Qalamkar Website Header Image
حیدر جاوید سید، سینئر صحافی اور قلم کار ویب سائٹ کے ایڈیٹر

فقط اپنے اپنے حصے کا سچ بول دیجئے

Haider Javed Syedسیاپا فروشی اور تجزئیہ نگاری میں بہت فرق ہے ۔ سیاستدان سالے(عمران خان) کے خلاف مضامین لکھتے لکھتے ایک صاحب اب علاقائی سیاست پر چڑھ دوڑے، اسلام آباد میں چچا بوتل کے نام سے معروف ’’خلیفے‘‘ کے شاگرد عزیز و حفیظ سے اور توقع بھی کچھ نہیں کی جا سکتی۔ جن بنیادی سوالات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ یہ ہیں ۔ اولاََ پاکستان کی ملٹری اشرافیہ نے اس ملک کو امریکی لونڈی کا درجہ دلوانے میں عزت و فخر کیوں محسوس کیا؟آپ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی کیمپ میں پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان لے گئے یاپھر اس سے قبل اپریل 1947ء میں رائٹرز کے نمائندے سے ایک انٹرویو کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کایہ کہنا کہ ’’امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ مستقبل میں جنوبی ایشیاء میں اس کا اتحادی کون ہو سکتا ہے‘‘۔ جناح صاحب نے چندجملے اور بھی کہے لیکن انہیں دوہرانا حکمت اس لئے نہیں کہ نئی بحث کا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ اور بہت سے بت پاش پاش ہو جائیں گے۔ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے قبل لگڑبگڑقسم کی سول و ملٹری اشرافیہ اور ذہنی طور پر برطانوی سامراج کے غلام سیاستدان پاکستان کو امریکی کیمپ کا کل پرزہ بنوا چکے تھے۔
ایوب خان نے ذاتی آمدنی بڑھانے اور اقتدار کو طول دینے کے لئے پاکستان کو امریکہ کے لئے جاسوسی کا اڈہ بنایا۔ سی آئی اے سالانہ بنیادوں پر فیلڈمارشل ایوب خان کی ’’خدمت‘‘ فرماتی رہی۔ دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کا تکیہ بھی امریکہ پر رہا۔ اور تیسرے فوجی آمرضیاء الحق نے تو بے توقیری کی ساری حدیں ’’عزت‘‘ کے ساتھ پھلانگ جانے میں رتی برابر تامل محسوس نہ کیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے چوتھے ذی وقار فوجی آمر جنرل پرویز مشرف تو خیرسے امریکی شو بوائے ہی تھے۔ سو آج اگر ہم پاک امریکہ تعلقات پر بات کرنے لگیں تو کم از کم ہمیں یہ تو سمجھنا چاہیے کہ تعلقات اور بستہ برداری میں فرق ہوتا ہے۔ ہم لیاقت علی خان کے دور سے امریکہ کے بستہ بردار ہیں۔ دوستی مساوی حیثیت کے لوگوں میں ہوتی ہے۔ تعلقات باہمی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے جس عمارت کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو اس کے نگرانوں اور مکینوں (یہاں عمارت سے مراد نظام ہائے حکومت کی عمارت ہے) سے سچ بولنے اور استقامت کے مظاہرے کی توقع لطیفوں کو جنم تو دے سکتی ہے اس سے تاریخ یا عصری مسائل کے حل کے لئے مدد ممکن نہیں۔ دنیا بھرمیں اقوام اور ممالک کے درمیان تعلقات باہمی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ یہی اصول انسانی تاریخ میں بنیادی حیثیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے جس میں جولائی 1977ء تک دوستی اور دشمنی کا میعار مذہب تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسے مسلک میں تبدیل کر دیا۔ نقصان کس کا ہوا، پاکستانی عوام کا۔ مگر معاف کیجیئے گا کیا رعایا کی سوچ رکھنے والے عوام کہلانے کے حقدار ہیں؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے چار میں سے تین پڑوسی اس سے روٹھے روٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک ایران وہ پڑوسی ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا اور اقوام متحدہ کا رکن بننے میں مدد دی۔1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بساط مطابق مدد بھی کی۔ ویسے تو ہم ایٹمی دھماکوں کے بعد ایران کی طرف سے 56 کروڑ ڈالر کی خطیر امدادی رقم بھی بھول گئے۔ بھول ہی جانا چاہیے۔ بنیاد میں کج ہو توایسا ہی ہوتا ہے۔ میرا سوال بہت سادہ ہے وہ یہ کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں دلچسپی کیا فقط پاکستان کا حق ہے؟ آسان جواب یہ ہے کہ افغانستان کے سارے پڑوسی اور دوسری علاقائی قوتیں اس کی جغرافیائی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ سالے سے لڑائی میں تجزیہ نگار بنے ہوئے کو کون سمجھائے ۔ ایران نے گلبدین حکمت یار کو مرحوم قاضی حسین احمد کے کہنے پر پناہ دی تھی۔ ایران قیادت اپنے مرحوم رہنما آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کی جدوجہد کے زمانے میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے تعاون کی معترف تھی اس لئے انہوں نے امیرِ جماعت اسلامی پاکستان کی درخواست پر اس افغان لیڈر کو پناہ دی جو افغانستان کے اندر ایران کا سب سے بڑا مخالف سمجھا جاتا تھا۔ ملا منصور کی ہلاکت اور ڈرون ڈرامے پر تفصیل کے ساتھ معروضات پیش کر چکا۔ یہ جو’’اہلِ دانش‘‘ نیویارک ٹائمز یا دوسرے امریکی اخبارات وجرائد کی اُگلی ہوئی دانش سے تحریریں سنوار رہے ہیں یہ تو امریکی مقدمہ مضبوط فرمانے میں دونوں ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دو ٹانگوں اور کھوپڑی کی خدمات بھی بلا اُجرت پیش کئے ہوئے ہیں۔
حضور تعصب ذات و مسلک سے باہر نکل کر آزاد فضا میں سانس لے کر دیکھیے۔ خطے میں چودھری مانک الٰہی بننے کا صرف آپ کو حق نہیں۔ دوسرے بھی بستے ہیں اپنے مفادات کا تحفظ ان کا حق ہے۔ ہم ان کے حق پر چیں بچیں ہونے والے کون ہیں؟ اپنے گھر کی خبر کیجیئے۔ 30 لاکھ افغان مہاجرین یہاں دندناتے پھر تے ہیں۔ 5 لاکھ افغان خاندان پاکستان میں دو نمبر شہری دستاویزات کے ذریعے اربوں روپے کی املاک خرید چکے۔ کاروبارکرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 60 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن ہیں۔ افغانستان، بھارت ، ایران ، بنگلہ دیش برما اور نجانے کس کس ملک کے تارکین وطن ۔ جس کا جی چاہتا ہے منہ اُٹھائے چلا آتا ہے۔ امت مسلمہ کا درد چین نہیں لینے دیتا۔ کبھی امت مسلمہ کے کسی رکن ملک سے کہہ کر تو دیکھ لیجئے ہمارے دو چار سو بندے تو رکھ لے۔ جو جواب ملے گا چودہ طبق روشن کردے گا۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امہ پرستی کے بخار کا علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ ترکی ، مصر، اردن اور دیگر بہت سارے اسلامی ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب اور کویت اسرائیل سے معاشی روابط کا آغاز کر چکے۔ یہاں ہم ہیں ہزاروں میل دور بیٹھے مراثیوں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے ہیں۔ ’’اسرائیل کی نابودی ہی مسلم امہ کی معراج ہے‘‘۔ کیوں بھائی! ہماری کیا براہِ راست دشمنی ہے؟ جن سے ان کا براہِ راست جھگڑا ہے فلسطینیوں سے وہ بھی سفارتی تعلقات کا ڈول ڈال چکے کب کے۔
تاریخ اور عصری امور سے راہنمائی نہ لینے والوں کی زمانہ جو درگت بناتا ہے وہ ہماری بن رہی ہے۔ دوسروں کی دشمنیاں اور جنگوں کو گھر میں لے آنے کا نتیجہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ 80 ہزار سے زیادہ پاکستانی پاکستانیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ کس جرم میں ؟ کیا کبھی کسی نے بلوچستان اور سندھ کے موجودہ حالات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے ؟ امت کا رنڈی رونا روتے پھرتے اور داعش کوکلمۂ حق کی صدا قرار دینے والوں کی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں بلوچستان اور سندھ میں ریاست کے کردار پربات کرتے ہوئے۔ معاف کیجئیے گا ایٹمی طاقت مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ اپنے ہی پالے ہوئے لشکریوں کا انتظام کرنے کے نام پر چودہ کھرب روپے سے زیادہ پھونک دئیے گئے۔ ابھی تقاضہ مزید بھی ہے۔ چودہ کھرب کے غیر اعلانیہ دفاعی اخراجات سے حاصل کیا کیا ہم نے۔ نفرت و تعصب کی نئی لہر کے بڑھاوے کے سوا جو خیبر پختونخواہ کی نئی نسل میں ٹھاٹھیں مار رہی ہے۔بندگانِ خدا ! ہم اگر اپنے آج اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ نہیں تو کیا یہ سنجیدگی بھی جنسِ بازار ہے کہ خرید کر لے آئیں گے؟
مکرر عرض ہے داخلی و خارجی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں دوستوں کی ضرورت ہے دشمن بہت بنا چکے۔ یہاں تک کہ کثیر القومی ملک کی قومیں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ بداعتمادی کی فضا میں جی رہے ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ کچھ بوزنے فوج کے اقتدار کو نجاتِ کُلی سمجھتے ہوئے شور مچا رہے ہیں۔ آدھا ملک فوجی اقتدار کے برسوں میں گیا تھا۔ سیاچن بھی فوجی راج کے دنوں میں۔ فوجی اقتدار مسائل کا حل نہیں۔ بلکہ گھمبیر مسائل کی اماں جان ثابت ہوا۔حبِ ذات سے گندھی دانش کی بدہضمی میں مبتلالوگوں کو کوئی سمجھائے کہ وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہاہے۔ اصلاحِ امور کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی بقا اور تحفظ کی ضمانت ایک حقیقی قومی جمہوری نظام ہے۔ فلاحی ریاست ہمارے آج کی ہی نہیں ہمارے بچوں کے کل کی ضرورت بھی ہے۔ اس ضرورت کو مزید نظر انداز کرنا خطرناک ثابت ہوگا۔ ہمیں تلخ حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ آ ج کی دنیا میں ہمارا کوئی دوست نہیں اس لئے کہ ہم خود اپنے دوست نہیں ہیں۔ بات اگر سمجھ میں آگئی ہو تو ایک قدم آگے بڑھیئے اپنے حصے کا سچ بولیے تاکہ نئے عہد کا بیانیہ لکھا جا سکے۔ بصورت دیگر فاتحہ اور پلاؤ کھانے کی نوبت نہیں آئے گی۔

Views All Time
Views All Time
238
Views Today
Views Today
2

حالیہ پوسٹس