3شعبان 2016 کو فیس بک اکاونٹ لوگ ان کیا تو نیوز فیڈ ، تصاویر کے ذریعے علم ہوا کہ قمر عباس کی ادارت میں قلم کار نامی ویب سائٹ نے صحافتی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔ خیر جہاں ہر کوئی نیوز ویب سائٹ لانچ کررہا تھا، اس ماحول میں مجھے یہ بھی ایک عام سی خبر ہی محسوس ہوئی۔
جب قمر عباس سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ آپ بھی قلم کار پر لکھ سکتی ہیں، میں ان دنوں خرم ذکی کی شہادت اور مین اسٹریم میڈیا کی جکڑی ہوئی، لگی بندھی پالیسی سے سخت بیزار تھی، میں نے قمر اعوان سے بھی بر ملا کہا، آپ کی ویب سائٹ کی پالیسی کیا ہے؟ مقاصد کیا ہیں؟ جس پر قمر کا کہنا تھا کہ وہ پالیسی کی اس روایت سے عاجز ہیں اور ہم چاہیں گے کہ لکھنے والے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کریں ہماری پالیسی آزادی اظہار ہے، خیر سن کر خوشی ہوئی اور دعائیں بھی دیں کہ مقصد میں کامیابی حاصل ہو، لیکن ان سے میں یہ کہہ نہ سکی کہ آپ آزادی تو دے سکتے ہیں لیکن اس شدت پسند معاشرے میں لکھاری کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔
پھر قلم کار پر تحاریر لکھیں بھی اور ملاحظہ کیا کہ نئے لکھاریوں کے ساتھ قلم کار ٹیم کے پاس تجربہ کار ایڈیٹوریل بورڈ اور تجزیہ نگار بھی ہیں۔ ایک اچھی بلاگ ویب سائٹ کی طرح اپنی اقدار اور اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہوئے قلم کار کا سفر جاری ہے لیکن اسے ابھی اس مسابقت کی دوڑ میں اپنے قدم مضبوط کرنے ہیں۔ میری دعائیں اور نیک تمنائیں قلم کار کی کامیابی اور ترقی کیلئےہیں ، لیکن ایک بات جو محسوس کی وہ اب بھی کہنا چاہوں گی کہ قمر عباس صاحب اگر آپ قلم کار کو جز وقتی کے بجائے کل وقتی ذمہ داری سمجھیں تو یہ نکتہ اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکے گا۔ اور بلاگ کے ساتھ خبروں کے شعبہ میں تھوڑی سی محنت کریں تو رہی سہی کمی پوری ہوجائے گی۔ دعاگو ہوں آپ کی اور ٹیم کی کامیابی کیلئے جو اعزازی طور پر ہی اپنا کام کررہے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn