Qalamkar Website Header Image

فرینڈ شپ ریکوئسٹ کے سائیڈ افیکٹس | کرن ناز

بہت سارے سنجیدہ نوعیت کے مسائل کو پس پشت ڈال کر سوشل میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی ہاٹ ٹاپک ہے اور وہ ہے شرمین عبید چنائے پر تنقید لیکن میں عادتاٌ مخالف رخ پر پرواز کرتے ہوئے شرمین عبید چنائے کے اقدام سے اتفاق کرتی ہوں۔اگر شرمین کی بہن کی جگہ میں خود کو رکھ کر سوچوں کہ میں پہلی بار کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جاؤں اور وہ علاج کرنے کے ساتھ ہی مجھے فیس بک پر دوستی کا پیغام بھیج دے تو کیا مجھے عجیب نہیں لگے گا ؟ اگر یہ آپ کے خیال میں ہراساں کرنے کے زمرے میں نہیں آتا تو اخلاقی عمل بھی ہر گز نہیں ہے ۔ جو مرد حضرات ڈاکٹر کے دفاع کے لئے کمر کس کر میدان میں آگئے ہیں وہ یہ بتائیں کہ اگر آپ کی بیگم یا بہن کہیں علاج کے لئے جائیں اور وہاں کا ڈاکٹر انہیں علاج کے ساتھ ساتھ بطور اسپیشل ٹریٹمنٹ فیس بک پر ایڈ کرے تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اگلی بار اپنے گھر کی خواتین کو وہاں نہیں بھیجیں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس ڈاکٹر کو دو چار گالیوں سے بھی نواز دیں ۔ کوئی بھی لڑکی نہیں چاہتی کہ کوئی بھی مرد اس کی مرضی کے بغیر اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرے جبکہ وہ مردوں کی نیت اور نظروں کے معاملے میں بھی حساس ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر نے سوچا ہوگا کہ آزاد خیال اور لبرل خواتین شاید کھلی ڈلی ہونے کے باعث آسان شکار ہوتی ہیں اور شکار نہ بھی ہوسکے تو لوگوں کے آگے ایک احساس تفاخر تو ہوگا کہ آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید کی بہن میری دوست ہے ، لیکن افسوس اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ مرد اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے ؟ چاہے کسی بھی جگہ کسی بھی عہدے پر ہوں خوبصورت عورت کو دیکھ کر ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے ۔کچھ مہینے قبل میں ڈینٹسٹ کے ہاں گئی۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ کیا کرتی ہیں؟ جب بتادیا تو کہنے لگے کہ آپ کے تو فینز بھی ہوں گے ، فیس بک آئی ڈی کیا ہے ؟ میں نے صاف جواب دیا کہ میں فرینڈز اور فیملی ممبرز کے علاوہ کسی کو ایڈ نہیں کرتی تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق مسکراکے کہنے لگے کہ اچھی بات ہے ۔ہاں ایک بات اور یاد آئی ۔ دو روز قبل ہی میری سالگرہ گزری ہے ۔ میں نے گورنمنٹ سیکٹر میں ایک کام کے سلسلے میں ڈاکیومینٹس جمع کروائے تھے ۔ وہاں سے صاحب کے پی اے کا میسج آیا ہے جس میں انہوں نے مجھے برتھ ڈے پر وش کیا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ ڈاکیومینٹس سے نمبر اور یوم پیدائش نکال کر میسج کرنا کونسی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے اور ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ اس لئے شرمین عبید کے اقدام سے بالکل اتفاق کرتی ہوں کہ اچھا ہے کوئی تو ہے جو ایسے مردوں کو ان کی حد میں رکھ سکتا ہے تاکہ دیگر اس سے عبرت حاصل کریں ۔

یہ بھی پڑھئے:  لاپتہ افراد قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آئینی تقاضے

جب سے شرمین عبید چنائے کی بہن اور ڈاکٹر کا کیس سامنے آیا ہے تب سے اس کی ہالی وڈ کے مرد اداکاروں کے ساتھ تصویریں بھی منظر عام پر آگئی ہیں کہ ‘ یہ دیکھو کہ گوروں کے ساتھ کتنا چپک کے کھڑی ہے ، حد ہے کہ سیکس اسکینڈل کے حوالے سے بدنام میٹ ڈیمن کے ساتھ بھی کیسی نازیبا تصویر ہے لیکن یہاں ان کی بہن کو ایک دیسی بندے نے ریکوئسٹ بھیج دی ہے جو ان کی نازک طبیعت پر ناگوار گزری ہے’ ۔ مان لیجئے کہ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہماری فیس بک فرینڈ لسٹ میں ہم خیال لوگ موجود ہوں یا وہ جو کسی حد تک ہمارے پروفیشن سے متعلق ہوں ۔ کوئی بھی منہ اٹھا کر آئے اور دوست بن جائے، ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرینڈشپ کے معاملے سے دیسی بدیسی اور امیر غریب کا بھی کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے ۔ ہمارے اپنے سوشل سرکل میں کئی ایسے دوست ہوتے ہیں جو لڑکیوں کے معاملے میں اچھی شہرت نہیں رکھتے، اس کے باوجود بھی وہ ہم لڑکیوں کے قابل بھروسہ اور اچھے دوست ہوتے ہیں ۔ ہم ان سے ہر بات شئیر کرتے ہیں اورہاتھ بھی ملاتے ہیں اور کم و بیش ہمارا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے کسی لڑکی دوست کے ساتھ ہوتا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں کوئی بھی نیا بندہ ملے ہم اس سے وہی برتاؤ شروع کردیں ۔ مردوں کو یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ ہر انسان، دوسرے انسان سے اپنی مقرر کردہ حدوں میں ہی تعلق رکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا اور آپ سے کسی بھی تعلق کا متمنی نہیں لیکن اس کے باوجود آپ کسی تعلق پر بضد ہیں اور اس حد سے آ گے بڑھنا چاہتے ہیں تو یہ ہراساں کرنے کے مترادف ہے ۔ کسی کو فیس بک پر ایڈ کرنے کا مطلب شاید لوگ یہ لیتے ہیں کہ لڑکی دام میں آگئی ہے یا وہ بھی ان کی طرح فالتو ہے جو ان کے وقت بے وقت کے میسجز یا کال پر ریسپونڈ کرتی رہے ۔ کچھ لوگ تو اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ اگر ان کی ایک میسنجر کال ریجیکٹ کرو تو وہ پھر دوبارہ کال کردیتے ہیں ، شاید انہیں پہلی بار تسلی نہیں ہوتی کہ سامنے والی بندی کو ان سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں او ر مزید یہ کہ انہیں فیس بک پر ایڈ کرنے کا مطلب کوئی رشتہ استوار کرنا نہیں ہے ۔ اب کیا لڑکی کسی کو ایڈ بھی نہ کرے کیا ، یہ سوچ کر کہ پاکستانیوں کی اکثریت تہذیب و اخلاق سے نابلد ہے اور وہ بغیر اجازت کبھی بھی میسج یا کال کرکے آپ کو زچ کرسکتے ہیں ، بار بار ہزیمت اٹھانے کے باوجود ۔

یہ بھی پڑھئے:  سانحہ ایس ای کالج بہاولپور – پورا سچ کیا ہے؟

ابھی کچھ دیر پہلے ‘ہم سب ‘پر نور الہدی شاہ صاحبہ کا بلاگ پڑھا ۔شاید ان کی عمر تک پہنچیں تو ان کی بیٹی اور مجھ سمیت کئی لڑکیاں ان جیسا سوچنے لگیں لیکن اس عمر میں تو یہ قدرتی رد عمل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی جتادیا ہے کہ ایسے رویوں سے ہم خواتین کس قدر زچ ہوتے ہیں ۔ اپنے کالم میں انہوں نے میری اس بات کی توثیق بھی کی ہے کہ اپنے بے تکلفانہ روئیے یا ہیلو ہائے کرکے حد سے زیادہ ڈسٹرب کرنے والی عادت سے اپنے لئے خود بیزاری اور ناپسندیدگی پیدا کر نے والوں کی اکثریت کا تعلق اندرون سندھ سے ہوتا ہے ۔ بہر حال مردوں کو اپنے روئیے کو جانچنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ ہر عورت مال غنیمت کی طرح نہیں ہوتی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس نان ایشو کو اتنا گھسیٹا گیا کہ جو اہم نوعیت کے وااقعات تھے وہ اوور شیڈو ہوگئے ۔حال میں قومی وومینز ہاکی ٹیم کی سابقہ گول کیپر سیدہ سعدیہ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے ہیڈ کوچ پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ہیڈ کوچ سعید خان نے انہیں علیحدگی میں ملاقات کے لیے بلایا ، بہانے سے قریب آئے ، دست درازی کی اور ہراساں کیا جبکہ ہیڈ کوچ نے توقع کے مطابق الزامات کو بے بنیاد قرار دیدیا ہے ، جیسا کہ جامشورو یونیورسٹی کے کیس میں ہوا ہے ۔ ایک اور ہاکی پلیئر اقراء جاوید سعیدہ کی حمایت میں سامنے آئی ہیں جو واقعے کی چشم دید گواہ بھی ہیں تاہم وزیر کھیل پنجاب اور پاکستان ہاکی فیڈریشن نے وقوعہ سے آگاہی کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ وہ ایسے واقعات کا شکار خواتین کو انصاف دلانے کے بجائے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا تے ہوئے استحصال کرنے والے کا وکیل بن جاتا ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب ہم نان ایشوز پر مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے ویمن ہاکی ٹیم کی سعدیہ ، جامشورو یونیورسٹی کی طالبات اور گذشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں میں ذاتی دشمنی کے باعث مخالفین کی جانب سے برہنہ پھرائی گئی سولہ سالہ بچی شریفاں سمیت ظلم و استحصال کا شکار ہونے والی دیگر خواتین کو انصاف دلانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں ۔ معاشرے کے رویوں کو مثبت بنانے میں اہم کردار ادا کریں جہاں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی اکثریت کی سوچ آج بھی عورت کے معاملے میں سطحی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس