19 فروری سے شہر اقتدار میں انسانی حقوق پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس "منسٹری آف ہیومن رائٹس” کے زیر نگرانی جاری ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک اور اقوام متحدہ سے مندوبین آئے ہوئے ہیں۔ شہر کی بیشتر شاہراہیں رکاوٹیں لگا کر بند کی گئی ہیں تا کہ معزز مہمانان گرامی آرام سے کانفرنس کے مقام تک پہنچ سکیں اور جن پسے ہوئے نادار لوگوں کے لیے یہ کانفرنس منعقد کی گئی ہے انہیں مزید اذیت دے کر بھرپور احساس دلایا جائے کہ یہ میلہ انہی کی بہبود کے لیے سجایا گیا ہے۔
شرکاء کے خیالات اور جوش و ولولہ دیکھ سن کر تو ایسا لگ رہا ہے کہ سب انسانی حقوق کی ڈوبتی نیا پار لگا کر ہی اٹھیں گے۔ جیسا کہ کانفرنس مملکت خداد میں منعقد کی گئی ہے سو تمغہ امتیاز پر صرف اور صرف میرے حکمرانوں کا حق ہے۔چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ کر سنتے ہوئے مجھے یہ ساری کاروائی حقیقت سے کوسوں دور نظر آئی مگر کہیں لاشعور سے بار بار آواز آتی ہے کہ "دنیا کے دستور اور موقع کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے شرکاء پر واجب و ملزوم ہے کہ تصویر کا ایک ہی رخ پیش کیا جائے۔اعداد وشمار کو اس طرح پیش کیا جائے کہ کاروبار دکان مندی سے بچا رہے۔
مسقبل کی تصویر کشی اس خوبصورتی سے کی جائے کہ امید کی زندگی پھلتی پھولتی رہے”سو انسانی حقوق پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے پر وہ سب لوگ داد کے مستحق ہیں جو اس کاوش کو مکمل کرنے میں کامیاب رہے۔یہ تو ہو گئی بڑی بات شہر اقتدار میں ہو رہی بڑی کانفرنس کی۔ اب بات ہو جائے ایک چھوٹی سی بچی سے جڑے بڑے واقعے کی جو کل 18 فروری کو میری رہائش سے صرف 2 منٹ کی مسافت پر رونما ہوا اور ابھی تک انجام کو نہیں پہنچا۔ جس سانحے نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ گذشتہ 5 سالوں سے میں اس بچی رضیہ (فرضی نام) کو دیکھ رہی ہوں۔ایک بوڑھے میاں بیوی کے ساتھ رہتی ہے جن کے بچے بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم ہیں۔
رضیہ کو دیکھ کر کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ ایک ملازمہ ہے۔ صاف ستھری پیاری سی لڑکی انکل آنٹی کے ساتھ ایسے رہتی تھی جیسے اپنی سگی اولاد ہو۔ رضیہ کی ایمانداری اور بلند حوصلے کے مجھ سمیت آس پاس رہنے والے کئی لوگ صدق دل سے قائل ہیں۔ اکثر اوقات یہ ہوا کہ جب میں نے رضیہ کو پیسے دیے کہ بیٹا اپنے کام سے جا رہی ہو یہ ایک دو چیزیں مجھے بھی لادو۔رضیہ ہنسی خوشی مجھے قریبی دکان سے مطلوبہ سامان لا دیتی اور باقی بچنے والے پیسے انتہائی ایمانداری سے واپس کر دیتی، چاہے وہ رقم 50 روپے کی ہو یا پھر 50 پیسے کی۔میرے لاکھ کہنے کے باوجود کہ” رضیہ یہ تم رکھ لو”اس نے کبھی وہ پیسے نہ لیے اور ہمیشہ واپس کرتے ہوئے کہتی کہ” باجی میں نے آپ کا کام پیسے لینے کے لیے نہیں کیا”۔یہ صرف میرا تجربہ ہی نہیں بلکہ آس پڑوس رہتے سب ہی لوگ اس بچی کی اس ایمانداری سے واقف ہیں۔
سب کے کام کرتی ادھر سے ادھر بھاگتی پھرتی رضیہ ہم سب کو اپنی اپنی سی لگتی۔کل شام گھر آتے ہوئے میں نے دیکھا آنٹی کے گھر کے باہر کافی بھیڑ جمع تھی۔اور اس بھیڑ میں مجھے پولیس اہلکار، نجی سیکیورٹی کمپنی کے لوگ اور علاقہ مکین نظر آئے۔اتنے رش میں ان کے گھر جانا نامناسب تھا سو گھر پہنچتے ہی کافی تشویش کے ساتھ آنٹی کو فون کیا کہ پتا کروں کیا ماجرا ہے۔مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب آنٹی نے کہا "گھر میں چوری ہو گئی ہے، لاکھوں مالیت کی نقدی چرانے والی رضیہ ہے، باز پرس کرنے پر اس نے اپنا جرم قبول بھی کر لیا ہے”۔یہ سب سن کر میں عجیب دکھ اور غم و غصے کا شکار ہوں۔اس قدر ایماندار بچی جو ہمیشہ کہا کرتی تھی باجی مجھے شوق ہے میرے چھوٹے بہن بھائی پڑھ جائیں اور اچھے روزگار پر لگیں تاکہ ہم اپنا گھر خرید سکیں، ابا کو موٹر سائیکل لے کر دیں۔بہت افسوس ہے کہ رضیہ نے ایسا غلط کام کیا اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔مگر اس سے کہیں بڑھ کر افسوس مجھے اس بات پر ہے کہ سب نے یہ تو پوچھا کہ تم نے چوری کی ہے یا نہیں (اور منوا بھی لیا)۔
مگر کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ رضیہ سے پوچھیں آخر تم نے چوری کیوں کی؟ ایسی کیا ضرورت تھی جو تمہیں ایسا قدم اٹھانا پڑا؟ رضیہ نے اپنی نیک نامی اور ایمانداری کا گلا آخر کیوں کر گھونٹ ڈالا؟کہیں رضیہ کے اس چھوٹے جرم کے بڑے مجرم بحیثیت معاشرہ ہم سب تو نہیں؟کہیں اچھی رضیہ کو چور رضیہ بنانے والے ہم لوگ تو نہیں جو اپنے نام نہاد سوشل اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے عیش و آرام اور آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی زندگی گزارنے کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں؟ کہیں اس سانحے کے اصل ذمہ دار انسانی حقوق پر لاکھوں/کروڑوں روپیہ خرچ کر کے عالمی کانفرنس کا انعقاد کروانے والے میری ملمکت خداد کے حکمران تو نہیں جو ایک غریب اور بنیادی انسانی حقوق اور ضرورتوں کو ترستی ہوئی معصوم رضیہ کی ضرورت پہچان کر اس کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہے؟ کاش میں کانفرنس میں شریک تمام شرکاء اور اپنے حکمرانوں کو کہہ سکوں کہ آئیں اس کانفرنس کے بعد ایک اوپن ڈے مناتے ہیں نادار اور غریب لوگوں کے ساتھ۔جس طرح آج برطانیہ کی مسلم کونسل نے مساجد میں اوپن ڈے کا انعقاد کیا گیا تاکہ لوگ خود آ کر اپنے تجربے کی بنیاد پر رائے قائم کریں ہمارے مذہب اور کلچر کے بارے میں بجائے سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے (اس اوپن ڈے میں برطانیہ کے وزیراعظم نے بھی بھرپور شرکت کی)۔
ہمارے ہاں بھی مختلف تعلیمی ادارے اوپن ڈے منعقد کرتے رہتے ہیں تاکہ والدین اور طالب علموں کو موقع ملے مشاہدہ کرنے کا۔اسی طرح ہم سب کو بشمول حکمرانوں کو ضروت ہے کہ اوپن ڈے میں شامل ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ جن کو بنیادی حقوق دلوانے کے لیے سب جمع ہوئے ہیں کام کریں۔ بھوک کی اذیت، ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے درد میں سسکنا، سخت موسم کا مقابلہ کرنا ناموافق حالات اور وسائل میں مالی تنگ دستی کی بنا پر اپنی اولاد کو تعلیم اور معیاری تعلیم سے محروم رکھنے کا کرب اور زندگی کی چھوٹی بڑی خوشیوں کے لیے ترسنا/بلکنا کیا ہوتا ہے؟ محرومی کس قدر اذیت ناک ہے؟ ان دکھوں اس قدر اندازہ اور مداوا شاید کانفرنس کے انعقاد پر نہ ہو سکے جس قدر یہ ساری صعوبتیں چند لمحوں کے اپنی ذات پر جھیل کر ممکن ہو سکے گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn