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوئی تو چین نے پاکستان کی نہ صرف سیاسی حمایت کی تھی بلکہ اس نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہوئے بھارت کو دھمکی بھی دی تھی۔
یہی وہ حالات تھے جن میں جنرل ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے صرف امریکہ پر انحصار کرنے کی بجائے خارجہ تعلقات کے حوالے سے متباد ل حکمت عملی تشکیل دی تھی۔بھٹو کی تشکیل کردہ اس پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ پاکستان کو اپنے ہمسایہ عوامی جمہوریہ چین سے قریبی تعلقات قائم کرنا چاہئیں۔پاکستان کی طرف سے بڑھائے گئے دوستی کے ہاتھ کو چین نے آ گے بڑھ کر مضبوطی سے تھام لیا کیونکہ خود چین بھی خطے میں بالعموم اور اپنی سرحدوں پر بالخصوص بڑھتے ہوئے سوویت اثرات کی بدولت تشویش کا شکار تھا اور اس کی راہ میں روک لگانا چاہتا تھا۔چین اور پاکستان کے قریبی تعلقات کے ردعمل میں سوویت یونین نے بھارت سے خصوصی تعلقات کی داغ بیل ڈالی اور معاشی اور فوجی میدانوں میں اس کی بھرپور مدد کا آغاز کیا تھا ۔امریکہ کو پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر شک و شبہات تو تھے لیکن اس کے پالیسی ساز وں کے نزدیک ایک بڑے مقصد۔ سوویت یو نین کو اس خطے سے دور رکھنے میں ۔یہ دوستی ممد و معاون ثابت ہو سکتی تھی۔
1960کے اوائل میں سوویت یونین اور چین کے مابین کئی سالوں سے جاری سیاسی اور نظریاتی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ۔ ان دونوں کے باہمی اختلافات کے اثرات بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک پر بھی مر تب ہوئے اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی تقسیم کا شکار ہوگئی۔مشرقی یورپ سے باہر کم و بیش سبھی ممالک میں کمیونسٹ پر و چین اور پرو سوویت یونین پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے۔پرو سوویت کمیونسٹ پارٹیاں سوشلسٹ نظام کے حصول کے لیے پر امن سیاسی جد وجہداورپارلیمانی جمہوریت کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی وکالت کرتی تھیں جب کہ پرو چین پارٹیوں کا بیانیہ زیادہ متشدد اور بعض صورتوں میں مسلح جدو جہد اور عسکریت پسندی کی حمایت پر مبنی ہوتا تھا۔ بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں ابھرنے والی تفریق میں قوم پرستی اور حب الوطنی کے تقاضوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا یہی وجہ ہے کہ اگر کسی ملک کے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوتے تو اُس ملک میں چین نواز کمیونسٹ پارٹی کے لئے یہ لازمی خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بین الاقوامی امور میں اُس ملک کے عمومی سیاسی موقف کی حمایت کرئے اور حکومت بھی بدلے میں چین نواز پارٹی کو سیاسی کام کرنے کی آزادی دیتی تھی اور اگر کسی ملک کے تعلق سوویت یونین کے ساتھ اچھے اور خوش گوار ہوتے تواُ س ملک میں سوویت نواز پارٹی کے سیاسی کام کی راہ میں بہت کم رکاوٹیں کھڑی کی جاتی تھیں۔ چنانچہ یہی وجہ تھی جس کی بنا پر پاکستان میں پرو سوویت یونین کا مطلب غیر محب وطن اور قومی مفادات سے متصاد م خیال کیا جاتا تھا جب کہ چین نواز ہونے کا مطلب ایسا کچھ نہیں تھا ۔بھارت میں صورت حال اس سے بالکل بر عکس تھی۔ وہاں پرو سوویت یونین ہونے کا مطلب ’بھارت کی ریاست کے وسیع تر مفادات سے ہم آ ہنگ ‘ سمجھا جاتا تھا جب کہ پرو چین( ماؤ سٹ ) سیاسی گروپس اور افراد’ بھارت کی ریاست کے لئے خطرہ ‘ خیال کئے جاتے تھے۔
چین اور پاکستان کے مابین تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات کی بدولت پاکستان میں نئی طرز کی انقلابی سیاست جس کا خمیر ماؤ سٹ نظریات سے اٹھا تھا، کے پھیلاو اور ترقی کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ فکر ماوزے تنگ میں کسان انقلاب کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ پاکستانی ماؤسٹوں نے کسان انقلاب کے ماؤسٹ نظریئے اور سوویت یونین کی مخالفت کو باہم لازم ملزوم قرار دے دیا تھا ۔ ماؤسٹوں کا موقف تھا کہ امریکہ سامراج ہے اور سوویت یونین سوشل سامراج اور ان دونوں کی بیک وقت مخالفت ’سوشلسٹ انقلاب‘ کے لئے ضروری ہے۔ سوویت یونین کی مخالفت اور بھارت دشمنی کے باہمی اختلاط سے ایک ایسا نظریاتی ملغوبہ تیار کیا گیا جو تضادات اور فکری ژولیدگی کا شاہکار تھا۔ پاکستانی ریاست کو ماوسٹوں کے نظریاتی مباحث اور ان کی سیاسی سرگرمیوں سے اس وقت تک کو ئی تشویش نہیں تھی جب تک وہ چھوٹے چھوٹے گروپوں اور ٹولیوں میں منقسم تھے ۔
1965 کی جنگ کے بعد وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو( 1928-1979) اور صدر جنرل ایوب خان) 1907-1974)کے مابین اختلافات پید ا ہوگئے جو بھٹو کے کابینہ سے مستعفی ہونے کا باعث بنے تھے( جنرل ایوب خان نے اپنی ڈائیری میں دعوی کیا ہے کہ بھٹو نے از خود نہیں بلکہ انھوں نے اُن سے استعفی طلب کیا تھا ) ۔ مستعفی ہونے کے بعد بھٹو پوری قوت سے پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر نمودار ہوئے اور انھوں نے اپنے سابق سیاسی مربی کے خلاف ایک ہمہ گیر سیاسی تحریک کا آ غاز کیا جس کے اہداف سے صاف نظر آ رہا تھا کہ بھٹو اقتدار سے کم کسی بات راضی نہیں ہوں گے۔
بھٹو نے 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جو جلد ہی دانشوروں، وکلا، صحافیوں ، طلبا ،مزدروں اور کسانوں کی سیاسی اور سماجی امیدوں کا مرکز بن گئی۔ملک کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں سے لوگ بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔یہی وہ سیاسی فضا تھی جس میں بہت سے ماؤ نواز اور انقلابی ٹریڈیونین رہنما ؤ ں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں اور جد وجہد کے لئے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا ۔پیپلز پارٹی کا سیاسی نظریہ ماؤ ازم سے مستعار اصطلاحات سے مزین انقلابی لفاظی، بھارت مخالف قوم پرستانہ نعرے بازی، جمہوریت اور اسلامی سوشلزم کے تال میل سے تشکیل دیاگیا تھا۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں تھی کہ ماؤنواز عناصر پیپلز پارٹی کے اندر اسلامی سوشلزم کی تعبیر و تفسیر کے حوالے سے اختلافی نکتہ نظر رکھتے تھے۔پیپلز پارٹی کی نظریاتی پوزیشن اور ماؤ نواز عناصر کے نکتہ نظر میں اختلاف کی بدولت نہ صرف پارٹی کے داخلی حلقو ں میں انتشار و افتراق نے جنم لیا بلکہ ملک میں بائیں بازو کی عمومی سیاست میں بھی کنفیوژن کا باعث بنا تھا ۔ ماؤ نواز بضد تھے کہ اسلامی سوشلزم سے مراد ایک ہمہ گیر سماجی معاشی اور سیاسی انقلاب ہے جبکہ پارٹی کے اعتدال پسند عناصر کے نزدیک اس کا مقصد اسلامی اصولوں کی روشنی میں سماجی انصاف کا حصول تھا۔ پیپلز پارٹی میں داخلی طور پر اسلامی سوشلزم بارے جاری نظریاتی بحث و تمحیص سے قطع نظر روایتی مولوی حضرات اور ان کے زیر اثر صاحب ثروت طبقات نے پارٹی کے خلاف زبردست اور طاقتور مہم شروع کی جس کا خصوصی ٹارگٹ اسلامی سوشلزم کا تصور تھا ۔
دسمبر 1970 میں ہوئے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمن(1920-1975) کی قیادت میں پارلیمنٹ کی 300میں سے 162 نشستیں جیت کر اکثریت حاصل کر لی مگر پارلیمانی اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی فوج اور سیاسی قیادت نے اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ فوجی حکومت، عوامی لیگ اور پارلیمنٹ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے مابین اقتدار کی منتقلی کے لئے مذاکرات کے متعدد دور ہوئے لیکن بوجوہ کامیابی سے ہمکنا ر نہ ہوسکے ۔ 26 ۔مارچ 1971 کو فوج نے پوری تیاری اور قوت سے فوجی آپریشن شروع کیا جس کا مقصد بنگالی عوام کی بغاوت کو کچلنا اور پاکستانی ریاست کی رٹ کی بحالی بتایا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کی طرف سے شروع ہونے والا یہ آپریشن طویل خانہ جنگی کا موجب بنا ۔ پاکستان کی فوج اور بنگالی مزاحمتی دستوں کی اس جنگ میں بھارت کی مسلح افواج نے مداخلت کی جس کی بنا پر پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوگیا۔16 دسمبر1971 میں پاکستان کی مشرقی فوجی کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اے۔اے۔کے نیازی نے ہتھیار ڈال دیئے اور مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے نمودار ہوا ۔
قیام بنگلہ دیش کے بعد ’نیا‘ پاکستان مغربی پاکستان تک محدود ہوگیا اور اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو منتقل ہوا تھا۔پیپلز پارٹی کے بر سر اقتدار آنے سے ماؤ نواز عناصر کو حوصلہ ملا اور امید دلائی کہ سیاسی میدان میں آگے بڑھنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ یہی وہ مائینڈ سیٹ
تھا جس کے زیر اثر 1972 میں پیپلز پارٹی کے تنظیمی فریم ورک میں رہتے ہوئے ماؤ نواز ٹریڈ یونین رہنماؤ ں نے اپنی انقلابی سرگرمیوں کو تیز کردیا تھا ۔ پنجاب اور سندھ کے متعدد صنعتی مراکز میں ماؤ نواز ٹریڈ یونین رہنماؤ ں کی قیادت میں مزدوروں نے کارخانوں کے گھیراؤ اور قبضے کی مہم چلائی تھی۔ مزدوروں نے صنعتی اداروں کو چلانے کے لئے اپنی انتظامی کمیٹیاں تشکیل دیں اور بعض اداروں اور مزدور کالونیوں میں تو اپنی’ انتظامیہ ‘ تک قائم کر لی جو امن و امان ، میونسپل خدمات اور فوری انصاف فراہم کرنے کی ذمہ دار تھی۔ اس دوران ماؤ نواز گروپوں کی کسانوں میں جاری سرگرمیوں کو کچلنے کے لئے بھٹو حکومت نے سخت اقداما ت کرنے کے احکامات دے دیئے ۔
1960کی دہائی کے وسطی سالوں میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کی بائیں بازو کی طرف رحجا ن رکھنے والی پاپولسٹ سیاست اپنے عروج پر تھی ۔ پیپلزپارٹی کے کارکنو ں کی ایک قابل لحاظ تعداد اور کچھ رہنما جن میں معراج محمد خان (1938-2016) نمایاں تھے ،کی ماؤ ازم سے نظریاتی ہمدردی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ یہ وہ سال تھے جن کے دوران نظریاتی طور پر کٹر پنتھی ماؤسٹوں نے مزدور یونینوں اور تعلیمی اداروں میں اپنے اثر ونفوذ کو بڑھایا اور مستحکم کیا تھا ۔پی۔آئی۔اے ملازمین کی یونین پر ماؤ سٹوں کا قبضہ بہت مضبوط تھا اور ان کی طلبا تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن ( این۔ایس۔ایف) کراچی یونیورسٹی کے طالب علموں میں بہت مقبول تھی۔ پنجاب میں فکر ماوزئے تنگ کی داعی نیشنلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( این۔ایس۔او)تعلیمی اداروں میں متحرک تھی۔چند صنعتی مراکز ،چھوٹے شہروں اور قصبوں میں موجود ماؤ نواز کارکنوں نے سی۔آر۔اسلم ( 2007 1915-)اور عابد حسن منٹو کی قیادت میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی (27-28 فروری 1972 ) قائم کی تھی. تاہم پاکستان سوشلسٹ پارٹی نظریاتی طور پر ماؤ نواز پارٹی نہیں تھی۔بائیں بازو کے وہ کارکن جو ماؤ ازم اور کسان تحریک سے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے، نے مزدور کسان پارٹی قائم کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔
مزدو کسان پارٹی 1968 میں قائم ہوئی تھی۔ یہ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی میں ہونے والی پرو سوویت اور پرو چین تقسیم کی پیداوار تھی۔نیپ کے پرو سوویت گروپ کی قیادت سرحدی گاندھی عبدالغفار خان) (1890-1988کے فرزند عبدا لولی خان) 1917-2006)کے پاس تھی جب کہ پر و چین گروپ کے سربراہ مولانا عبد الحمید خان بھاشانی) 1880-1976)تھے۔ مغربی پاکستان کے ماؤ سٹوں نے جلد ہی نیپ( ولی خان گروپ )سے علیحدہ ہوکر افضل بنگش (1986۔(1924 جو خود بھی ولی خان کی طرح پشتون تھے ،کی قیادت میں مزدور کسان پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔1970میں میجر اسحاق محمد نے بھی اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں مزدور کسان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
مزدور کسان پارٹی نے ویسے تو ملک میں متعدد چھوٹی چھوٹی کسان تحریکیں منظم کیں اور ملک میں بالعموم اور پنجاب و صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں بالخصوص کسانوں کو جاگیرداروں کے خلاف متحرک کیا تھا لیکن اس کی کسان تحریک کا بڑا مرکز پشتونوں کا صوبہ سرحد تھا ۔ پاکستان میں پشتون ہی ایک ایسی قومیت تھی جس کے سبھی طبقات میں آتشیں اسلحہ رکھنے کی مظبوط ثقافتی روایت موجود تھی۔آتشیں اسلحے کی فراوانی کی بدولت کسانوں اور جاگیرداروں کے مابین متعدد مسلح تصادم ہوئے جو 1960کی دہائی کے اواخر اور 1970کے ابتدائی سالوں تک جاری رہے ۔کسانوں کی یہ مسلح جد وجہد نہ صر ف جنرل یحیی خان کے فوجی دور حکومت میں بلکہ 1972 میں ولی خان نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں بھی جاری رہی تھی۔ یہ وہی دور تھا جب مرکز ،پنجا ب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں تھیں۔
خوانین کی حامی نیپ اور جمیعت کی مخلوط حکومت نے مزدور کسان پارٹی کے رہنما ؤں کے وارنٹ گرفتار ی جاری کر دیئے جس کی بنا پر پارٹی قیادت کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے زیر زمین جاناپڑا تھا۔ کسانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین اس دوران سب سے بڑا معرکہ جولائی 1971میں مندانی کے مقام پر پیش آیا تھا۔ غیر معمولی طور پر مسلح 1500 افراد پر مشتمل پولیس کے دستے کا مزدور کسان پارٹی کے غریب اور زمین سے محروم کارکنوں کا ٹاکرا ہوا جس میں فریقین کو جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب 800کے قریب پولیس اور ملیشیا کے جوانوں کا مزدور کسان پارٹی کے کارکنوں سے مسلح تصاد م ہوا تھا۔ ان کسان بغاوتوں کی بدولت مزدور کسان پارٹی صوبہ سرحد کے علاقہ دہشت نگر میں تقریبا دو سو مربع کلو میٹر کا علاقہ ’آزاد‘ کر والیا اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ایسی ہی تحریکوں اور بغاوتوں کو حوصلہ اور قوت بخشی ۔
مزدور کسان پارٹی نے صوبہ سرحد کی طرح مغربی اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بھی جہاں بڑی بڑی جاگیرداریاں موجود تھیں کسانوں کو منظم اورمتحرک کیا تھا۔تاہم صوبہ سرحد کے برعکس پنجاب میں مزدور کسان پارٹی کے غیر مسلح کارکن اور کسان ریاستی اداروں کا مقابلہ نہ کرسکے اور جلد ہی ان کی مزاحمت دم توڑ گئی ۔کسان تحریک کی ناکامی کا نتیجہ مزدور کسان پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور تشدد کی صورت میں سامنے آیا تھا ۔جولائی 1977میں جنرل ضیا ء الحق نے اسمبلیوں کو تحلیل اور بھٹو حکومت کو برخاست کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا ۔ جنرل ضیا ء الحق کے بر سر اقتدارآنے سے رجعت پسندی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس نے پاکستان کی سیاسی اور سماجی بنیادوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ۔دسمبر 1979میں افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد سے پاکستان نے امریکہ کے خفیہ ادارے سی ۔آئی۔اے کے مالی اور فوجی تعاون سے جس جہاد کا آغاز کیا تھا اس نے پختون سماج کی تقربیا سبھی سماجی پرتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پختون نوجوان ہاتھ میں بندوق اور کاندھے پر میزائل لٹکائے عسکریت پسندی کی ایسی راہ پر چل نکلا جس کا منطقی انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ۔جنرل ضیا ء الحق کی فوجی حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ میں تو ’ جہاد‘ کی آڑ میں اپنے جابرانہ سیاسی اقدامات کوجواز فراہم کرتی جب کہ ملک کے دوسرے صوبوں اور علاقوں میں بائیں بازو کی تنظیموں اور نظریات کو اسلامائزیشن کے نام پر دیوار سے لگانے پر عمل پیر ا تھی۔
مزدور کسان پارٹی ایک سامراج دشمن پارٹی تھی جس کے دروازے ترقی پسند نظریات کے حامل افراد کے لئے کھلے تھے۔ایم۔کے۔پی کی قیادت آزمودہ کمیونسٹ نظریہ دانوں ،ٹریڈ یونین رہنماوں،کسان تحریک سے وابستہ کارکنوں اور نچلی سماجی پرتوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھی۔مزدور کسان پارٹی نظریاتی طور پر چین سے وابستگی کا اظہار کرتی اور بین الاقوامی امور اور پاکستان میں انقلاب کی راہ عمل کے حوالے سے چین سے رہنمائی حاصل کرنے پر یقین رکھتی تھی۔ مزدور کسان پارٹی کے نزدیک مارکس ازم ، لینن ازم اور فکر ماوزے تنگ کے نظریاتی ہتھیار سے لیس کسان اور مزدور پاکستانی انقلاب کا ہراول دستہ تھے ۔ پارٹی قائد میجر اسحاق محمد ( -1982 1921 ( اپنی تحریروں جو پارٹی کے ترجمان رسالے میں باقاعدگی سے شایع ہوتی تھیں دیہی عوام بالخصوص کھیت مزدروں اور کمیوں پر ہونے والے سماجی اور معاشی ظلم و ستم کو نمایا ں کرتے اور سوشلسٹ انقلاب کو ان کے تمام تر مسائل کا حل سمجھتے تھے۔ میجر اسحاق محمد کا قابل ذکر ادبی کارنامہ ان کے پنجابی میں لکھے ہوئے ڈراموں( مصلی اور ققنس) کو سمجھا جاتا ہے جن میں انہوں نے پنجاب کے دیہی سماج کے پست ترین سماجی پرت مصلیوں کی زندگی اور سماجی و معاشی انصاف کے لئے ان کی جدو جہد کو اجاگر کیا گیاتھا۔ مزدور کسان پارٹی کی پنجاب شاخ میجر اسحاق محمد کی زیر قیادت چین کے تتبع میں نہ صرف بھارت مخالف تھی بلکہ سوویت یونین کو سوشل سامراج قرار دیتے ہوئے اس کی پالیسیوں کی تنقیدو تنقیص میں پیش پیش رہتی تھی۔ پنجاب کے برعکس مزدورکسان پارٹی کا افضل بنگش(1986۔ 1924)گروپ جو صوبہ سرحد میں متحرک تھا، نظریاتی حوالے سے زیادہ عملیت پسند تھا اور سوویت یونین کی مخالفت سے عمومی طور پر گریز کرتا تھا ۔ تاہم نظریاتی اختلافات کے باوجود جب اپریل 1978میں نور محمد ترکئی ( -1979 1917 )کی قیادت میں کمیونسٹوں نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تو پارٹی کے تمام دھڑوں نے یک زبان ہو کر اس کی تائید و حمایت کی تھی اور اسے ترقی پسند انقلاب سے تعبیر کیا تھا۔مزدور کسان پارٹی کی طرف سے افغان انقلاب کی حمایت اور ضیا آمریت کی مخالفت وہ عوامل تھے جن کی بنا پر فوجی حکومت نے پارٹی کے خلاف انتقامی کاروائیاں تیز کردیں اور پارٹی قیاد ت کے ایک حصے کو پابند سلاسل کیا گیا۔
1970 کی دہائی کے اواخر میں میجر اسحاق محمد اور افضل بنگش کے مابین اختلافات پید ا ہوگئے ۔ ان اختلافات کی نوعیت جیسا کہ اکثر ہوتا ہے نظریاتی سے زیادہ شخصی تھی۔ ان کے باہمی اختلافات کے اثرات قدرتی طورپر مزدور کسان پارٹی کی تنظیم پر بھی مرتب ہوئے اور شدید داخلی اختلافات کی بنا پر پارٹی ایک سے زائد دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ ایک دھڑے کی قیادت میجر اسحاق محمد جب کہ دوسرے کی افضل بنگش کررہے تھے۔دونوں دھڑے ایک دوسرے کو محنت کشوں کی تحریک سے غداری،موقع پرستی اور نظریاتی شکست خوردگی کا الزام دیتے تھے۔
ستمبر 1976میں ماوزے تنگ کی وفات کے بعدچین نے انقلابی راہ کو چھوڑ دیا اور دنیا بھر میں موجود چین نواز کمیونسٹ پارٹیوں اور گروپوں کے سر سے اپنا دست شفقت اٹھا کر ان سے فاصلے بڑھانے شروع کرد یئے تھے ۔چین کی نظریاتی تبدیلی دنیا بھر میں ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹیوں اور گروپوں میں بہت زیادہ بددلی اور مایوسی کا باعث بنی تھی ۔ پاکستان کے ماؤ نواز دھڑوں پر چین میں ہونے والی نظریاتی اور سیاسی تبدیلیوں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور مایوسی اور بددلی نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا ۔پاکستانی ریاست سرمایہ دارانہ جمہوریت کے عمومی اصولوں کا احترام کرنے سے بھی گریزاں تھی اور فکری کشادگی اور نظریاتی تنوع کی چھوٹی سی چھوٹی لہر کو بھی دبانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔ پاکستان کے عوام اور د انشوروں میں فکر ماوزے تنگ کی مقبولیت کا عرصہ بہت محدود ہے اور یہ انہی چند سالوں پر محیط ہے جب ذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف سیاسی تحریک چلائی تھی اور بعد ازاں جب وہ بر سر اقتدار آئے تھے۔ بھٹو کو خود کو ماوزے تنگ کا ’ چیلا‘ کہلانے پر فخر کیا کرتے تھے اور چین سے خصوصی تعلقات قائم کرنے میں پر جوش سمجھے جاتے تھے۔ لیکن 1980 کی دہائی کے آتے آتے یہ سب کچھ بدل چکا تھا اور فکر ماوزے تنگ اور ماؤ نواز سیاسی تنظیموں کا ابھار قصہ پارینہ بن چکا تھا۔
ماؤ نواز چھوٹے چھوٹے گروپوں اور ٹولیوں کی صورت موجود تو رہے لیکن ان کی ملک گیر تنظیم اب کوئی نہیں تھی۔مزدور کسان پارٹی جو ایک وقت میں ماو نواز سیاسی گروپوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھی اب کئی دھڑوں میں بٹ چکی تھی۔ تنظیمی اختلافات کے باوجودماؤ نواز اب بھی ماوزے تنگ کے نظریات کی روشنی میں کسان انقلاب کے داعی تھے ۔ مزدروں اور کسانوں کے حقوق کے حصول اور تحفظ کے لئے ماؤ نواز دھڑوں نے بائیں بازو کے دیگر گروپوں اور جمہوری قوتوں کے ساتھ تعاون اور اشتراک عمل جاری رکھا لیکن ان میں اپنے نظریات اور تحریک کے حوالے سے وہ جوش و جذبہ مفقود ہوچکا تھا جو ماضی میں ان کی تنظیموں کی اہم خصوصیت ہو ا کرتاتھا۔ گذشتہ چند سالوں میں ماؤ نواز گروپوں اور افراد نے ملٹری فارمز کے مزارعوں کی تحریک مزاحمت میں ضرورحصہ لیا لیکن موجود ہ پاکستان کی سیاست میں ماؤ ازم اب قابل ذکر سیاسی و نظریاتی قوت نہیں رہا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے لئے تنبیہی قرارداد کا اردو ترجمہ

یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین، عدم برداشت، غیر تسلی بخش عدالتی نظام، حالیہ فرانس مخالف احتجاج وغیرھم کے حوالے سے پاکستان کے خلاف ایک قرارداد پاس

مزید پڑھیں »

کیا عراق میں نکاح متعہ کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ واقعی حقائق پر مبنی ہے؟

تحریر: شیخ محمد الحلی ، ترجمہ: نور درویش بچوں کے ساتھ زیادتی کے انکشافات نے کیتھولک چرچ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس نے نہ صرف دنیا بھر کی

مزید پڑھیں »

حلقۂِ اربابِ ذوق اسلام آباد میں علامہ اقبال پر پرویز ہود بھائی کے لیکچر کا مکمل متن

ترجمہ: سلمیٰ صدیقی میں بات یہاں سے شروع کرتا ہوں کہ ہم سب فخر کرتے ہیں کہ ہم بت شکن ہیں۔ ایک ہزار سال سے ہم بت توڑتے آئے ہیں۔

مزید پڑھیں »