آزاد کشمیر کے ریاستی انتخابات میں سرکاری اعلان کے مطابق اسلام آباد میں برسراقتدار مسلم لیگ نواز واضع اکثریت کے ساتھ جیت گئی ہے ، اس فتح کے موقعہ پرہمارے بیماروزیر اعظم نے خود مظفرآباد پہنچ کر اپنی جماعت کی فتح کی خوشیاں شیئر کیں اور ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو خوب سنائیں اور خوب ان پر برسے، انہوں نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نواز کی کامیابی کو اپنی حکومت کی کارکردگی سے تعبیر کیا اور مخالفین کو نصیحت کی کہ کامیابی کچھ کرنے سے ملتی ہے منفی سیاست اور دھرنوں سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی ۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں اپنی جماعت کی جیت کو وزیر اعظم اپنی حکومت کی کارکردگی کہیں یا اپنی قیادت کا کرشمہ قرار دیں لیکن ہمارے جگری یار اصغر عبداللہ وزیر اعظم کے اس موقف سے اتفاق کرنے پر آمادہ نہیں ، اس کا کہنا ہے ( مجھے بھی اس سے کلی اتفاق ہے) کہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں انتخابات جیتنا اسلام آباد میں برسراقتدار ہر حکومتی جماعت کا حق ہوتاہے کیونکہ بظاہر ہماری نظر میں آزاد کشمیری اور گلگتی و بلتستانی ان پڑھ ،گنوار، جاہل اور پسماندہ ہیں لیکن وہ اپنے اچھے برے کو خوب پہنچانتے ہیں، وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ اسلام آباد میں برسراقتدار جماعت کی اپوزیشن کو ووٹ دینے کا مقصد اپنے شہروں ،دیہاتوں اوراپنی گلی محلوں کی ترقی کو منجمد کرنا ہے، جو انہیں پسند نہیں لہذا وہ ہر اس جماعت کو منتخب کرتے ہیں جو اسلام آباد میں برسراقتدار ہوتی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ترقیاتی فنڈز کا اجراء تو کشمیر کونسل سے ہونا ہے جو وزارت کشمیر کے ماتحت ہے۔میری اس دلیل کو سمجھنے کے لیے گذشتہ ادوار میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا مشاہدہ کافی ہوگا۔ اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھا تو اسکے حامی کشمیر اور گلگت وبلتستان میں جیتے، اور اگر اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو یہاں پیپلز پارٹی نے انتخابی میدان مارا ،اس لیے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نواز کو فتح حاصل ہونا کوئی انہونی نہیں۔میں نے اپنے ایک عزیز دوست سردار ساجد محمود عاجز جو کشمیری ہیں اور آجکل روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہے سے آزاد کشمیر کی سیاست اور حالیہ انتخابی نتائج سے متعلق دریافت کیا تو اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ’’ آزادکشمیر کی سیاست ۔۔۔اسلام آباد کو ووٹ ہوتا ہے بس‘‘بھارتی مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔
مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر میں بے مثال انتخابی فتح پر جو مرضی موقف اپنائیں جس کو جو جی چاہے سنائیں یہ ان کا حق بنتا ہے ہاں اپنی اس لازوال جیت پر مخالفین کے متعلق کچھ کہنے سے احتیاط کا دامن تھام لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ورنہ دوہزار اٹھارہ کے بعد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی حالت بھی ایسی ہو سکتی ہے تو پھر آپ بھی یہیں کچھ کہیں گے جو بلاول بھٹو زرداری اور بیرسٹر سلطان محمود کہہ رہے ہیں۔
الزامات کا سلسلہ جاری ہے اور اگلے انتخابات تک جاری رہے گا اور انتخابی عذر داریوں پر بھی کارروائی آئندہ انتخابات کے انعقاد تک چلتی رہے گی۔الزامات لگانے والوں نے تو کہا ہے کہ ان انتخابات میں نواز شریف اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘نے پندرہ کروڑ روپے تحریک انصاف کے امیدواروں کو ہروانے کے لیے خرچ کیے ہیں۔ کتنا بھونڈا اور بے وزن الزام ہے کیا کوئی اس بات کو تسلیم کریگا کہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر جو برسراقتدار بھی ہے اور تحریک انصاف کے کے صدر بیرسٹر سلطان محمود جنکے پاس دولت کے انبار موجود ہیں محض پندرہ کروڑ روپے سے شکست کھا گئے؟ سیاسی راہنماؤ ں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے انتخابات میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے لیکن اخلاقیات سے گری سیاست کرنے سے گریز کیا جائے تو ہمارا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ اس حقیقت سے نظریں چرانے کی بجائے اسے تسلیم کریں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اس میں بلوچستان کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ یہاں مقدر کا سکندر ہوئی جماعت ہوتی ہے جس کے پاس اسلام آباد ہو۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم جن کے بارے میں ان کی ذہین فطین لائق فائق صاحبزادی نے گذشتہ دنوں ہی خبر فراہم کی تھی کہ ان کے والد کی ٹانگ میں انفکشن ہے اور یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ وزیر اعظم ٹانگ کے علاج کے لیے ایک بار پھرلندن جائیں گے اور اس مقصد کے لیے ان کے صاحبزادے حسین نواز سعودی عرب سے لندن پہنچے ہیں جہاں وہ ڈاکٹروں سے وقت لیں گے، لیکن ایک روز کے وقفے سے ہی وزیر اعظم سفر کرکے مظفر آباد پہنچ گئے اور عوامی اجتماع سے بھرپور خطاب کیا ۔اگر ٹانگ میں انفکشن ہے تو وزیر اعظم چلنے سے معذور ہوتے لیکن چشم جہاں نے دیکھا کہ وزیر اعظم بغیر کسی سہارے کے سٹیج پر پہنچے۔۔۔اصل کہانی کیا ہے اس سے پردہ تو آنے والے دنوں میں اٹھے گا۔ جب تک یہ راز افشا ہوگا تب تک اپنے یار مشتاق منہاس مظفرآباد میں وزارت عظمیٰ کا حلف لے چکے ہوں گے، مجھے تو مشتاق منہاس کے آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بننے پر بھی تحفظات ہیں کیونکہ دنیا جانتی ہے تو مشتاق منہاس بھی اس بات سے آگاہ ہوگا کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی اہمیت اور قوت کیا ہے۔عزت اور وقار کتنا ہے؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn