انڈمان نکوبار
جزائر انڈمان نکو بار بحرِ ہند میں واقع ہیں۔ بحر ہند دنیا کا تیسرا بڑا سات کروڑ پینتیس لاکھ مربع کلومیٹر چوڑا سمندر ہے ،اس کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ صرف اس ایک سمندر میں براعظم ایشیا اور افریقہ کے تمام ممالک یا براعظم یورپ جیسے آٹھ بر اعظم سماسکتے ہیں، اس طرح یہ پوری دنیا کے بیس فیصد پانی کو گھیرے ہوئے ہے،بعض جگہ اس کی گہرائی ۲۵ہزار فٹ سے بھی زیادہ ہے، بہ الفاظ دیگر اس میں ڈھائی ہزار منزلہ عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے جس کی پہلی منزل اس کی تہہ میں ہو تو آخری منزل سطح سمندر پر ،بحر عرب ،خلیج فارس اور خلیج بنگال سب اسی میں واقع ہیں۔
ہندوستان سے جزائر انڈمان نکو بار کی غیر معمولی دوری کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انڈومان کی جنوبی سرحد سے ملیشیا صرف ایک سو کلومیٹر دور ہے ،اسی طرح اس کی سرحد کی لمبائی کا اندازہ صرف اس سے ہوتاہے کہ اس کی شمالی سرحد سے برما صرف ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ،انڈومان پوری دنیا میں اس اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کہ وسطی انڈومان میں تقریباً ساڑھے چھ سو مربع کلومیٹر کے جزیروں میں پتھروں اور فولاد کے زمانہ کے تہذیب وتمدن سے عاری وحشی قسم کے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہمیشہ برہنہ رہتے ہیں ،پوری دنیامیں ان کی زبان کوئی نہیں سمجھ سکتا ،وہ مہذب انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ،زندگی بھر جنگلوں سے باہر نہیں نکلتے ،ان کے سر گول ہیں اور آنکھیں باہر نکلی ہوئی،لیکن ان کے دانت نہایت چمکیلے وسفید اور بال گھنگریالے ہیں ،ان کی غذا کیڑے مکوڑے ، سمندری کیچوے اور جنگلی پھل ہیں،آج بھی وہ ماچس کے بجائے پتھر رگڑ کر آگ جلاتے ہیں ،ان کے مکانات اور رہن سہن کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرت آدم کے زمانہ کے قرن اول کے لوگ ہیں زمانہ میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعہ یا زمین پر ہونے والے کسی بھی حادثہ کا نہ ان کو علم ہے نہ اس سے کوئی واسطہ ،حکومت کا کوئی قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، یہ لوگ شہری اور مہذب انسانوں سے وحشت کرتے ہیں اور ان سے دور بھاگتے ہیں یا پھر ان پر حملہ کرتے ہیں ،ان کے علاقوں کو حکومت نے محفوظ قرار دے کر اس کے آس پاس پہرہ بٹھا دیا ہے ،سرکاری اجازت کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاسکتا،آج بھی ان وحشی انسانوں کی تعداد کا صحیح علم نہ حکومت کو ہے اور نہ کسی اور کو ۔ انڈومان کے یہ جزائر یوں تو صدیوں سے آباد ہیں اور وہاں کے قریب سے ہمیشہ تجارتی وسیاحتی قافلے گزرتے رہے لیکن وہاں رک کر مستقل آباد ہونے کی ان وحشی انسانوں سے ڈر کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی پہلی دفعہ۱۷۵۹ ء میں سبز قدم انگریز قیدیوں کی مستقل کالونی بنانے کے لیے اس کالونی پر وارد ہوئے۔
کالا پانی سے پہلے کالا پانی:
”ابردین بازار“ پورٹ بلیئر کا مرکزی بازار ہے۔ پورٹ بلیئر کا نام جزائر انڈمان کے بحری راستے کی تلاش کرنے والے برطانوی کیپٹن بلیئر کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کیپٹن بلیئر نے انڈمان کے بحری راستے کی تلاش ……. میں کی تھی۔
ان دنوں ابردین بازار میں تمام لوازماتِ زندگی کے ساتھ بہترین ہوٹل، ریسٹورینٹ موجود ہیں۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں ؟ جب یہ بازار نہیں تھا، صدیوں قبل یہاں انڈمانی قبائلی آباد تھے، ان کی بستیاں تھیں، اس وقت ۱۷۵۹ء میں انگریز جب یہاں داخل ہوئے تو یہاں کے غیرمہذب وحشیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اور ایک خوں ریز جنگ کے بعد یہاں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وقت فرنگی لشکری یہاں اپنے ۲۰۰ قیدیوں کو لے کر اس زمین پر قابض ہونے آئے تھے۔
سزاے کالا پانی کے لیے اس سر زمین کا انتخاب کرنے سے پہلے انگریزوں کے قیدی ”بینکو لین“ میں قید کیے جاتے تھے۔آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کسی قیدی کو انڈمان بھیجنے کے لیے ”کالا پانی“ لفظ کا استعمال کیوں کیا جاتا تھا۔ ممکن ہے اس کا مطلب ”سمندر پار“ بھیجنا رہا ہو جو ہندوستان سے ہزاروں کوس دور واقع تھا، اور ہندوستانی محاورے میں طویل فاصلے کے لیے ”کالے کوس“ جیسے الفاظ پہلے ہی سے رائج تھے۔کالا پانی کی سزا ایسے باغیوں اور مجرموں کو دی جاتی تھی جنھیں سزاے موت کی بجاے عمر قید کی سزا دینی ہوتی تھی۔ لیکن بیسویں صدی کی ابتدا میں یہ سزا انھیں بھی دی جانے لگی جنھیں برطانوی نو آبادیاتی نظام اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا تھا۔ کالا پانی کو ایک طرح سے ملک بدر کی سزا سمجھا جا سکتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کے دور میں کبھی اس طرح کی سزا کسی ہندوستانی کو نہیں دی گئی، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندو دھرم کے لوگ سمندر پار جانے کو ”گناہِ عظیم “تصور کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ سمندر پار کرنے سے ان کا دھرم بھرشٹ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی ذات کھو دیتے ہیں۔ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے ان کی اس فکر کا سیاسی طور پر احترام کیا اور کبھی کسی غیر مسلم کو براہِ سمندر ملک بدر کرنے کی سزا نہیں دی۔یہ روایت بلا شبہہ انگریزاپنے ساتھ لائے۔
ہندوستانی قیدیوں کے لیے پہلی تعزیری بستی یعنی ”پینل سیٹلمنٹ“ انگریزوں نے ”بینکو لین “ نامی مقام پر بنائی تھا۔ یہ جگہ ”جزیرہ سماترا “ میں واقع ہے۔ انگریزوں نے یہاں ۱۷۸۵ءمیں قبضہ کیا تھا۔سب سے پہلے ۱۷۸۷ء میں چند قیدیوں کو یہاں ”مارل بارو“ کے قلعے میں قید کیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں بھیجے جانے والے زیادہ تر قیدیوں کو قتل، لوٹ، ڈکیتی، ٹھگی اور فریب کاری کے کیسوں میں سزا دی گئی تھی۔
۱۸۲۳ ء میں جب ”بینکولین“ پر ڈچ قوم کا قبضہ ہو گیا تو ان قیدیوں جزیرہ ”ملایا “ کے ”پینانگ“ نامی مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ یہ انگریزوں کی دوسری تعزیری بستی تھی۔اس وقت یہاں بنگال اور مدراس پریسیڈینسی سے آئے تقریباً ۹۰۰ افراد قید تھے۔ ان دو مقامات کے علاوہ انگریزوں نے سنگا پور اور ملکّا میں بھی اپنی تعزیری بستیاں بسا رکھی تھیں۔ ۱۸۳۲ء میں ان تمام قیدیوں کو سنگا پور بھیج دیا گیا۔ ۱۸۲۶ ء کے بعد اسی طرح کی تعزیری بستیاں میانمار کے ”اراکان“ اور” تیناس ریم “ اور ”ماریشش “میں بھی قائم کی گئیں ۔ تعزیری بستیوں کا یہ سفر مختلف ملکوں اور جزائر سے ہوتا ہوا خلیجِ بنگال میں واقع جزائر انڈمان تک پہنچ کر اس وقت ختم ہوا جب یہاں مستقل تعزیر بستی قائم کی گئی اور ۱۸۵۷ء میں مذکورہ تمام تعزیری بستیوں کے قیدیوں کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔
کالا پانی کی مختصر تاریخ:
سید مظہر علی شاہ رقم طراز ہیں:
کالا پانی کا نام سنتے ہی ذہن میں اس جیل خانے کا نقشہ ابھر آتا ہے کہ جہاں جو بھی ایک مرتبہ گیا وہ شاذ ہی زندہ واپس لوٹا بلکہ اس کی لاش کو بھی اپنے وطن کی مٹی نصیب نہ ہوئی ۔ کرہ ارض پر یوں توکئی اور جیلیں بھی موجود ہیں امریکہ نے القاعدہ اور طالبان قیدیوں کیلئے گوانتاناموبے جیسی اذیت ناک جیل بنائی ہے مگر کالا پانی کی جیل اس سے بھی بدتر تھی۔ اس جیل میں قیدی اگر سخت جسمانی مشقت سے نہ مرتے تو ملیریا سے ضرور مر جاتے کیوں کہ جس جزیرے پر وہ بنائی گئی تھی وہاں ملیریا کی بیماری عام تھی اور اس کا علاج نہ ہونے کے برابر۔ جو قیدی خوش قسمتی سے ۱۹۴۷ء میں آزادی ہند کے موقع پر وہاں سے رہا ہو کر واپس آئے ان کی زبانی اس قید خانے میں ان کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک کیا گیا تھا اس کی روداد سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گوانتاناموبے کی جیل میں بھی امریکی، قیدیوں کے ساتھ نہایت ہی انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں مگر ان کا ظلم، بربریت اور ٹارچر ان مظالم کا عشر عشیر بھی نہیں جو فرنگی کالا پانی کی جیل میں اپنے قیدیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے خلیج بنگال میں بھارت کے مغرب اور برما کے شمال اور مشرق کے درمیان کا جو علاقہ ہے اسے بحر الجزائر کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اسی علاقے میں انڈمان اور نکوبار ناموں سے جو جزیرے پائے جاتے ہیں ان کو کالا پانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان جزیروں سے ہماری تاریخ کی کئی داستانیں منسوب ہیں ان جزائر کا ذکر نویں صدی میں عرب جغرافیہ دانوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔
دسویں صدی میں ایک ایرانی جہاز راں ”بزرگ ابن شہریار“ نے اپنی کتاب” عجائب الہند“ میں ان جزیروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں آدم خور انسان بستے ہیں ۔ مشہور جہاں گرد” مارکوپولو“ نے بھی اپنی کتاب میں ان جزائر کا تذکرہ کیا ہے ۔ ماضی بعید میں بنگال کی حکومت نے ۱۷۸۹ء میں ان جزائر کے جنوب مشرق میں ”چتھم“ نامی ایک مقام پر ایک کالونی قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن چوںکہ اس علاقے میں کئی وبائی قسم کی بیماریاں پھیلتی تھیں اس لیے۱۷۹۶ء میں اس منصوبے کو ترک کردیا گیا۔ ۱۸۴۰ء میں برما کی پہلی جنگ کے دوران جب فرنگی ان جزائر پر اترے تو مقامی لوگوں نے ان کو قتل کردیا جس کی وجہ سے ۱۸۵۵ء میں انہوں نے ان جزیروں پر اپنی کالونی بنانے کے بارے میں سوچا اور ساتھ ہی ساتھ وہاں پر ایک بڑے جیل خانے کی تعمیر کا بھی فیصلہ کیا ۔اسی دوران ہندوستان میں جنگ آزادی کی آگ بھی بھڑک اٹھی اور ہزاروں آزادی کے متوالوں کو گرفتار کیا گیا جن کو محفوظ جیلوں میں رکھنا مقصود تھا چناں چہ ان کو بطور سزا ان دلدلی جزیروں میں بھجوایا گیا اور ان کو جبری مشقت پر مجبور کرکے ان سے وہاں جیل کی تعمیر میں مزدوری کرائی گئی چوںکہ وہاں کی آب و ہوا خراب تھی لہٰذا سیکڑوں قیدی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، انہی جزیروں میں شیر علی نامی ایک قیدی نے جو افغانی تھا ہندوستان کے وائسراے رچرڈ ساؤتھ ویل کو۶؍ فروری ۱۸۷۲ءکو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ۱۹۴۲ء میں کچھ عرصہ تک ان جزائر پر جاپان کا قبضہ رہا ۔یہ وہی دور تھا جب سبھاش چندر بوس کی قیادت میں وہاں عارضی ”حکومت آزاد ہند“ قائم کی گئی ۔جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی اور جاپان نے شکست کھائی تو کالاپانی کاعلاقہ پھر فرنگیوں کے ہاتھ لگ گیا کالا پانی میں واقع جیل کا خاصا یہ تھا کہ وہاں ہر قیدی کو علاحدہ سیل میں رکھا جاتا تھا، تا کہ وہ تنہائی کا شکار ہو کر ذہنی طورپر مفلوج ہو جائے کالا پانی کی جیل اپنے اندر کئی قصے اور کہانیاں سموئے ہوئے ہے۔۱۹۰۶ء سےلے کر ۱۹۴۷ء تک بلکہ۱۸۵۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کے عرصے میں جس قیدی کو بھی فرنگیوں نے کالاپانی کی سزا دی اور اسے وہاں بھجوایا وہ پھر کبھی واپس نہ آیا۔ ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو کالاپانی کا جیل خانہ بند کردیا گیا اور اب وہ ایک میوزیم کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔
کالا پانی کا پس منظر:
حالاں کہ کالا پانی کے قیدیوں سے جنگلوں کو صاف کرانے اور سڑک بنوانے کا کام لیا جاتا تھا، لیکن انھیں قید کرنے کا خاص مقصد انگریزی سرکار کے مفاد کو محفوظ رکھنا تھا۔ ہندوستان میں سلطنتِ انگلشیہ کے قیام کے موقع پر برطانیہ میں ”تعزیری بستی“ کا نظریہ عالمِ وجود میں آچکا تھا۔ یورپ کے مختلف ملکوں کے ذریعہ جغرافیائی مہمات اور سمندری راستوں کی تلاش شروع ہونے کے ساتھ ہی دور دراز علاقوں میں تعزیری بستیوں کا تعمیری عمل شروع ہو چکا تھا۔ امریکہ میں برطانوی نو آبادیات کے قیام کے ساتھ ہی وہاں تعزیری بستیوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔ سترہویں صدی کی آخری دہائیوں تک برطانیہ میں کوڑے لگانے، پھانسی دینے اور ملک بدر کرنے کی سزائیں عام تھیں۔ امریکہ کی آزادی کے بعد برطانیہ نے اپنے قیدیوں کو آسٹریلیا بھیجنا شروع کر دیا تھا۔
سزا کا مقصد قیدیوں کی اصلاح، انھیں ایک مہذب معاشرے میں رہنے کے لائق بنانا اور دوسروں کو جرم کے راستے پر چلنے سے روکنا ہے۔ ۱۹؍ ویں صدی کی ابتدا میں برطانیہ میں سزا کے ان مقاصد کا خیال پیدا ہوا۔انھیں مقاصد کے بطن سے پہلی بار برطانیہ میں قید اور عمر قید کی سزاؤں کا چلن شروع ہوا، اسی کے ساتھ تعزیری بستیوں کا رواج کم ہونے لگا، کیوں کہ دور دراز مقامات پر واقع جیلوں میں قید لوگوں کی اصلاح ممکن نہیں تھی۔
حالاں کہ انیسویں صدی کے برطانیہ میں نظامِ سزا میں اصلاح کا عمل شروع ہو چکا تھا لیکن اسی صدی میں سلطنتِ انگلشیہ نے ہندوستان میں انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد انقلابیوں کو انڈمان بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ یہ سزا صرف انقلابیوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ آئندہ اسّی برسوں تک تب تک جاری رہی جب تک دوسری عالمی جنگ کے سبب یہ سزا ناممکن نہیں ہو گئی۔
دیکھا جائے تو برطانوی نظامِ سزا میں یکسانیت نہیں تھی۔ برطانوی اور ہندوستانی ہر دو قوم کے افراد کے یکساں جرم کے لیے الگ الگ سزائیں دی جاتی تھیں۔ سلطنتِ انگلشیہ کا یہ دوہرا معیار اس وقت تک قائم رہا جب تک وہ ہندوستان سے چلے نہیں گئے۔
ہندوستانی نظامِ سزا کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ”میکالے“ نوآبادیاتی جیل نظام کا بھی بانی تھا۔ میکالے کی اس تکنیک کا مقصد یہ تھا کہ نظامِ عدل کی راہ ہموار کی جا سکے۔۱۷۳۵ء میں اس نے ایک کمیٹی قائم کر کے جیل کے قوانین کی تشکیل کی۔ اس کمیٹی نے ایک ایسے نظام کی ضرورت پر زور دیا جس میں ہر قید خانے کا ایک نگرانِ اعلیٰ ہو، ہر قیدی کے لیے الگ کوٹھری کا بندوبست ہو اور مادّی سہولتیں ناپید ہوں۔ انڈمان کی تعزیری بستی میں ہندوستانی قیدیوں کو جس نظام کے دائرے میں محدود کیا گیا تھا وہ ”میکالے“ کا ہی پروان چڑھایا ہوا تھا۔
سیاسی مجرم اور قانونِ حراست:
تعزیری بستیوں کی تاریخ میں انڈمان کا ایک خاص مقام ہے۔ انڈمان سے قبل کی تعزیری بستیاں ایسے لوگوں کے لیے قائم کی گئی تھیں جو نو آبادیاتی سلطنت کے لیے اندر سے خطرناک ہو سکتے تھے۔ قتل، لوٹ، ڈکیتی اور فریب کاری میں ملوث ہندوستانی مجرم اسی قبیل میں آتے تھے۔ ان سے نو آبادیاتی نظامِ قانون کے لیے ایک ایسا خطرہ پیدا ہو تا تھا جس سے نجات حاصل کیے بغیر نہ امن و امان قائم ہو سکتا تھا نہ نو آبادیاتی سلطنت کو استحکام حاصل ہو سکتا تھا۔ ایسے مجرموں کو ملایا اور ماریشش کی تعزیری بستیوں میں بھیج کر ان کے دل میں حکومت کا خوف اور عوام میں ایسے جرائم کے انجام کا خوف پیدا کرنے کا کام کیا گیا۔
اس کے بر خلاف ۱۸۵۷ء نے انقلاب نو آبادیاتی حکومت کے لیے ایک بالکل ہی الگ طرح کا خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ باغیوں نے نہ صرف نظامِ قانون بلکہ اس کے نافذ کرنے والے ادارے (کمپنی سرکار)کے لیے بھی خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ انھیں عام مجرموں کی صف میں نہیں رکھا جا سکتا تھا، نہ ہی انھیں مقامی جیلوں میں قید کیا جا سکتا تھا کیوں کہ غدر کے دوران ان باغیوں نے جیلوں کو ہی اپنا خاص نشانہ بنایا تھا، اور پھر انھیں عام قیدیوں کے ساتھ رکھنے کا انجام یہ ہوتا کہ ان کے باغیانہ نظریات دوسرے قیدیوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتے۔ ایسے میں نو آبادیاتی حکومت کو انڈمان سے زیادہ مناسب مقام نظر نہیں آیا، اور ایک بار وہاں تعزیری بستی کا قیام ہو گیا تو سبھی باغیوں کو وہیں بھیجنے کی سزا عام کر دی گئی۔
عام مجرم اور سیاسی مجرم کا یہ فرق ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پیدا ہو چکا تھا۔ ۱۷۹۳ء کے ایسٹ انڈیا کمپنی قانون نے اپنے گورنر جنرل کو یہ حق دیا تھا کہ وہ ہندوستان میں برطانوی مفاد کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی مشکوک فرد کو قید کر سکے۔ ساتھ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی قانون ایسے مشکوک افراد کو بھی یہ حق دیتا تھا کہ وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو جانے، قید کے حکم نامے کے خلاف گورنر جنرل سے اپیل کرے اور اپنے بچاؤ کے لیے ثبوت پیش کرے، لیکن ایسے کاموں کے لیے کوئی وقت متعین نہیں کیا گیا تھا ۔ اسی طرح کسی سیاسی قیدی کو بغیر مقدمہ چلائے قید کرنے کا حق ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے پاس محفوظ رکھا تھا۔ حالاں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ غیر قانونی حق دینے والی برطانوی پارلیمنٹ یہ بخوبی جانتی تھی کہ اس حق کے خلاف پیدا ہونے والی جد و جہد نے ہی برطانیہ میں جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی اور پارلیمنٹ کو اس قدر قوت عطا کی تھی۔
کالا پانی کے مسلم قیدی:
کالا پانی کی نذر ہونے والے مسلم مجاہدینِ آزادی کی تعداد ۳۱۴؍ ہے۔ ان میں سے چند کے اسماے گرامی یہ ہیں:
مولوی امیرالدین، بنگال کی پہلی شیر دل مجاہدہ رضیہ خاتون(انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور کالا پانی کی سزا کاٹنے کے لیے وہاں بھیج دی گئیں)، مولوی قاضی سرفراز علی، مفتی سید احمد بریلوی، مولوی علاء الدین خان،مولانا فضل حق خیر آبادی،مفتی عنایت احمد کاکوروی، مفتی مظہر کریم دریا بادی، مولوی قطب شاہ بریلوی، مولانا لیاقت علی خاں الٰہ آباد، مولانا احمد اللہ اعظمی، مولانا ریاض الحق،مولانا عبدالرحیم عظیم آبادی ، مولانا یحییٰ علی جعفری ، مولوی تبارک علی ،مولوی علاء الدین ،مولوی مظہر کریم وغیرہ۔
ان میں سے اکثر علما کو فرضی مقدمہ میں سازش کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ مقدمے دکھانے کے لیے چلائے جاتے تھے اور عمر قید یا پھانسی کی سزا کے لیے انہیں ’’کالا پانی‘‘ بھیج دیا جاتا تھا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام حقائق اور سچائی پر ہماری تاریخ نہ صرف خاموش ہے، بلکہ مجرمانہ طور پر ان سچائیوں کو ریکارڈ پر لا کر ملک کے سامنے پیش کرنے میں غفلت اور ناانصافی سے کام لیتی رہی ہے اور یہ کام اب تک جاری ہے۔
آج ان جیالے علماے کرام اور بزرگان دین کی کاوشوں اور قربانیوں کو جب ہم پڑھتے ہیں تو ظالموں کے سفید خون سے بے پناہ نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور ان سفید خون والے قبیلوں سے بھی جو آج آزاد ہندوستان میں علماے کرام پر انگلیاں اٹھا کر الزام لگاتے ہیں، ان کی عقل پر ترس آتا ہے کہ آج بھی وہ غیروں کی سازشوں کا شکار ہو کر اتحاد و امن کے لیے کام کرنے کے بجاے نفرت و حقارت کو پروان چڑھا کر آج بھی انہیںظالم حکمرانوں کی ہمنوائی کر رہے ہیں اور ہندوستان کی سالمیت کو کمزور کرنے اور دیمک لگانے کی سازش کرتے ہیں۔
علامہ فضل حق خیر آبادی اور کالا پانی:
علامہ فضل حق خیر آبادی انقلاب ۱۸۵۷ء کے پیش رو تھے۔ اس لیے ان کو ۳۰؍ جنوری ۱۸۵۹ء کو گرفتار کیا گیا اور لکھنؤ میں مقدمہ چلایا گیا۔ گرفتاری سے ۳؍ ہفتے کے اندر کیپٹن ایف اے وی تھریرن کی عدالت میں ۲۱؍ فروری ۱۸۵۹ء کو مقدمہ شروع ہوا۔ استغاثہ اور صفائی کے پانچ پانچ گواہوں کے بیانات کے بعد ۲۸؍ فروری ۱۸۵۹ء کو کپتان تھریرن نے فردِ جرم مرتب کر کے مقدمہ جوڈیشنل کمشنر اودھ کی عدالت میں منتقل کر دیا۔ جوڈیشنل کمشنر مسٹر جارج کیمبل اور میجر بارو قائم مقام حیدر آباد ڈویژن کی مشترکہ عدالت سے ۴؍ مارچ ۱۸۵۹ء کو قتل برانگیختہ اور بغاوت کے الزام میں بطور شاہی قیدی حین حیات حبس بعبور دریاے شور (کالا پانی) اور تمام جائداد کی ضبطی کی سزا سنا دی گئی۔ (باغی ہندوستان، ص:۲۴۸، عبد الشاہد خاں شروانی، المجمع الاسلامی ۲۰۰۱ء)
اپنی اس سزا کا حال علامہ فضل حق خیر آبادی نے اپنی کتاب الثورۃ الہندیہ میں رقم کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
”مکر و تلبیس سے نصاریٰ نے جب مجھے قید کرلیا تو ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے، اور ایک سخت زمین سے دوسری سخت زمین میں منتقل کرنا شروع کیا۔ مصیبت پر مصیبت اور غم پر غم پہنچایا۔ میرا جوتا اور لباس تک اتار کر موٹے، اور سخت کپڑے پہنا دیے۔ نرم و بہتر بستر چھین کر، خراب، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ گویا اس پر کانٹے بچھادئیے گئے تھے یا دہکتی ہوئی چنگاریاں ڈال دی گئی تھیں۔ میرے پاس لوٹا، پیالہ اور کوئی برتن تک نہ چھوڑا۔ بخل سے ماش کی دال کھلائی۔ اور گرم پانی پلایا، محبان مخلص کے آبِ محبت کے بجائے گرم پانی اور ناتوانی و کبر سنی کے باوجود ذلت و رسوائی سے ہر وقت سامنا رہا۔
پھر ترش رو، دشمن کے ظلم نے مجھے دریاے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، ناموافق آب و ہوا والے پہاڑ پر پہنچا دیا۔ جہاں سورج ہمیشہ سر پر ہی رہتا تھا۔ اس میں دشوار گزار گھاٹیاں اور راہیں تھیں، جنھیں دریائے شور کی موجیں ڈھانپ لیتی تھیں۔ اس کی نسیم صبح بھی گرم و تیز ہوا سے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلاہل سے زیادہ مضر تھی۔ اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی، اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں، اس کا آسمان غموں کی بارش کرنے والا، اس کا بادل رنج و غم برسانے والا، اس کی زمین آبلہ دار، اس کے سنگ ریزے بدن کی پھنسیاں اور اس کی ہوا ذلت و خواری کی وجہ سے ٹیڑھی چلنے والی تھی۔ ہر کوٹھری پر چھپر تھا۔ جس میں رنج و مرض بھرا ہوا تھا۔ میری آنکھوں کی طرح ان کی چھتیں ٹپکتی رہتی تھیں۔ ہوا بدبودار اور بیماریوں کا مخزن تھی۔ مرض سستا اور دوا گراں، بیماریاں بے شمار، خارش وقوباء (وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے) عام تھی بیمار کے علاج، تندرست کے بقائے صحت اور زخم کے اندر مال کی کوئی صورت نہ تھی، معالج، مرض میں اضافہ کرنے والا، معالج، ہلاک ہونے والا، طبیب، تکلیف و رنج بڑھانے والا تھا۔ رنجیدہ کی نہ غم خواری ہی کی جاتی نہ اس پر رنج و افسوس کا ہی اظہار ہوتا۔ دنیا کی کوئی مصیبت یہاں کی الم نام مصیبتوں پر قیاس نہیں کی جاسکتی یہاں کی معمولی بیماری بھی خطرناک ہے۔ بخار موت کا پیغام، مرض سر سام اور برسام (دماغ کے پردوں کو ورم) ہلاکت کی علت تام ہے۔ بہت مرض ایسے ہیں جن کا کتب طب میں نام و نشان نہیں۔ نصرانی ماہر طبیب، مریضوں کی آنتوں کو تنور کی طرح جلاتا اور مریض کی حفاظت نہ کرتے ہوئے آگ کا قبہ اس کے اوپر بناتا ہے۔ مرض نہ پہچانتے ہوئے دوا پلا کر موت کے منہ کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ جب کوئی ان میں سے مر جاتا ہے تو نجس و ناپاک خاکروب جو در حقیقت شیطانِ خناس یا دیو ہوتا ہے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہوا غسل و کفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریگ کے تودے میں دیا دیتا ہے۔ نہ اس کی قبر کھودی جاتی ہے نہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔
یہ کیسی عبرت ناک و الم انگیز کہانی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر میت کے ساتھ یہ برتاؤ نہ ہوتا تو اس جزیرے میں مر جانا سب سے بڑی آرزو ہوتی۔ اور اچانک موت سب سے زیادہ تسلی بخش تھی۔ اور اگر مسلمان کی خود کشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب و عقاب کا باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی یہاں مقید و مجبور بنا کر تکلیف مالا یطاق نہ دیا جاسکتا۔ اور مصیبت سے نجات پالینا بڑا آسان ہوتا۔
یہ ناقابل برداشت حالات تھے ہی کہ میں متعدد سخت امراض میں مبتلا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے میرا صبر مغلوب، میرا سینہ تنگ، میرا چاند دھندلا، اور میری عزت و ذلت سے بدل گئی۔ میں نہیں جانتا کہ اس دشوار و سخت رنج و غم سے کیوں کر چھٹکارا ہوسکے گا۔ خارش وقوباء میں ابتلا اس پر مستزاد ہے صبح و شام اس طرح بسر ہوتی ہے کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا ہے روح کو تحلیل کر دینے والے درد و تکلیف کے ساتھ زخموں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور دقت دور نہیں جب یہ پھنسیاں مجھے ہلاکت کے قریب پہنچا دیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عیش و عشرت و مسرت، راحت و عافیت میں زندگی بسر ہوتی تھی۔ اب محبوس و قریب ہلاکت ہوں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب محسود ِ خلائق غنی، اور صحیح و سالم تھا، اب اپاہج اور زخمی ہوں۔ بڑی سخت مصیبتیں اور بیسیوں صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی ہیں:
ٹوٹی ہوئی ہڈی جس طرح لکڑی اور پٹی کا بوجھ اٹھاتی ہے اسی طرح ہم بھی ناقابل برداشت مصیبتیں اٹھا رہے ہیں۔
ان تمام مصائب کے باوجود اللہ کے فضل و احسان کا شکر گزار ہوں کیوں کہ اپنی آنکھوں سے دوسرے قیدیوں کو بیمار ہوتے ہوئے بھی ، بیڑیاں پہنے ہوئے زنجیروں میں کھینچے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ انھیں لوہے کی بیڑیوں اور زنجیروں میں ایک سخت تیز، اور غلیظ انسان کھینچتا ہے۔ محنت اور مہنت، کینہ و عداوت کا پورا مظاہرہ کرتا ہے۔ تکلیفوں پر تکلیفیں پہنچاتا اور بھوکے پیاسے پر بھی رحم نہیں کھاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ان آفات و تکالیف سے محفوظ رکھا۔ میرے دشمن میری ایذا رسانی میں کوشاں اور میری ہلاکت کے در پے رہتے ہیں۔ میرے دوست میرے مرض کے مداوا سے لاچار ہیں۔ دشمنوں کے دل میں میری طرف سے بغض و کینہ مذہبی عقائد کی طرح راسخ ہوگیا ہے۔ ان کے پلید سینے کینہ و عداوت کے دفینے بن گئے ہیں۔“
سیلولر جیل:
اس جیل کی تعمیر ۱۹۰۶ء میں سلطنتِ انگلشیہ کے باغیوں کو اذیت دینے کے لیے کی گئی تھی۔ چوں کہ اس جیل کی اندرونی ساخت سیل(کوٹھری) جیسے ہے ، اس لیے اس کا نام سیلولر جیل رکھا گیا۔ تعمیری لحاظ سے دیکھا جائے تو اس جیل کے درمیان میں ایک ٹاور بنا ہے، جس سے سات شاخیں پھوٹتی ہیں۔ یہاں سے قیدیوں کی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔
یہاں ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے مجاہدینِ آزادی کو رکھا جاتا تھا، انھیں سخت اذیتیں دی جاتی تھیں جن میں چکی پیسنا ، تیل نکالنا، پتھر توڑنا، لکڑی کاٹنا، ایک ایک ہفتے تک ہتھکڑیاں باندھے کھڑے رہنا، تنہائی کے دن گزارنا، چار چار دن تک بھوکے رکھنا، دس دس دنوں تک کراس بار کی حالت میں رہنا وغیرہ شامل تھے۔ تیل نکالنے کی مل میں کام کرنا تو اور بھی درد ناک تھا۔ عموماً یہاں سانس لینا بہت دشوار ہوتا تھا ، زبان سوکھ جاتی تھی، دماغ سن ہو جاتے تھے، ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ کئی قیدیوں کی اس میں جان بھی جا چکی تھی ۔ ان کا جرم محض یہ تھا کہ انھوں نے مادرِ وطن سے محبت کی تھی اور اسے انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے نجات دلانا چاہتے تھے۔
۳۰؍ دسمبر ۱۹۴۳ء کو یہاں نیتا جی سباش چندر بوس نے ہندوستانی پرچم لہرایا، دوسری جنگ عظیم کے سبب اب یہاں قیدیوں کو لانا ممکن نہیں رہ گیا، اس لیے برطانوی حکومت نے اس قید خانے کا استعمال ترک کر دیا۔ ۱۹۴۷ء میں آزادیِ ہند کے ساتھ ہی یہ جیل ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی۔ اب اس میں ایک میوزیم ہے۔
سات کونوں والی سمندر کے کنارہ واقع یہ یادگار جیل آج بھی اسی حالت میں موجود ہے لیکن اس میں سے ایک بڑے حصہ کو جو چارگوشوںپر مشتمل تھا،منہدم کردیا گیا ہے،پھانسی کے وہ کمرے اور پھندے، سزاؤوں میں استعمال ہونے والے آلات، قیدیوں کے ملبوسات وغیرہ بھی محفوظ رکھے گئے ہیں ،جگہ جگہ ان کمروں کے باہر اور برآمدوں وغیرہ میں مجاہدین کے نام کتبوں میں لکھے ہوئے ہیں لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ان کتبوں میں مسلم مجاہدین آزادی کے نام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مجاہدین میں صرف شیر علی کا نام نمایاں طور پر درج ہے، جن کا تذکرہ گزشتہ سطور میں گزر چکا۔
علامہ فضل حق خیر آبادی کی آخری آرام گاہ:
۱۸۶۱ء میں جب علامہ فضل حق خیر آبادی کے فرزندِ عزیز علامہ شمس الحق خیر آبادی پروانۂ رہائی لے کر انڈمان پہنچے تو ایک جنازہ پر نگاہ پڑی۔ دریافت کرنے پر معلوم کہ کل ۱۲؍ صفر ۱۲۷۸ے مطابق ۱۸۶۱ کو علامہ فضل حق خیر آبادی کا انتقال ہو گیا ہے، اب سپردِ خاک کرنے جا رہے ہیں۔ یہ بھی بصد حسرت و یاس شریکِ دفن ہوئے اور بے نیل و مرام واپس ہوئے۔
علامہ فضل حق خیر آبادی کا مزار آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔آپ کی قبر اطہر انڈمان کے ساؤتھ پائنٹ (جسے عرفِ عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں) ایک بستی میں ہے، جس کا ایک سمندری کنارہ Ross جزیرہ سے قریب تر ہے۔ یہ وہی جزیرہ ہے جہاں علما وغیرہ کو جہاز سے اتارا جاتا تھا۔انگریز لیفٹیننٹ جنرل کاخوبصورت محل آج بھی وہاں پہاڑ کی چوٹی پر ہے ،اس کے علاوہ اُس زمانے میں سمندر کے کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کیلئے جو مشینیں لگائی گئی تھیں وہ بھی موجود ہیں ۔ سواؤتھ پوائنٹ میں علامہ کی قبر کے ساتھ مولوی لیاقت علی کی بھی قبر ہے جس کا ذکر تواریخ عجیب میں جعفر تھانیسری نے کیا ہے۔
علامہ فضل حق خیر آبادی کا مزار آج بھی مرجعِ خلائق بنا ہوا ہے، غیر مسلم زائرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہےاور مسلمانوں کی کم، ویسے بھی ان دنوں انڈمان میں جماعتیوں اور دیوبندیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کے مدرسے بھی ہیں اور مسجدیں بھی۔ اپنے لوگوں نے اُدھر توجہ نہیں کی شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں اہلِ سنت و جماعت کی نہ کوئی مسجد ہے نہ تعلیمی ادارہ۔ مزار پر بھی انھیں لوگوں کا قبضہ ہے جو قابلِ افسوس ہے۔مزار کی حالت بھی کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔ ٹین شیڈ کے نیچے دو قبریں ہیں جن میں سے ایک مولانا لیاقت علی کی اور دوسری علامہ فضل حق خیر آبادی کی ہے۔
سیلولر جیل پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والی ہندوستانی سرکار نے بھی اس مردِ مجاہد کو بعدِ مرگ ایک پختہ قبر تک نہ دی جس نے آزادی ہند کی بنیاد کے لیے اپنا خونِ جگر پیش کیا تھا۔
اپنے مٹنے کی ہمیں کچھ نہیں پروا لیکن
تونے سوچا ہے کچھ اپنا بھی زیاں، اے ساقی!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn