Qalamkar Website Header Image

دہشتگردی کے خلاف فتویٰ پر عملدرآمد ہوگا بھی یا نہیں ؟ | کرن ناز

علما ئے کرام نے ملک میں نفاذ شریعت کے نام پرریاست مخالف مسلح محاذآرائی اور تخریب کاری و دہشتگردی کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیتے ہوئے آپریشن ’ضرب عضب‘ اور ’ردالفساد‘ کی بھرپور حمایت کی ہے ۔ اسلام آباد میں ستائیس مئی کو ’میثاقِ مدینہ کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل‘ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا، جس میں مولانا مفتی رفیع عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن سمیت مختلف مکاتب فکر کے 30 سے زائد علمائے کرام نے شرکت کی ۔ سیمینار کے اختتام پر دہشتگردی کے خلاف متفقہ طور پر فتویٰ بھی جاری کیا گیا، جس میں تحریر و تقریر کے ذریعے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے ، مسلح تصادم اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے نفاذ شریعت کے نام پر نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کوشرعی احکام کے منافی ، فساد فی الارض اور غداری قرار دیا گیا ہے ۔ تمام جید علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جہاد صرف اسلامی ریاست کا اختیار ہے ۔ فتویٰ کے مطابق ملک میں مذہبی و فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں ، مسلح محاذ آرائی اور خودکش حملہ کر انے والوں کے ساتھ ان کی ترغیب دینے اور معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی وہی کارروائی ہونے چاہیئے جو باغیوں کے خلاف ہوتی ہے ۔

ایسے حالات میں جب ملک میں ہر طرف مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا بازار گرم ہے اور اس سیل رواں میں بہت سے لوگ غرقاب ہوچکے ہیں جبکہ مخصوص طبقے کی جانب سے طالبان طرز پر نفاذ شریعت کے نعرے بھی سننے کو مل رہے ہیں ، علمائے کرام کی جانب سے یہ فتویٰ امید کی ایک کرن ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ علمائے کرام ریاست سے لال مسجد کے خلاف کسی کارروائی کا مطالبہ بھی کریں گے یا نہیں ؟ دوسرے ملکی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز لال مسجد کے خلاف کسی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہیں جہاں سے نفاذ شریعت اور داعش کی مدد کے لئے باقاعدہ لوگوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی گئی ہے ؟ اس حوالے سے لال مسجد کے مولانا عبد العزیز کے ویڈیو پیغامات بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جبکہ لال مسجد کے ڈنڈا بردار طلبہ و طالبات کی وفاقی دار الحکومت میں کی گئی غنڈہ گردیاں بھی ریکارڈ پر ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے:  تاج محل-مدیحہ سید

ایک طرف بزور طاقت نفاذ شریعت کے اقدامات کے خلاف علمائے کرام کے فتوی جاری ہوررہے ہیں تو دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں طالبان کمانڈر ملا نذیر کے زیر اثر کمیٹی نے جنوبی وزیرستان کا کنٹرول سنبھال کر تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک سو بیس رکنی کمیٹی میں سو سے زائد ارکان کا تعلق ملا نذیر گروپ سے ہے ۔ یہ طالبان کمانڈر ملا نذیر وہی ہے جسے تین جنوری دو ہزار تیرہ کو جنوبی وزیرستان کے علاقے سراکنڈہ میں ساتھیوں کے ہمراہ امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ نذیر کے زیر اثر کمیٹی نے جنوبی وزیرستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اے این پی کے ایجنسی صدر کو وانا سے اٹھوالیا جبکہ دیگر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی جو مسلسل ایک طویل عرصے سے طالبان کے ظلم کا شکار ہیں اور اپنے کئی رہنما دہشتگردانہ حملوں میں گنوا چکی ہے ، ایک بار پھر تحریک انصاف کی طالبان نواز پالیسیوں کی وجہ سے شدید نوعیت کے خطرات میں گھر چکی ہے ۔ اے این پی رہنما میاں افتخار نے ردعمل دیتے ہوئے حکومت سے وضاحت طلب کی ہے کہ’ بتایا جائے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد وزیرستان کا کنٹرول ریاست کے پاس ہے یا ملا نذیر گروپ کے پاس ؟ یہ سب پولیٹیکل اور عسکری حکام کی سرپرستی میں ہورہا ہے جس کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔

چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دو ہزار تیرہ میں طالبان سے دفتر کھلوانے کا جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کر دکھایا ، اس سے پہلے مدرسہ حقانیہ کیلئے صوبے کے بجٹ میں تیس کروڑ کی امداد بھی انہی کے کریڈٹ پر ہے ۔ ایک صوبے میں حکومت ملی ہے تو یہ حال ہے ، اگر وفاق میں مل گئی تو ملک کو طالبان اسٹیٹ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حالات میں دہشتگردی کے خلاف علمائے کرام کے اس فتویٰ پر عملدرآمد ہوگا بھی یا نہیں کیونکہ ہم نے دیکھاہے کہ مشعال خان کا خون ناحق بہنے کے بعد مفتی تقی عثمانی ، مفتی نعیم اور راغب نعیمی سمیت کئی مفتیان کرام نے توہین مذہب پر قانون ہاتھ میں لینے اور کسی شخص کو قتل کرنے کو حرام قرار دیا لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رکا ۔ مشعال خان کے قتل کے دو روز بعد ہی ایک احمدی توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا ، انیس اپریل کو سیالکوٹ میں تین برقعہ پوش بہنوں نے مقامی مذہبی رہنما کے پینتالیس سالہ بیٹے فضل عباس کو فائرنگ کرکے اسی کے گھر میں قتل کردیا ، اکیس اپریل کو چترال کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک اور شخص کو توہین مذہب پر ہجوم نے بیہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ، ذہنی معذور رشید احمد کو امام مسجد نے لوگوں سے بچاکر پولیس کے حوالے کیا اور ہجوم خود امام مسجد کے اس ذمہ دارانہ اقدام پر اتنا مشتعل ہوا کہ انہیں محفوظ مقام پر روپوش ہونا پڑا۔مذکورہ واقعات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ علمائے کرام بوقت ضرورت فتویٰ تو جاری کردیتے ہیں لیکن ان پر عملدر آمد کا ویسا مطالبہ نہیں کرتے جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس