Qalamkar Website Header Image

پاکستان کی جمہوریت کو کس سے خطرہ ہے ؟| کنول زہرا

ریاست کے استحکام اور پائیداری امن کے لئے جہاں حکمرانو ں کو بہتر حکمت علمی مرتب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دفاعی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے. پاکستان طویل عرصے سے حالات جنگ میں ہے. وطن عزیز کے دگرگوں حالات کو انتشاری سوچ کے حامل افراد ( جو اعلیٰ منصب پر بھی فائز ہیں ) وہ پرائی جنگ کا نام دے رہے ہیں. ان غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے والے ہم وطنوں سے گذارش ہے کہ جنگ چاہے اپنی ہے یا پرائی، مارا بہرحال پاکستانی ہی جا رہا ہے تو ذرا اقامے زدہ پاکستانی وزراء بیان بازی سے پہلے حالات کی نوعیت کا جائزہ لے لیا کریں تو مہربانی ہوگی. یہ ہی بات مذہبی سیاست کرنے والوں کے لئے بھی ہے. کون بھول سکتا ہے پر آشوب سولہ دسمبر 2014 جب آرمی پبلک اسکول، پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گی. اگرچہ پاک آرمی نے سفاک دہشتگردوں کو موقع پر ہی نشان عبرت بنادیا تھا تاہم بعد ازاں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ملک میں دیر پا قیام امن کی خاطر 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان پیش کیا تھا. حکومت کا یہ اقدام یقینا قابل ستائش ہے جبکہ قبل اس کے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے” غیر تفصیلی” تین گھنٹے پر مشتمل پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں ریاستی دہشت گردوں کے لئے کہا تھا کہ "یار ان پر ڈرون حملے ہو رہے ہیں یار ، ان کے بچے مر رہے ہیں. بعد ازاں ریاست کے معصوم خاک و خون میں لت پت ہوگئے اور پاکستان دشمنوں نے بڑے فخر سے ذمہ داری قبول کرلی.جس کے فوری بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت آرمی آپریشن "ضرب عضب” کا آغاز ہوا. اس بیس نکاتی ایجنڈے کو آئے تین سال کا عرصہ بیت گیا ہے. بدقسمتی سے حکومت اپنے تیار کر دہ ایجنڈے پر پورا نہیں اتر سکی ہے. جس کا اعتراف سابق وزیر دفاع جبکہ موجودہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کیا کہ حکومت نے اپنا کام نہیں کیا جبکہ مسلح افواج نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا.
میری ناقص معلومات کے مطابق پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کی فوج ریاستی امور میں اس حد تک متحرک نہیں ہوتی ہو گی جیسے کہ افواج پاکستان وطن عزیز کی خدمت پر مامور ہے . پاکستان میں الیکشن ہوں پاک فوج کی خدمات لی جاتی ہیں. مردم شماری پاک فوج کے بنا ممکن نہیں ہوتی ہے. کرکٹ میچ کا انعقاد مسلح افواج کی ذمہ داری ہے حد تو یہ ہے کہ بارش کے بعد نکاسی آب کا مسلہ حل کرنا بھی پاک افواج کا ہی کام ہے. مقام افسوس یہ ہے کہ جو کام جمہوریت کو کرنے چاہئیے ہمارے نام نہاد جمہوری حکمران وہ تو کر نہیں سکتے ہیں البتہ میمو گیٹ اور ڈان لکیس کے امور بڑی دلچسپی اور جوان مردی سے ادا کرتے ہیں . خیر جناب ڈان لیکس کے معاملے پر مجھے "جوان مردی ” کا لفظ استعمال کرنا چاہئیے تھا کہ نہیں اس کا فیصلہ پڑھنے وا لے خود کرلیں کیونکہ اس بابت کچھ "مرد مار” صنف نازک کی کاوشوں کی چہ میگوئیاں بھی سنی گئی ہیں. بہر حال آ گے چلتے ہیں. پاکستان میں آج کل احتساب کے عمل کا سلسلہ چل رہا ہے. بعض حلقوں کی جانب سے اصرار ہے کہ عسکری قوتوں سے بھی پوچھ گچھ کی جائے. یقینا یہ درست بات ہے مگر کیا یہ مناسب نہیں کہ عوام ان حکمرانوں سے یہ پوچھے کہ آپ حضرات ہمارے ووٹوں کی وجہ سے معززین میں شمارہوئے ہیں. اقتدار پر منتخب ہونے کے بعد آپ صاحبان نے کیا کیا جمہوری اقدام کیا ؟ ایک فوجی ڈکٹیٹر توآئین کو معطل کرکے اقتدار پر قابض ہوتا ہے. مگر ایک آئینی حکمران کو کیا قباحت ہے کہ وہ ملک میں تعلیم وصحت کے نظام کو بہتر نہیں بنا سکتا. بنیادی ضروریات اور روزگار کے بہتر مواقع نہیں دے سکتا ؟ یہاں تو یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر بیواؤں کے منافع میں اضافہ کرتا ہے جبکہ آئینی وزیراعظم اس میں کمی کر دیتا ہے. ایک ڈکٹیٹر پانی کے مسائل حل کردیتا ہے جبکہ آئینی حکمران اس ملک کو ساڑھیوں کے تحفے ارسال کرتا ہے جو پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے. چلیں مان لیا کہ پڑوسی ممالک سے تعلقات اچھے ہونے چا ہئیے مگر جب بھارت کی وزیر خارجہ پاکستان کے خلاف زہر اگلتی ہیں تو ہمارے وزیر خارجہ کا قلم دان بیان سے قاصر کیوں ہوتا ہے ؟ ہمارے یہاں سابق آرمی چیف ضیاء الحق کے آمرانہ دور اور صحافیوں کو کوڑے لگنے کی باتیں تو زبان زد عام ہیں مگر جمہوری دور کے ان اخبارات اور صحافیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جن پر جمہوری آمر نے پابندی عائد کی تھی. وطن عزیز میں "نادیدہ ہاتھ ” کو "ڈیڈی” اور "روحانی باپ ” کی رسم بھی تو جمہوری آمروں نے ہی ڈالی تھی ناں ؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت اس قدر کمزور کیوں ہے؟ ہماری جمہوریت کو کسی بھی کام کی شفافی کے لئے غیر جمہوری قوت کی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟ جمہوری نمائندے پولیس ٹرینیگ کے لئے بھی عسکری ادارے کو مصروف عمل کرتے ہیں، حد تو ہے کہ کرکٹرز کی کارگردگی کی بہتری کے لئے بھی فوجی ٹریینگ کے محتاج ہیں. پاکستان کی جمہوریت گواہ ہے کہ نوجوان نسل میں دہشتگردی و انتہا پسندی کے رحجانات پر عسکری قیادت تشویش کا اظہار کررہی ہے جبکہ مرکز اور صوبوں کی حکو مت اس بابت کوئی حکمت علمی مرتب دینے سے معذور نظر آرہی ہے. وفاقی حکومت کو "مجھے کیوں نکالا ” کا صد مہ ہے جبکہ اگر میں صوبوں صرف سندھ کی بات کروں ( چونکہ میرا تعلق سندھ سے ہے ) تو صوبہ سندھ کی حکومت اپنے قائد حزب اختلاف کو بچانے کے لئے مصروف عمل ہے. اب ذرا کوئی اس ملک کے عوام کو بتائے کہ پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ کس سے ہے ؟

حالیہ بلاگ پوسٹس