Qalamkar Website Header Image

مفاد پرست

موبائل فون کے دوسرے الارم پر’ میراب’ کسمساتا ہوا اٹھا۔ سائبیریا کی یخ بستہ ہواوں نے مڈ دسمبر میں کراچی جیسے معتدل شہر کو بھی مری بنا رکھا تھا ۔ اتنی ٹھنڈ میں بھی وہ ساری رات سو نہیں سکا۔ کچھ لوگوں کو دسمبر رومینٹک، بعض کو پراسرار اور کچھ کو اداس لگتا ہے اور اس کا شمار تیسری قسم میں ہوتا تھا۔ سارا سال ہشاش بشاش گزار کر دسمبر میں اسے اداسی کے دورے پڑتے رہتے تھے اور وہ insomnia (نیند کی بے قاعدگی) کا شکار ہوجاتا۔

ایک طرف تو سقوط ڈھاکہ، سانحہ علی گڑھ، اے پی ایس پشاور کی ہولناک خون کی ہولی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور اس سے جڑی کراچی کی خونریزی و تباہی کا خیال اسے افسردہ کردیتا تو دوسری جانب اپنی ذات کی تشنگی اور نارسائی کا دکھ بھی ان دنوں عروج پر ہوتا۔ وفا کی مٹی سے گندھے اس شخص کو ہمیشہ بدلے میں جفا ہی ملتی اور وہ خود کو ہمدردی اور خلوص کے لاعلاج مرض پر کوستا رہتا ۔ اکثر اوقات وہ خدا سے شکوہ کناں رہتا کہ جب اپنی طرح تنہائی کا احساس دینا تھا تو زمین پر بھیجنے کی ضرورت کیا تھی جبکہ خودکشی کرکے زندگی کا بوجھ اتار پھینکنا اسے فرار کی بزدلانہ کوشش لگتا۔

‘میراب’ کو ہمیشہ یہ قلق رہتا کہ وہ کیوں باقی لوگوں کی طرح منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا نہیں ہوا ۔جب اپنے دوستوں کو باپ کے مال پر عیاشیاں کرتے دیکھتا تو یہ احساس اور بھی دو چند ہوجاتا ۔ وہ ٹھہرا ایک مڈل کلاس فیملی کا سیلف میڈ بندہ جس کی ساری زندگی ہی جدوجہد سے عبارت تھی ۔ زندگی سنوارنے کے لئے سمندر جتنی کوششیں کرنے کے باوجود وہ چند قطروں سے ہی مستفید ہوسکا تھا لیکن لوگوں کی نظر میں وہ پھر بھی کسی حد تک کامیاب انسان تھا ۔ نوازا تو زندگی نے اس کو بھی کم نہیں تھا ، اچھی شکل و صورت ، اچھا کھانا پہننا حتی کہ برانڈڈ سوٹ بھی اس کی دسترس میں تھے لیکن وہ صبح سے شام تک ان چیزوں کے حصول کے لئے خود کو تھکاتا رہتا ۔ جاب بھی اچھی تھی لیکن اس کی غیر معمولی صلاحیت کے آگے یہ بھی اسے کم لگتی تھی ۔ ساری رات بستر پر نیم دراز بھاپ اڑاتی کافی پیتے اور منٹو کو پڑھتے گزار دی۔ تیسرے پہر جب نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے لگیں تو وہ لائٹ آف کرکے لیٹ گیا اور ادھر ادھر کی حملہ آور ہوتی سوچوں کی سپاہ کو شکست دے کر بالاآخر نیند کی وادی کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔

یہ بھی پڑھئے:  مجبوری

رات دیر سے سونے کے باعث اب بستر چھوڑنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اس سردی میں تو کمبل بھی ہاتھ نہیں چھوڑ رہا تھا اور کسی نئی نویلی دلہن یا محبوبہ کی طرح بار بار لپٹ جاتا ، مگر ہائے یہ غم روزگار بھی بہت بری بلا ہے۔ ناراض محبوب کی طرح نرم و گرم اور مہربان بستر کا ہاتھ رعونت سے جھٹک کر ‘میراب’ اٹھ کھڑا ہوا۔ آفس کے لئے تیار ہونے کے بعد ایک دو سلائس اور ایک کپ چائے جلدی جلدی نمٹاکر وہ اٹھ کھڑا ۔ والٹ ، موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھاکر باہر نکل گیا ۔ فلیٹ میں رہائش ہونے کی وجہ سے اس نے اپنی کھٹارا سی مہران پارک کرنے کے لئے قریبی اسپتال کی پارکنگ میں ماہانہ کرائے پر جگہ لی تھی کیونکہ فلیٹ کی پارکنگ چھوٹی تھی اور وہ دیگر رہائشیوں سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر چخ چخ کرنے کا قائل نہیں تھا اور اس کے پاس ان خرافات کے لئے دماغ تھا اور نہ ہی وقت ۔

پارکنگ تک اسے دس پندرہ قدم چل کر آنا پڑتا ۔ وہیں اسپتال کی دیوار کے ساتھ بیٹھے ایک درمیانی عمر کے فقیر سے مڈ بھیڑ ہوتی اور انتہائی گرمجوشی سے دعا سلام کے ساتھ ہی وہ دس بیس روپے ہاتھ پر رکھ کر نکل جاتا ۔ تین دن سے اتفاقا اس کے پاس کھلے پیسے نہیں نکلے اور وہ سلام دعا کے بعد بغیر کچھ دئیے روانہ ہوگیا ۔ چوتھے روز خلاف معمول عجیب بات یہ ہوئی کہ اس فقیر نے نہ صرف اسے دیکھ کر نظر انداز کیا بلکہ لپک کر کسی اور کی جانب متوجہ ہوگیا ۔

یہ بھی پڑھئے:  بے بس مخلوق - فائزہ چوہدری

‘مفاد پرست دنیا ، مطلب کے بغیر تو اب کوئی کسی سے بات بھی نہیں کرتا’ وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ زیر لب بڑبڑایا اور جھٹکے سے گاڑی اسٹارٹ کرکے آفس کے لئے نکل گیا ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »