Qalamkar Website Header Image

کتھارسس – کرن ناز

جہالت ، ظلم اور نا انصافی کے خلاف برسرپیکار "قلم کار” کو اس کی پہلی سالگرہ بہت بہت مبارک ہو ۔ محترم حیدرجاوید سید اور ان کی ٹیم کی مشترکہ کاوشوں سے قلم کار نے ایک قلیل عرصے میں لوگوں کے دلوں میں جس طرح جگہ بنائی ، قابل تعریف ہے ۔سید الشہداء مولا حسین علیہ السلام اور خدائے وفا غازی عباس علیہ السلام کے ظہور پرنور پر ایکٹویٹ ہونے والی قلم کار ایک ذمہ دار ویب سائٹ ہے ۔ ایڈیٹر اور ان کی ٹیم کسی فکری مغالطے کا شکار نہیں اور حق و باطل کے درمیان موجود فرق کو اچھی طرح سمجھتی ہے ۔ یہاں فورتھ شیڈیول میں شامل کسی متنازعہ شخصیت کا انٹرویو کرکے اسے اسپیس دینے کی بات نہیں کی جاتی اور نہ ملک میں انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور نفرت کو فروغ دینے والے کو امن کا پیامبر بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔ صحافتی اقدار اور ہزاروں شہداء کے لواحقین کے احساسات کا پاس بھی ہے ۔ میں تو سوچتی ہوں کہ یہ یزید اور شمر کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ انہیں موجودہ دور نصیب نہیں ورنہ ہم انہیں بھی اسپیس دیکر اعترافی بیان جاری کرتے ۔
بہت عرصے سے سوچ رہی تھی کہ حالات حاضرہ پر کچھ لکھا جائے لیکن طبیعت مائل بہ سستی رہی ۔ نورین لغاری کے واقعے کے بعد ، توہین مذہب کے جھوٹے الزام کے تحت مشعال خان کے سفاکانہ قتل کا واقعہ پیش آگیا ۔ پھر "ہم سب "پر کالعدم تنظیموں کے سرغناؤں کو اسپیس دینے کی باتیں شروع ہوگئیں ۔ احمد لدھیانوی کو امن کی فاختہ بناکر پیش کرنے کا گلہ ہی کیا تھا کہ ٹی وی پر احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری ہوگئی ۔اے پی ایس پشاور کے بچوں کے قتل ، چودھری اسلم پر حملے ، مسجدوں ، گرجا گھروں ، محرم کے جلوسوں ، کوئٹہ میں شیعہ آبادیوں سمیت کئی ہولناک خونی کارروائیوں کی ذمہ داری ببانگ دہل قبول کرنے والا اچھی صحت ، اچھے کپڑوں اور ہشاش بشاش مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کارناموں کا اعتراف کررہا تھا اور میری نظر میں ان والدین کے چہرے گھوم رہے تھے جن کے بچے اور جوان اس مذہبی جنونیت کا رزق ہوگئے ۔خدارا عوام اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ذبح کرنے والوں ، ان کی لاشوں کا مثلہ کرنے والوں ، سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کو شاعر اور ادیب کہہ کر انہیں ہیومنائز کرنے کا سلسلہ ختم کریں کہ یہ انتہا پسندی کی مذمت نہیں بلکہ ترویج ہے ۔ احسان اللہ احسان ، سانحہ صفورا کے مجرموں سمیت دیگر دہشتگردوں کو سخت ترین سزا دیکر نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شہداء کی ماؤں کے کلیجے ٹھنڈے ہوں ۔ اس اقدام سے اتنا تو اندازہ ہوگیا ہے کہ یہاں سیکیولر ہونا جرم ہے ، انسانیت کی بات کرنا جرم ہے ، بلاسفیمی جرم ہے ، لیکن اسی ہزار قتل قابل معافی ہیں ۔ کہاں تک سنو گے ، کہاں تک سنائیں لیکن جہاں اتنے سارے ایشوز اور المیے جمع ہوجائیں وہاں خاموشی جرم ہے ۔
مذہبی انتہا پسندی کا عفریت اب مدرسوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس سیل رواں نے اب یونیورسٹیز اور کالجز کا رخ کرلیا ہے ۔ تیرہ اپریل کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام کے تحت عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں جرنلزم کے انتہائی قابل ، انسان دوست اور روشن خیال طالبعلم مشعال خان کو ایک ہجوم نے سفاکی سے قتل کردیا ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی سازش کو عملی جامہ پہنانے والے قاتلوں میں نہ صرف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بلکہ خود کو باچا خان کی تعلیم کا علمبردار کہنے والی جماعت اے این پی سے تعلق رکھنے والے طالبعلم بھی شامل تھے ۔ مشعال قتل کیس نہ صرف صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے بلکہ خود ہمارے لئے بھی ایک آزمائش ہے جس میں پورا اترنا واجب ہے تاکہ توہین مذہب کے خود ساختہ قانون کو بھی کسی منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔صرف مظلوم مقتول مشعال کے آبائی ضلع صوابی میں ہی ہم نے لوگوں کا جم غفیر دیکھا جو مشعال کے لئے انصاف کا مطالبہ کررہاتھا ، جب ایک طرف باغ مسجد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں اے این پی ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے رہنما قاتلین کو بچانے سر جوڑ کر بیٹھے تھے تو دوسری جانب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے لئے سڑکوں پر مظاہرے کرنے والے لیکن اس معاملے کی سنگینی سے بے شعور عوام گھر وں سے باہر ہی نہ نکل سکے ۔ مشعال قتل کیس کے مجرم جتنی دیر تک انصاف کے کٹہرے سے دور رہیں گے ، معاملہ پیچیدہ ہوگا اورجوزف کالونی میں سو گھروں میں غدر مچانے والے ایک سو پندرہ ملزمان کی طرح ایک دن انہیں بھی سال دو سال بعد شواہد کی کمی کا کہہ کر رہا کردیا جائے گا ۔ گوجرہ ، سانگلہ ہل ، شانتی نگر سمیت کئی واقعات ایسے ہیں جن میں انصاف کی امید ہی دم توڑ چکی ہے ۔اگر ان واقعات میں انصاف کردیا جاتا تو ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت گری کے واقعات کی روک تھام ہوسکتی تھی ۔ مشعال خان کے قتل کے دو روز بعد ہی ایک احمدی توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا ، انیس اپریل کو تین برقعہ پوش بہنوں نے مقامی مذہبی رہنما کے پینتالیس سالہ بیٹے فضل عباس کو فائرنگ کرکے اسی کے گھر میں قتل کردیا ، اکیس اپریل کو چترال کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک اور شخص کو توہین مذہب پر ہجوم نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ، ذہنی معذور رشید احمد کو امام مسجد نے لوگوں سے بچاکر پولیس کے حوالے کیا اور ہجوم خود امام مسجد کے اس ذمہ دارانہ اقدام پر اتنا مشتعل ہوا کہ انہیں محفوظ مقام پر چھپنا پڑگیا ۔ ایسے موقع پر میڈیا میں امام مسجد کے اقدام کو سراہنے کی ضرورت تھی ، جو نہیں ہوا ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ سخت مذہبی عقائد کے حامل دیوبندی گھرانوں کے نوجوان شدت پسندی کی اس لہر کی زد میں آسانی سے آجاتے ہیں ۔ اس ضمن میں دیوبندی گھرانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے بچوں میں نفرت اور فرقہ وارانہ تعصب کا بیج بونے کے بجائے انسان دوستی کا سبق پڑھائیں اور انہیں معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ کریں ۔ حیدر آباد کی نورین لغاری کا کیس بھی ہمارے سامنے ہے اور بعد میں اس دہشتگرد لڑکی کو قوم کی بیٹی کہنا ، قوم کی باشعور بیٹیوں کی بے عزتی کے مترادف ہے ۔وہ تو خوش قسمتی ہے کہ نورین دہشتگردانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ہی گرفتار ہوگئی ، لیکن اگر وہ درجن بھر لوگوں کے قتل کے بعد گرفتار ہوتی تو تب بھی قوم کی بیٹی کہلاتی ؟ کیا ہم انتظار میں تھے کہ سان برنارڈینو حملے کی تاشفین ملک کی طرح وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ مل کر چودہ لوگوں کو خون میں نہلادیتی ، تب ہم اسے دہشتگرد مانتے ؟ ملالہ جو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کررہی ہے ، وہ” امریکی ایجنٹ” ہے اور نورین لغاری اور عافیہ صدیقی جیسی دہشتگردوں کی سہولت کار ” قوم کی بیٹیاں "، قوم کے اس فکری زوال اور ذہنی پسماندگی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔
نورین لغاری کے واقعے کے بعد یہ کہنا عبث ہے کہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے جہاں کسی انتہاپسندی کا شائبہ نہیں ۔ بقول ایک صوبائی وزیر کے کہ سندھ میں دہشتگردانہ کارروائیوں کے لئے بمبار ہمیشہ دیگر صوبوں کے استعمال ہوئے ۔ ادب کے ساتھ عرض ہے کہ ہمارے سندھ کی صوفی ثقافت ہائی جیک ہورہی ہے ، سانحہ جیکب آباد، شکار پور ، سیہون اور سانحہ صفورا سمیت کئی واقعات میں یا تو مقامی یونیورسٹیز کے طالبعلم استعمال ہوئے یا مقامی افراد ہی دہشتگردوں کے سہولت کار بنے ہیں ۔ شدت پسندی کا زہر اب پڑھے لکھے گھرانوں تک پہنچ گیا ہے ۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ سیہون دھماکے کے بعد دہشتگردی کی مذمت کم دھمال کی زیادہ دیکھنے میں آئی ۔ بہتر ہے کہ پی پی پی رہنما اب ہوش کے ناخن لیں اور خوش فہمیوں کے سراب سے باہر آئیں ۔ صوبائی حکومت کالعدم تنظیموں سے انتخابی اتحاد کرنے کے بجائے اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی لبرل جماعتوں کو جو خود طالبان کے حملوں کا شکار اور دہشتگردی کے خلاف واضح موقف رکھتی ہیں ، انہیں ساتھ ملاکر مدرسہ ریفارمز کو عملی جامہ پہنائے ، محمود غزنوی اور محمد بن قاسم جیسے قاتلوں ، غاصبوں اور لٹیروں کو تدریسی کتابوں سے نکال کر نصاب تبدیل کرے اور پولیس کے سدھار پر توجہ دے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس