Qalamkar Website Header Image

ایک منٹ

Faiza Chمیرے نانا جی کے ایک منٹ نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیاہوا کچھ یوں کہ پچھلے دنوں میر ے نانا جی ہمارے گھر رہنے آئے ،بلکہ ہم خود زبردستی انہیں لے کہ آئے ۔
نانا جی کے ساتھ بیٹھ کہ روز رات کو مختلف خبروں پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ میرے نانا جی کو حالاتِ حاضرہ سے با خبر رہنے کا بہت شوق ہے ،اسی لیے نانا جی نیوز چینلز اور ٹاک شوز دیکھتے ہیں۔چھت پر نانا جی کا بستر لگا کر ان کے پاس بیٹھ کے موبائل سے نیوز پڑھ کے سناتی اور ان کی رائے لیتی تھی۔
ایک دن ناناجی صبح صبح میرے کمرے میں آے اور بولے بیٹا میں ایک منٹ سے بہت پریشان ہوں میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا نانا جی کون سے ایک منٹ سے؟؟؟نوجوان نسل کے ایک منٹ سے ،اس ایک منٹ سے جو شروع تو ہوتا ہے پر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا،میں نے پوچھا ناناجی وہ کیسے تو بولے بیٹا جب تیرے بھائی طلحہ(ماموں کا بیٹا) کو آواز دو وہ موبائل پر گیم کھیل رہا ہوتا ہے، جواب آتا داداجی ایک منٹ ،یا امی جی ایک منٹ ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد پھر آواز دی جاتی طلحہ پھر جواب آتا ایک منٹ۔۔۔۔۔۔یہ ایک منٹ پانچ ، سات، پندرہ اور بعض اوقات اس ایک منٹ کی رفتار اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ یہ ایک منٹ گھنٹوں پے محیط ہو جاتا ہے۔ایک منٹ ہے کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ نانا جی نے سنایا جو آج کی ایک منٹ والی نسل پر صادق بیٹھتا ہے۔بولے بیٹیا رانی میرا ایک دوست تھاا س کا ایک کام چور بیٹا تھا۔ایک دن میرے دوست کی طبیعت کچھ ناساز تھی تواس نے اپنے بیٹے سے بولاکہ بیٹا کھیتوں میں ہل لے جاؤ۔بیٹے نے جواب دیا اچھا ابا جی، تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد پھر باپ نے بولا بیٹا کھیتوں میں ہل لے جاؤ۔بیٹے کا پھر وہی جواب اچھا ابا جی،دو تین دفعہ مسلسل یہی جواب سن کر اس کے باپ کو بہت غصہ آیا اور وہ بولابیٹا تو مجھے اوئے ابا کہہ لے پر کھیتوں میں ہل لے جا۔یہی حال آج کی نوجوان نسل کا ہے کے انکار نہیں کرنا بلکہ ایک منٹ کے لامحدود عرصے کے انتظار پے لٹکا دینا ماں باپ کو۔
رودادا سنانے کے بعد نانا جی کہنے لگے بیٹا میں چاہتا ہوں آپ اس مسئلے پے لکھو۔ہم بوڑھے دادا دادی ،نانا نانی،چچا تایا ماں باپ سب کا مسئلہ یہ ایک منٹ بن گیا ہے۔جو کسی طور ختم ہونے میں نہیں آتا۔ ناناجی خاموش ہوئے تو میں سوچنے لگی کہ ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں نانا جی کہ ہم نوجوان نسل نے اس ایک منٹ کو اپنے بزرگوں کے لیئے بہت گھبمیر مسئلہ بنا دیا ہے۔آخر اس وبال سے ہم کب جان چھڑوائیں گے؟صرف نوجوان نسل ہی نہیں اب تو ہمارے بچے بھی موبائل کو یوں استعمال کرتے ہیں گویا عالمِ ارواح سے یہی کرتے چلے آرہے ہوں ۔حتیٰ کہ ایک سال کے بچے موبائل کی سکرین پر یوں اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیاں چلاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی۔میری بھتیجی ایک سال کی تھی جب اس کے ہاتھ آئی فون لگا ۔وہ اپنی پسند کی نظمیں نکال کر سنتی ہے ،اگر کوئی نظم اس کی پسند کی نا ہو تو محترمہ بیک کرتی ہیں اور اپنی پسند کی نظم نکالتی ہیں ۔اپنی پسند کی گیمز نکالنے کے لئے جب اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیاں سکرین پر چلاتی ہے تو بے اختیا ر اس پے پیار آجاتاہے۔ لیکن اس لمحے ہم یہ بھول جاتے ہیں کل جب یہ بڑی ہو گی اور ہم ناناجی کی طرح بوڑھے ہو جائیں گے تب ہمارے لئے بھی ایک منٹ ایک معمہ بن جائے گا۔ہم اپنے لئے یس ایک منٹ کو خود پروان چڑھا رہے ہیں ،گویا آ بیل مجھے مار والی کہاوت پر عمل پیرا ہو رہے ہیں۔آج اگر ہم خود ایک منٹ پے کنڑول کر لیں تو کل ہمارے لیے یہ ایک منٹ ایک منٹ ہی رہے گا نا کہ لامحدود انتظار کا عذاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Views All Time
Views All Time
320
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »