Qalamkar Website Header Image

کھوکھلی بنیادیں | خدیجہ افضل مبشرہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ انسان جاہل تھا ، وحشی تھا ، جنگلی تھا ۔۔ وہ نہ رب کو جانتا تھا نہ خود کو پہچانتا تھا۔
جنگلوں میں رہتا اور آدھے سے ذیادہ ننگا گھومتا ،اس کے پاس کوئی تہذیب نہ تھی ، کوئی اخلاق و اقدار نہ تھیں ۔ الغرض کہ یہ کہنا بالکل بھی غیر مناسب نہ ہو گا کہ کافی حد تک جانوروں سے مشابہ زندگی گذارتا تھا۔
پھر اللہ نے انسان کو شعور عطا کیا ، حلال حرام کی تمیز بخشی ، تہذیب کی دولت عطا کی ، اخلاق و اقدار کی تعلیم دی۔ پھر وہی جنگلوں میں ننگا گھومنے والا انسان گھر بنا کر رہنے لگا ، خود کو ڈھانپنے لگا اور رشتوں ناتوں میں تمیز و اخلاق برتنے لگا۔ رب کی پہچان ہوئی تو عبادت کرنے لگا۔
پھر بہت صدیاں گزر گئیں ۔۔ انسان ترقی کے زینے طے کرتا کرتا چاند اور دیگر سیاروں تک پہنچ گیا ۔ اس نے رہنے کو ایسے ایسے گھر بنا لئیے جہاں سردی میں سردی کا اور گرمی گرمی میں گرمی کا احساس تک نہ ہو ۔
مگر اس ترقی کو اس نے جب ماڈرن ازم کا نام دیا تو وہ پھر سے دور جاہلیت کی جانب بڑھنے لگا۔ کپڑے کم سے کم ہونے لگے۔ حلال حرام کی تمیز پھر سے مٹنے لگی ۔ اخلاق نام کی چڑیا پھررر سے اڑ گئی۔ اقدار کی دولت اس نے اپنے ہاتھوں اٹھا کے دور پھینک دی ۔ رب کو بھول گیا ۔ سجدے کی توفیق چھن گئی۔ دین کی باتیں پسماندگی اور مذاق لگنے لگیں۔
آج کسی بھی "ماڈرن مسلمان” سے عورت کے پردے کی بات کرکے دیکھ لیں ۔ وہ اس پردے کو فرسودگی اور عورت پر بے جا پابندی کا نام دے گا۔ نتیجہ وہی ننگے سروں سے شروع ہونے والی یہ آذادی اب برہنہ بازو اور پنڈلیوں تک آ گئی ہے اور اگر اسی رفتار سے ترقی کرتی رہی تو ایک دن پتے باندھنے والا وقت واپس آ جائے گا۔
جس شعور و آگہی نے ننگے انسان کو ڈھانپا ، اپنے آپ کو چھپانا سکھایا ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شعور کے عروج پر پہنچ کر انسان پھر سے کپڑے اتارنا شروع کر دے ۔
دینی تعلیم کا نام لے لیں ، لوگوں کا جواب ہو گا کہ ہم کونسا مولوی ہیں ۔ یعنی کہ دینی تعلیم صرف مولویوں کے بچوں کے لئے ہی ہے۔ حالانکہ دین کی بنیادی تعلیمات جن میں نماز جنازہ پڑھانا بھی شامل ہے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے ۔ ہمارے بچے آئی ٹی سے لیکر اکنامکس اور سائنس تک فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیں مگر باپ کی نماز جنازہ پڑھانا تو دورکی بات پڑھنی بھی شاید ہی کسی کی آتی ہو گی۔ جس ” اقراء” سے انسانی علم کی معراج نے جنم لیا تھا ، آج اسی کا علم ہمارے لئے باعث شرمندگی کیوں بننے لگا ہے؟
ایسے معاشرے میں زنا ، چوری ، اور قتل جیسے سنگین جرائم اور گناہ عام ہونا اچنبھے کی بات تو نہیں ہونی چاہئیے۔ جو بویا تھا وہ کاٹ رہے ہیں اور جو آج بو رہے ہیں کل کو وہی کاٹیں گے ۔
ہم یہ کب سمجھیں گے کہ ہم اپنی نام نہاد آزادی کی خاطر اپنے بچوں اور آئندہ نسل کے لئے اس معاشرے کے نام پر کیسا آگ کا گڑھا کھود کر جا رہے ہیں ۔ سب کچھ ہی تو ادھار کا لے رکھا ہے ہم نے۔ نہ لباس اپنا نہ زبان اپنی۔ نہ تعلیم اپنی نہ طرز زندگی۔ بھلا ادھار لینے والا بھی کبھی چین کی نیند سویا ہے ۔ اور ہم اس ترقی یافتہ دور کے انسان ہو کر کتنے بےوقوف ہیں جو یہ ادھار بمع سود اپنی آئندہ نسل کو بھی سونپ کر جانے والے ہیں ۔
ہم نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے دیا ہے جس کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہیں۔ ایک ایسا شیش محل جس کی دیواروں کی تزئین و آرائش تو برآمدی اشیاء سے کر لی گئی ہے مگر بنیادوں پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی گئی۔ کھوکھلی بنیادوں پر کھڑا یہ ڈھانچہ کسی بھی وقت دھڑام سے زمین بوس ہو گا اور ہم سب اس کے ملبے تلے دب جائیں گے۔ مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ سفید کوے بن چکے ہیں یا پھر کالے ہنس ۔ سن کر کتنا عجیب لگتا ہے نا۔ تو ایسا ہونا کتنا عجیب ہو گا یہ آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے۔
کسی پودے کی جڑ کاٹ کر اسے نئی جگہ منتقل کر دیا جائے اور وافر خوراک کا انتظام کر دیا جائے تو بھی وہ چند دن میں ہی مرجھانے اور سوکھنے لگے گا۔
ہم اپنی آئندہ نسل کو کچھ ایسی ہی تہذیب اور معاشرت کا تحفہ دے رہے ہیں جس میں سرے سے جڑ موجود ہی نہیں ۔ اپنے ہاتھوں لگائے پودے اپنی آنکھوں سے سوکھتے دیکھنا بڑی اذیت ہے۔
خدارا ابھی بھی وقت ہے ، اس بھیڑ چال میں کھو کر اپنی زندگی کا محور و مرکز مت بھول جائیں ۔ اپنے آپ کو پہچانئے ، اپنا مقصد حیات جانئے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی آئندہ نسل کی زندگی سنوارنے میں بھی معاونت کیجئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس