Qalamkar Website Header Image

پانی کا درخت۔ (حصہ اول) کرشن چندر

جہاں ہمارا گاؤں ہے اس کے دونوں طرف پہاڑوں کے روکھے سو کھے سنگلاخی سلسلے ہیں۔ مشرقی پہاڑوں کا سلسلہ بالکل بے ریش و برودت ہے۔ اس کے اندر نمک کی کانیں ہیں۔ مغربی پہاڑی سلسلے کے چہرے پر جنڈ، بھیکڑ، املتاس ا ور کیکر کے درخت اُگے ہوئے ہیں۔ اس کی چٹانیں سیاہ ہیں لیکن ان سیاہ چٹانوں کے اندر میٹھے پانی کے دو بڑے قیمتی چشمے ہیں، اور ان دو پہاڑی سلسلوں کے بیچ میں ایک چھوٹی سی تلہٹی پر ہمارا گاؤں آباد ہے۔ ہمارے گاؤں میں پانی بہت کم ہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔  میں نے اپنے گاؤں کے آسمان کو تپتے ہوئے پایا ہے، یہاں کی زمین کو ہانپتے ہوئے دیکھا ہے اور گاؤں والوں کے محنت کرنے والے ہاتھوں اور چہروں پر ایک ایسی ترسی ہوئی بھوری چمک دیکھی ہے جو صدیوں کی نا آسودہ پیاس سے پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں کے مکان اور آس پاس کی زمین بالکل بھوری اور خشک نظر آتی ہے۔ زمین میں باجرے کی فصل جو ہوتی ہے اس کا رنگ بھی بھورا بلکہ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ یہی حال ہمارے گاؤں کے کسانوں اور ان کے کپڑوں کا ہے۔ صرف ہمارے گاؤں کی عورتوں کا رنگ سنہری ہے کیونکہ وہ چشمے سے پانی لاتی ہیں۔

بچپن ہی سے میری یادیں پانی کی یادیں ہیں۔ پانی کا درد اور اس کا تبسم اس کا ملنا اور کھو جانا۔ یہ سینہ اس کے فراق کی تمہید اور اس کے وصال کی تاخیر سے گودا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں بہت چھوٹا سا تھا دادی اماں کے ساتھ گاؤں کی تلہٹی کے نیچے بہتی ہوئی رویل ندی کے کنارے کپڑے دھونے کے لیے جایا کرتا تھا۔ دادی اماں کپڑے دھوتی تھیں میں انہیں سکھانے کے لیے ندی کے کنارے چمکتی ہوئی بھوری ریت پر ڈال دیا کرتا تھا۔ اس ندی میں پانی بہت کم تھا۔ یہ بڑی دبلی پتلی ندی تھی۔ چھریری اور آہستہ خرام جیسے ہمارے سردار پیندا خان کی لڑکی بانو۔ مجھے اس ندی کے ساتھ کھیلنے میں اتنا ہی لطف آتا تھا۔ جتنا بانو کے ساتھ کھیلنے میں۔ دونوں کی مسکراہٹ میٹھی تھی، اور مٹھاس کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جو میری طرح نمک کی کان میں کام کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہماری رویل ندی سال میں صرف چھ مہینے بہتی تھی، چھ مہینے کے لیے سوکھ جاتی۔ جب چیت کا مہینہ جانے لگتا تو ندی سوکھنا شروع ہو جاتی اور جب بیساکھ ختم ہونے لگتا تو بالکل سوکھ جاتی، اور پھر اس کی تہہ پر کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے نیلے پتھر رہ جاتے یا نرم نرم کیچڑ جس میں چلنے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ریشم کے دبیز غالیچے پر گھوم رہے ہوں۔ چند دنوں میں ہی ندی کا کیچڑ بھی سوکھ جاتا اور اس کے چہرے پر باریک درزوں اور جھریوں کا جال پھیل جاتا، کسی محنتی کسان کے چہرے کی طرح اس کے ہونٹوں پر خشک پپڑیاں جم جاتیں اور ایسا معلوم ہوتا جیسے اس کی گرم گداز ریت نے سالہا سال سے پانی کی ایک بوند نہیں چکھی۔

مجھے یاد ہے پہلی بار جب میں نے ندی کو اس طرح سوکھتے ہوئے پایا تھا تو بے کل، بے چین اور پریشان ہو گیا تھا، اور رات سو بھی نہ سکا تھا۔ اس رات دادی اماں مجھے بہت دیر تک گود میں لے کر عجیب عجیب کہانیاں سناتی رہیں اور ساری رات دادی اماں کی گود میں لیٹے لیٹے مجھے رویل ندی کی بہت سی پیاری باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کا ہولے ہولے پتھروں سے ٹھمکتے ہوئے چلنا، اور پتھروں کے درمیان سے اس کاذرا تیز ہونا اور کترا کر چلنا، جیسے کبھی کبھی بانو غصے میں گلی کے موڑ پر سے تیزی سے نکل جاتی ہے او ر جہاں دو پتھر ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے تھے وہاں میں اور بانو باجرے کی ڈنڈیوں کی بنی ہوئی پن چکی لٹکا دیتے تھے اور گیلا آٹا پساتے تھے۔ پن چکی ندی کی آہستہ خرامی کے باوجود کیسے تیز تیز چکر لگا کر گھومتی تھی اور اب یہ ندی سوکھ گئی۔

ان  باتوں کو یاد کر کے میں نے دادی اماں سے پوچھا:

یہ بھی پڑھئے:  بدلتے سماجی روابط اور ہمارا ادب - حصہ دوم | ڈاکٹر ابرار احمد

دادی اماں یہ ہماری ندی کہاں چلی گئی….؟

زمین کے اندر چھپ گئی۔

کیوں….؟سورج کے ڈر سے

کیوں ….؟یہ سورج سے کیوں ڈرتی ہے….؟سورج تو بہت اچھا ہے۔

سورج ایک نہیں ہے  بیٹا۔ دو سورج ہیں۔ ایک تو سردیوں کا سورج ہے۔ وہ بہت اچھا اور مہربان ہوتا ہے۔ دوسراسورج گرمیوں کا ہے۔ یہ بڑا تیز چمکیلا اور غصے والا ہوتا ہے، اور یہ دونوں باری باری ہر سال ہمارے گاؤں میں آتے ہیں۔

جب تک  سردیوں کا سورج رہتا ہے ہماری ندی اس سے بہت خوش رہتی ہے، لیکن جب گرمیوں کا ظالم سورج آتا ہے تو ہماری ندی کے جسم سے اس کا لباس اتارنا شروع کرتا ہے۔ ہر روز کپڑے کی ایک تہہ اترتی چلی جاتی ہے اور جب بیساکھی کا آخری دن آتا ہے تو ندی کے جسم پر پانی کی ایک پتلی سی چادر رہ جاتی ہے۔ اس رات کو ہماری ندی شرم کے مارے زمین پر چھپ جاتی ہے اور انتظار کرتی ہے سردیوں کے سورج کا جو اس کے لئے اگلے سال پانی کی نئی پوشاک لائے گا۔

میں نے آنکھ جھپکتے ہوئے کہا:سچ مچ گرمیوں کا سورج تو بہت برا ہے۔

لو اب سوجاؤ بیٹا۔ مگر مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس لئے میں نے ایک اور سوال پوچھا۔ ‘‘دادی یہ ہمارے نمک کے پہاڑ کا پانی کیوں کڑوا ہے۔ ’’

ہمارے گاؤں میں بچے پانی کے لیے بہت سوال کرتے تھے۔ پانی ان کے تخیل کو ہمیشہ اکساتارہتا ہے۔ دوسرے گاؤں میں، جہاں پانی بہت ہوتا ہے، وہاں کے لڑکے شاید سونے کے جزیرے ڈھونڈتے ہوں گے یا پرستان کا راستہ تلاش کرتے ہوں گے لیکن ہمارے گاؤں کے بچے ہوش سنبھالتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اور تلہٹی پر اور پہاڑی پر اور دور دور تک پانی کو ڈھونڈنے کا کھیل کھیلتے ہیں، میں نے بھی اپنے بچپن میں پانی کو ڈھونڈا تھا اور نمک کے پہاڑ پر پانی کے دو تین نئے چشمے دریافت کئے تھے۔ مجھے آج تک یاد ہے میں نے کتنے چاؤ اور خوشی سے پانی کا پہلا چشمہ ڈھونڈا تھا، کس طرح کا نپتے ہوئے ہاتھوں سے میں چٹانوں کے درمیان سے جھجکتے ہوئے پانی کو اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں کا سہارا دے کر باہر بلایا تھا اور جب میں پہلی بار اسے اوک میں لیا تو پانی میرے ہاتھ میں یوں کانپ رہا تھا جیسے کوئی گرفتار چڑیا بچے کے ہاتھوں میں کانپتی ہے۔ پھر جب میں اسے اوک میں بھر کر اپنی زبان تک لے گیا تو مجھے یاد ہے میری کانپتی ہوئی خوشی کیسے تلخ بچھو میں تبدیل ہو گئی تھی۔ پانی نے زبان پر جاتے ہی بچھو کی طرح ڈنک مارا اور اس کے زہر نے میری روح کو کڑوا کر دیا۔ میں نے پانی تھوک دیا اور پھر کسی نئے چشمے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، لیکن نمک کے پہاڑ پر مجھے آج تک میٹھا چشمہ نہ ملا۔ اس لئے جب ندی سوکھنے لگی تو میٹھے چشمے کی یاد نے مجھے بے چین کر دیا۔ اور میں نے دادی اماں سے پوچھا:

‘‘دادی ماں یہ نمک کے پہاڑ کا پانی کڑوا کیوں ہے….؟’’

دادی اماں نے کہا۔ ‘‘یہ تو ایک دوسری کہانی ہے۔ ’’ ‘‘تو سناؤ۔ ’’

‘‘نہیں اب سو جاؤ۔ ’’ میں چیخا:‘‘نہیں سناؤ۔ ’’

‘‘اچھا بابا سناتی ہوں، مگر تم اب چیخو گے نہیں۔ ’’

‘‘نہیں’’

‘‘اور نہ ہی بیچ بیچ میں ٹوکو گے۔ ’’ ‘‘نہیں’’

‘‘اچھا تو سنو۔ یہ تم اس طرف نمک کی پہاڑی جو دیکھتے ہو یہ پرانے زمانے میں ایک عورت تھی جو اس پہاڑ کی بیوی تھی، جہاں آج کل میٹھے پانی کا چشمہ ہے۔ ’’ ‘‘پھر….؟’’

‘‘پھر ایک روز دیووں میں بڑی جنگ چھڑی اور یہ سامنے پہاڑ بھی جو اس عورت کا خاوند تھا، جنگ میں بھرتی ہو گیا اور بیوی کو پیچھے چھوڑ گیا اور اسے کہہ گیا کہ وہ اس کے آنے تک کہیں نہ جائے، نہ کسی سے بات کرے، صرف اپنے گھر کا خیال کرے۔ ’’

اچھا

ہاں۔ پھرکئی سال تک بیوی اپنے دیو خاوند کا انتظار کرتی رہی لیکن اس کا خاوند جنگ سے نہ لوٹا۔ آخر ایک دن اس کے گھر میں ایک سفید دیو آیا اور اس پر عاشق ہو گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  احمد فرازؔ کی کہانی ان کی زبانی

‘‘عاشق کیا ہوتا ہے۔ ’’ دادی اماں رک گئیں، بولیں:‘‘تو نے پھر ٹوکا۔ ’’

میں نے دل میں سوچا:دادی اماں اگر خفا ہو گئیں تو باقی کہانی سننے کو نہیں ملے گی اور کہانی اب دلچسپ ہوتی جا رہی ہے اس لیے چپکے سے سن لینا چاہیے،  عاشق کا مطلب بعد میں پوچھ لیں گے۔ اس لیے میں نے جلدی سے سوچ کر دادی ماں سے کہا۔ ‘‘اچھا اچھا، دادی اماں آگے سناؤ، اب نہیں ٹوکوں گا۔ ’’

دادی امان رکھائی سے اس طرح خفا ہو کے بولیں جیسے انہیں کہانی کا آگے آنے والا حصہ پسند نہیں ہے۔ کہنے لگیں:‘‘ہونا کیا تھا، مغربی پہاڑی کی بیوی بے وفا نکلی۔ جب اسے سفید دیو نے جھوٹ موٹ یقین دلا دیا کہ اس کا پہلا خاوند دیووں کی جنگ میں مارا گیا ہے تو اس نے سفید دیو سے شادی کر لی۔ ’’

‘‘دیووں کی جنگ کیوں ہوتی تھی؟’’میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’

‘‘تو نے پھر ٹوکا۔ ’’دادی اماں بہت خفا ہو کے بولیں ‘‘چل اب آگے نہیں سناؤں گی۔ ’’نہیں دادی اماں میری اچھی دادی اماں اچھا اب بالکل نہیں ٹوکوں گا۔ ‘‘میں نے منت سماجت کر تے ہوئے کہا۔ ‘‘پھر؟’’ ‘‘پھر ایک دن بہت سالوں کے بعد ایک بوڑھا دیواس وادی میں آیا۔ یہ اسی عورت کا پہلا خاوند تھا۔ جب ا س نے اپنی بیوی کو سفید دیو کے ساتھ دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا اور اس نے کلہاڑا لے کر سفید دیو اور اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ جب سے ان دونوں دیوؤں کو بڑے پیر کی بد دعا ملی ہے اور یہ لوگ سل پتھر ہو گئے۔ سامنے والے پہاڑ کا پانی اس لیے میٹھا ہے کیونکہ اسے اپنی بیوی سے سچی محبت تھی۔ اس کے مقابل پہاڑ کا پانی کھارا ہے اور اس میں نمک ہے کیونکہ وہ عورت ہے اور اپنی بے وفائی پر ہر وقت روتی رہتی ہے۔ اور جب اس کے آنسو خشک ہو جاتے ہیں تو نمک کے ڈلے بن جاتے ہیں، جنہیں ہر روز تمہارا باپ پہاڑ کے اندر کھود کے نکالتا ہے۔ ’’

‘‘پھر….؟’’

‘‘پھر کہانی ختم۔ ’’

کہانی ختم ہو گئی اور میں بھول گیا کہ میں نے کیا سوال کیا تھا۔ مجھے کیا جواب ملا۔ میں نے کہانی سن لی، اطمینان کا سانس لیا اور پلک جھپکتے ہی سو گیا۔ سوتے سوتے میری آنکھوں کے سامنے نمک کی کان کا منظر آیا، جہاں میرے ابا کام کرتے تھے، جہاں جوان ہو کر مجھے کام کرنا پڑا اور جہاں پہلی بار میں اپنی اماں کے ساتھ اپنے ابا کا کھانا لے کر گیا تھا۔ افوہ!کتنی بڑی کان تھی وہ چاروں طرف نمک کے پہاڑ نمک کے ستون، نمک کے آئینے نمک کی دیواروں میں لگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ نمک کی آبی جھیل تھی جس کے چاروں طرف نیلگوں دیواریں تھیں اور چھت بھی نمک کی تھی جس سے قطرہ قطرہ کر کے نمک کا پانی رستا تھا اور نیچے گر کر جھیل بن گیا تھا اور یکا یک مجھے خیال آیا یہ اس عورت کے آنسو ہیں جو بڑے پیر کی بد دعا سے نمک کا پہاڑ بن چکی ہے۔ میرے ابا اس جھیل کو دیکھ کر بولے:

‘‘یہاں اس قدر پانی ہے پھر بھی پانی کہیں نہیں ملتا۔ دن بھر نمک کی کان میں کام کرتے کرتے سارے جسم پر نمک کی پتلی سی جھلی چڑھ جاتی ہے جسے کھرچو تو نمک چورا چورا ہو کر گرنے لگتا ہے۔ اس وقت کس قدر وحشت ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہیں میٹھے پانی کی جھیل ہو اور آدمی اس میں غوطے لگا تا جائے۔ ’’

‘‘پانی !پانی!’’

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »