بچپن میں ہر جمعرات کو کو پی ٹی وی پر سہ پہر کو پاکستانی اردو فلم نشر کی جاتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محلے میں صرف گنے چنے گھروں میں ٹیلی ویژن ہوا کرتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب کافی حد تک معیاری پاکستانی فلمیں بنا کرتی تھیں یا ٹی وی پر دکھائی جاتی تھیں۔ انڈین فلمیں دیکھنے کا واحد ذریعہ وی سی آر ہوا کرتے تھے۔ 1996یا 1997 میں والد محترم نے ٹی وی یہ سوچ کر بیچ دیا کہ بچوں کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔ بعد میں حالات نے اجازت نہ دی کہ ٹی وی خریدا جا سکے۔ اور ٹی وی کی گھر میں دوبارہ آمد 2007 کے آس پاس ہوئی۔ اور اس وقت پاکستانی فلم انڈسٹری کا جو حال تھا اس سے سب ہی واقف ہیں۔ سو ہمارا جب بھی فلم دیکھنے کا ارادہ ہوا کیبل پر انڈین فلم دیکھ کر دل بہلا لیا۔
پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل پاکستانی فلمیں سینما کی زینت بن رہی ہیں لیکن اب وقت کی قلت کے باعث دیکھنے کی نوبت نہیں آتی۔ دو سال قبل علی سجاد شاہ نے عارفہ بنانی شروع کی تو سوچا چلو ہم بھی سینما میں فلم دیکھ آئیں گے۔ عارفہ تو ریلیز نہ ہوئی ابو علیحہ گمشدہ ہو گیا۔ واپس آیا تو عارفہ کی ریلیز رک گئی اور اتنے عرصے میں کتاکشا تیار ہو کر سینما میں آگئی۔ لاہور میں 23 جون کو پریمئیر رکھا تو دیگر دوستوں کےساتھ مجھے بھی دعوت نامہ ملا ۔
کتاکشا ایک سائیکالوجیکل ہارر فلم ہے۔ انتہائی کم بجٹ میں اور مختصر کاسٹ کے ساتھ بنائی گئی ایک منفرد فلم۔ فلم کا رائٹر بھی علی سجاد شاہ ہے اور ڈائریکٹر بھی۔ ایک اچھا کام یہ کیا کہ ہیرو خود نہیں بن گیا اور اس کے پاس ہیروئن بننے کی آپشن نہ تھی ۔ تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے کی طوالت کی فلم ہے۔ فلم کے پانچ کردار ہیں۔ سلیم معراج نے ڈرائیور کا کردار نبھایا ہے۔ اور اپنے حصے کا کردار بہت احسن انداز سے نبھایا ہے۔ قاسم خان نے کیمرہ مین کا کردار ادا کیا ہے۔ کرن تعبیر پروگرام پروڈیوسر اور نمرہ شاہد نیوز رپورٹر کے کردار میں ہیں۔ نبیل گبول گائیڈ کے کردار میں ہیں۔ پہلے چاروں اداکار ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں اور چینل سے ملنے والے ایک ٹاسک کے سلسلے میں کٹاس راج جا رہے ہیں۔ چاروں اپنی اپنی نجی زندگی میں مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ اور تلخی سے بھرے ہوئے ہیں۔ تلخی اس قدر ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے نمایاں ہو جاتی ہے۔ خصوصاََ جب سلیم معراج اور قاسم خان آپس میں بات کرتے ہیں۔
فلم کی خاص بات فلم کے جاندار مکالمے ہیں۔ علی سجاد شاہ کے طرزِ تحریر سے سوشل میڈیا کے وہ صارفین جو انہیں سوشل میڈیا پر پڑھتے رہتے ہیں وہ بہ خوبی جانتے ہیں۔ وہی کاٹ اور وہی انداز فلم میں ملتا ہے۔ اور کرداروں نے جس انداز میں مکالموں کا ادا کیا ہے وہ بھی بہت خوب ہے۔ خصوصاََ سلیم معراج نے پنجابی لہجے میں جو مکالمے بولے وہ کمال تاثر پیدا کرتے ہیں” سچا عاشق کبھی لین میں نہیں لگتا۔ ہمیشہ دیوار ٹپ کے آتا ہے۔ دیوار چاہے دل کی ہو، سماج کی یا کسی خوبصورت حسینہ کے گھر کی” ۔ "پہاڑوں کی صرف خوراک ہی خالص نہیں ہوتی چرس بھی خالص ہوتی ہے”۔ اور ایک سین میں جب کرن تعبیر کو پنجابی غزل سناتا ہے تو وہ بھی کمال انداز میں ادائیگی ہے۔ مبین گبول کے مختصر مگر جاندار مکالمے بھی فلم میں جاندار کردار ادا کرتے ہیں۔ "میڈم جی علاقہ خوبصورت ہے لیکن بندے سارے میرے جیسے ڈب کھڑبے ہیں” اور آخری ڈائیلاگ بھی کمال بولا”ہر کوئی اپنا ڈر ساتھ لے کر آتا ہے”۔ گو کہ فلم ہے لیکن مکالمے حقیقی زندگی کی تلخی لیے ہوئے ہیں۔ فلم دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ کٹاس راج پہنچنے سے قبل کا ہے اور دوسرا کٹاس راج پہنچنے کے بعد کا ہے۔ ہارر کا آغاز فلم کے دوسرے حصے میں ہوتا ہے۔ مختصر کاسٹ کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے میں بہترین کام لینے اور بہترین کہانی ترتیب دینے میں بلاشبہ ابو علیحہ کامیاب رہا ہے۔ پانچوں کرداروں سے مکالموں کی جاندار ادائیگی کروائی ہے اور مناظر کی عکس بندی بھی انتہائی شاندار ہے۔ ابتدائی حصے میں جب دوران سفر شوٹ ہے تب کیمرہ یا تو فلم میں سفر کا تاثر برقرار رکنے کے لیے Shaky رکھا گیا یا فالٹ ہے یہ ابو علیحہ بہتر بتا سکتا ہے۔ مجھے تھوڑا عجیب لگا۔ لیکن یہ کمی کٹاس راج پہنچ کر نظر نہیں آئی وہاں کیمرے کا کام بہترین تھا۔خصوصاََ جہاں جہاں تھرل یا ہارر کا سین عکس بند کیا گیا ہے وہاں کیمرہ مین نے غلطی نہیں کی۔
فلم دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ کٹاس راج پہنچنے سے قبل کا ہے اور دوسرا کٹاس راج پہنچنے کے بعد کا ہے۔ ہارر کا آغاز فلم کے دوسرے حصے میں ہوتا ہے۔ مختصر کاسٹ کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے میں بہترین کام لینے اور بہترین کہانی ترتیب دینے میں بلاشبہ ابو علیحہ کامیاب رہا ہے۔ پانچوں کرداروں سے مکالموں کی جاندار ادائیگی کروائی ہے اور مناظر کی عکس بندی بھی انتہائی شاندار ہے۔ ابتدائی حصے میں جب دوران سفر شوٹ ہے تب کیمرہ یا تو فلم میں سفر کا تاثر برقرار رکنے کے لیے Shaky رکھا گیا یا فالٹ ہے یہ ابو علیحہ بہتر بتا سکتا ہے۔ مجھے تھوڑا عجیب لگا۔ لیکن یہ کمی کٹاس راج پہنچ کر نظر نہیں آئی وہاں کیمرے کا کام بہترین تھا۔خصوصاََ جہاں جہاں تھرل یا ہارر کا سین عکس بند کیا گیا ہے وہاں کیمرہ مین نے غلطی نہیں کی۔
بیک گراؤنڈ میوزک کی بات کریں تو میرے حساب سے وہ بھی ہارر سینز کے حساب سے بہترین تھی۔ خوف کا تاثر پیدا کرنے میں مکمل کامیاب۔ رات کی تاریکی کے مناظر جہاں کیمرے نے کمال مہارت سے پیش کیے وہاں موسیقی نے اپنا پورا پورا رول اس کو مزید ہیبت ناک بنانے میں ادا کیا۔ بطور ہدایت کار اور لکھاری علی سجاد شاہ کا یہ پہلا پراجیکٹ ہے۔ اس قدر کم بجٹ میں ہارر فلم بنانا بھی ایک ریکارڈ ہے۔ پہلا قدم اس قدر عمدگی سے اٹھانا بھی ایک ہمت والا کام ہے۔ ہمیں علی کا حوصلہ بڑھانا چاہیے۔ یقیناََ وہ اگلے پراجیکٹس میں مزید جان لڑائے گا۔ اگلے ماہ جولائی میں ہی دوسری فلم تیور (پہلے اس کا نام عارفہ تھا) ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ امید ہے وہ کتاکشا کے بنائے ریکارڈ بھی توڑے گی۔ اور علی سجاد شاہ کا فلم انڈسٹری میں ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہو جائے گا۔
فلم انڈسٹری یا فلم پر تبصرہ میرا موضوع نہیں۔ نہ ہی ان کی جزئیات کا علم ۔ ایک فلم دیکھ کر جو تاثر بنا اس پر اپنے حساب اور اپنے انداز میں جو سمجھ میں آیا وہ علی سجاد شاہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ گو کہ فلم میں کچھ خامیاں بھی ہوں گی جو یقیناََ مستقل فلم بینوں کو نظر بھی آئی ہوں گی اور انہوں نے علی سجاد شاہ کو بتائی بھی ہوں گی۔ اور امید ہے علی سجاد شاہ انہیں اپنی آنے والی فلموں میں مزید بہتر بھی کرے گا۔ لیکن پہلا قدم اٹھانے پر اور بہترین موضوع پر ایک اچھا کام پیش کرنے پر مبارکباد اور شاباش کا مستحق ضرور ہے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn