کراچی کے علاقے پٹیل پاڑہ میں چار نومبر کو اہلسنت و الجماعت ( کالعدم سپاہ صحابہ ) کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد آناٌ فاناٌ سابق سینیٹر اور وائس آف شہداء کے چئیرمین فیصل رضا عابدی کی گرفتاری نے رینجرز اور ریاست کی غیر جانبداری پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ اسی شہر میں انتیس اکتوبر نارتھ ناظم آباد پر تھانے اور رینجرز ہیڈ کوارٹر کے قریب واقع گھر میں منعقدہ خواتین کی مجلس عزاء پراسی کالعدم تحریک کے دہشت گردوں نے حملہ کردیا جنہیں روکنے پر تین بھائیوں سمیت چھ افراد جاں بحق ہوگئے ۔ جاں بحق ہونے والوں میں اہلسنت کا ایک مجاہد ندیم لودھی بھی شامل ہے جو اپنے شیعہ دوستوں کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا ۔ اس سے کچھ روز قبل لیاقت آباد ایف سی ایریا میں خواتین کی مجلس عزا پر دستی بم حملے میں ایک بچہ شہید اور کئی خواتین و بچے زخمی ہوئے ۔ آئے دن شیعہ ، بریلوی اور احمدی ڈاکٹر ، انجینرز ، وکیل ، پروفیسرز اور دیگر پروفیشنلز ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں رینگی نہ ریاستی مشینری متحرک ہوئی مگر جیسے ہی ریاست کے فکری و نظریاتی بھائیوں اور اثاثوں کا قتل ہوا حکومتی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ خضدار سے تعلق رکھنے تبلیغی جماعت کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کو محض چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ رات ڈھائی بجے کے قریب نیو رضویہ میں رینجرز نے چودھری نثار کے حکم اور اورنگزیب فاروقی کی خواہش پر کارروائی کرکے فیصل رضا عابدی کو گرفتار کرلیا اور ابتدائی تفتیش کے بعد جمشید کوارٹر پولیس کے حوالے کردیا ۔
گزشتہ رات بھی نیو رضویہ میں مجلس سے واپس لوٹنے والے مومنین کی کار پر دہشتگردوں کی فائرنگ سے کامران کاظمی جاں بحق جبکہ علی کاظمی اور خاتون سمیت تین افراد زخمی ہو گئے لیکن ریاست شیعہ کلنگ پر ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی بنی رہی ، الٹا شیعہ ایکشن کمیٹی کے سربراہ اور مسجد نور ایمان کے بزرگ پیش امام مولانا مرزا یوسف حسین کو ناظم آباد سے گزشتہ رات گرفتار کرلیا ۔ متاثرین ایف آئی آر میں کالعدم تنظیموں کے سربراہان کو نامزد کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں ان کی گرفتاری میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے چابک دستی تو دور کی بات ، ایسی کوئی کوشش بھی نظر نہیں آتی ۔ فیصل رضا عابدی ، مولانا مرزا حسین اور شیعہ جوانوں کی گرفتاری کے معاملے پر لوگوں کا شدید ردعمل دیکھ کر سپاہ صحابہ کے ٹھکانوں پر بھی چھاپے مارے گئے لیکن مزے کی بات یہ کہ ناظم آباد مجلس عزا فائرنگ کیس میں گرفتار ملزم کا تعلق سیاسی جماعت سے بتایا گیا اور یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کالعدم جماعتوں کے قبول کئے گئے گناہ کی ذمہ داری خود دہشتگردی کا شکار بننے والے طبقے پر ڈال دی گئی ہو ۔
ابھی یہ آرٹیکل ٹائپ ہی کررہی ہوں کہ اطلاع ملی ہے کہ ناگن چورنگی پر واقع مسجد صدیق اکبر اور اس سے متصل ہوسٹل میں سرچ آپریشن کے دوران اہلسنت و الجماعت کے جنرل سیکریٹری تاج حنفی کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ رب نواز حنفی اور مہتمم مولانا شعیب کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں ۔ رینجرز ذرائع کے مطابق ٹارگٹڈ کارروائی کے دوران بھاری تعداد میں اسلحہ ، فوجی وردیاں اور جہادی و نفرت انگیز لٹریچر بھی برآمد ہوا ہے جبکہ کئی مشکوک افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ رینجرز کے اس اقدام کو لوگ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے ناگن چورنگی چھاپہ فیصل رضا عابدی ، مولانا یوسف حسین اور شیعہ جوانوں کی گرفتاریوں کے اشتعال کو کم کرنے اور توازن پیدا کرنے کے لئے ہو اور محض وقتی ہو ۔ ادھر دونوں اطراف کے لوگوں کی اچانک ٹارگٹ کلنگ بھی توازن پیدا کرنے اور یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات ہیں ، حالانکہ عوام جانتے ہیں کہ ریاستی سرپرستی میں صرف ایک ہی فرقے کی نسل کشی جاری ہے اور شیعہ سنی فساد محض افسانہ ہے ۔
اہلسنت و الجماعت کے سرغناؤں کی گرفتاریوں پر میں یہ سوچنے لگوں کہ ریاست نے اپنا قبلہ درست کرلیا ہے تو مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کیونکہ ایسی بہت سی گرفتاریاں ماضی میں بھی عمل میں آئیں لیکن ان کا انجام بھی میرے سامنے ہے ۔ اورنگزیب فاروقی کی گرفتاری اور رہائی کو بھول گئے کیا ؟ اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تئیس ستمبر دو ہزار پندرہ کو لال مسجد کے سابق خطیب غازی عبد الرشید کے بیٹوں ہارون اور حارث کو اسلحے اور فوجی وردیوں سمیت حراست میں لیا لیکن ٹھیک ا گلے روز وفاقی دارالحکومت کی مقامی عدالت نے دونوں کو تیس تیس ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض رہا کردیا۔ اٹھارہ ستمبر دو ہزار پندرہ کو وفاقی دارالحکومت ہی میں کھنہ پل کے قریب مولانا عبد العزیز کے سمدھی ممتاز عرف تاجی کھوکھر کے ڈیرے پر چھاپہ مار کر 15 افغانیوں سمیت بیس مشتبہ افراد کو گرفتارکیا جبکہ جدید اسلحے اور غیر قانونی گاڑیوں کی بھاری کھیپ بھی قبضے میں لی گئی ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس کاروائی کو میڈیا میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو سندھ میں سیاسی جماعتوں کے خلاف کی گئی کاروائیوں کو ملتی ہے۔ سانحہ صفورا کے سہولت کار شیبا احمد کو ڈیفنس سے گرفتار کیا گیاجو اس پوش علاقے کی مسجد میں درس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔ دہشتگرد اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی تھا اور اس کے لیپ ٹاپ سے داعش کے پیغامات بھی برآمد ہوئے ۔ عام لوگوں کے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ شیبا احمد پاکستان ائیر فورس کا سابق فائٹر پائلٹ ہے۔ اتنے سارے اعزازات کے باوجود اس کو بری کردیا گیا ۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں نوے روزہ ریمانڈ ، طویل اسیری اور مسخ شدہ لاشیں صرف ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی ، سنی تحریک ، بلوچ رہنماؤں اور شیعوں کا ہی مقدر ہے ۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نیپ دہشتگردوں کی سرکوبی نہیں بلکہ ان کی حفاظت کا باقاعدہ انتظام ہے اور اس کا سب سے بڑا مقصد فتح سندھ ، سیاسی جماعتوں کی سرکوبی اور خاص فرقے کی نسل کشی ہے ۔
فیصل عابدی کی گرفتاری کے معاملے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پٹیل پاڑہ فائرنگ کا مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا پھر اس مقدمہ میں فیصل رضا عابدی کی گرفتاری چہ معنی دادرد ۔میں یہ لائنز لکھ ہی رہی تھی کہ اچانک ٹی وی پر خبر آئی کہ سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے غیر قانونی اسلحہ کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر انیس نومبر تک جیل بھیج دیا ہے ۔ بتایا گیا کہ ان کے گھر سے چھ اقسام کے ہتھیار برآمد ہوئے تھے تاہم وہ صرف ایک ہتھیار ایس ایم جی کا لائسنس پیش نہیں کرسکے ۔ اس سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ پٹیل پاڑہ فائرنگ واقعے کو بنیاد بناکر سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کو پلان کے تحت دھرا گیا ہے اور ہوسکتا ہے پٹیل پاڑہ سمیت ٹارگٹ کلنگ کی یہ لہر بھی کسی پیشگی منصوبہ بندی کا حصہ ہو ۔ فائرنگ واقعے میں پولیس انہیں کلئیر قرار دے چکی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے ۔
محترم فیصل رضا عابدی کو بھی اب یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کی چھ سالہ ریاضت اور یکطرفہ محبت بھی آپ کو اورنگزیب فاروقی اور احمد لدھیانوی کے ہم پلہ نہ بناسکی ۔ اس بات پر اختلاف نہیں کہ فیصل عابدی شیعہ نسل کشی کے خلاف ایک توانا آواز ہے اور اس نے بریلوی ، احمدی ، ہندو ، عیسائی سمیت ہر مظلوم طبقے کے لئے آواز اٹھائی ہے ۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے افتخار چودھری کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ بات کی ، جس نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف آوزا ٹھائی لیکن اس دوران وہ حکومت اور عدلیہ پر ہی گولے برساتا رہا اور فوج کو آخری امید مان کر پیپلز پارٹی کی پالیسی کے برعکس جمہوری مارشل لاء جیسا مضحکہ خیز مطالبہ کرتا رہا ۔ اسی یکطرفہ محبت کے صلے میں دو ہزار چودہ میں اسے اپنی سینیٹر شپ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ۔اب جیسے ہی اسکی گولہ باری کا رخ ریاستی اثاثوں کی جانب ہوا اور اس نے اورنگ زیب فاروقی ، عبدالعزیز المعروف مولانا برقعہ اور احمد لدھیانوی کی عدم گرفتاری ، کالعدم جماعتوں کے جلسوں اور کافر کافر کے نعروں پر سولات اٹھائے ، تو ریاست کی نازک طبعیت کو گراں گزرا ہے ۔ ان کارروائیوں سے صاف ظاہر ہے کہ ریاست اپنی ضیائی پالیسی سے دستبرداری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی اقوام عالم کی عالمی تنہائی کی دھمکی کا نوٹس لیتی ہے ۔
ریاست اپنی تمام تر ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ چونتیس ملکی دہشتگرد اتحاد کی سپہ سالاری پر مطمئین نظر آتی ہے ۔ شریفین الحرمین کی آئے دن کی سعودی یاترا کے اثرات آپ کو دفعہ ایک سو چوالیس کے باوجود دہشتگردوں کے جلسے اور کافر کافر کے نعروں ، فورتھ شیڈول میں شامل دہشتگردوں کے نام کے اخراج اور بعد ازاں احمد لدھیانوی کے پی پی اٹھہتر جھنگ سے کاغذات نامزدگی کی منظوری کی صورت میں نظر آجائیں گے ۔ کچھ زیادہ پرانی خبر نہیں ، پچیس اکتوبر کی بات ہے جب سینئر صحافی عارف نظامی کے ساتھ ٹاک شو میں گفتگو کے دوران ایک سینئر دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجدشعیب نے نیکٹا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے منظور کردہ منصوبے کے مطابق جماعت الدعوہ کے متشدد اور غیر متشدد کارکنوں کو رینجرز اور ایف سی میں بھرتی نہیں کیا گیا ۔ امجدشعیب نے بتایا کہ یہ منصوبہ ڈی جی آئی ایس آئی نے رواں سال اپریل میں پیش کیا تھا جس کی وزیر اعظم نے تاحال منظوری نہیں دی ۔ دوسری جانب سرل المیڈا کا معاملہ بھی سامنے ہے ۔ ریاستی اقدامات کے بعد کسی بیرونی دشمن کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی ۔ اگر آپ کو لگتا ہے ریاست دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn